صابرین کے لیے خوش خبری
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً ﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
مصائب و آلام، مصیبتوں اور پریشانیوں پر شکوے کو ترک کر دینا صبر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صبر کرنا انتہائی مشکل کام ہے کیوں کہ اس میں مشقت اور کڑواہٹ پائی جاتی ہے۔
صبر کی اس تلخی کو ختم کرنے کے لیے ایک اور صبر کرنا پڑتا ہے جسے مصابرہ کہتے ہیں۔ جب بندہ مصابرہ کے درجے پر پہنچتا ہے تو پھر صبر کرنے میں بھی لذّت محسوس کرتا ہے۔ صبر ایک عظیم نعمت ہے جو مقدر والوں کو نصیب ہوتی ہے۔
صبر مقاماتِ دین میں سے اہم مقام ہے اور ﷲ تعالی کے ہدایت یافتہ بندوں کی منازل میں سے ایک منزل اور اولوالعزم کی خصلت ہے۔
خوش قسمت ہے وہ شخص جس نے تقوی کے ذریعے ہوائے نفس پر اور صبر کے ذریعے شہواتِ نفس پر قابو پالیا۔ صبر کی اہمیت و افادیت اس سے عیاں ہوتی ہے کہ ﷲ رب العزت نے اس کا بے حساب اجر رکھا ہے۔
آج کا انسان دین سے دوری کی وجہ سے رب تعالی کی حضوری، ایمان بالغیب یعنی مرنے کے بعد کی دنیا، قیامت، یومِ حساب اور جنّت و دوزخ وغیرہ کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنا سب کچھ اس دنیا میں پورا کرنا چاہتا ہے۔
اگر ہم خالقِ کائنات کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس دنیا میں صبر سے کام لیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل خود بہ خود ہی حل ہو جائیں گے۔ کیوں کہ انسان، معاشرے یا خاندان میں جس بھی حیثیت یا عہدے پر ہے، ضروری نہیں کہ وہاں سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہو جیسا وہ چاہتا ہے۔
جب کوئی کام انسان کی مرضی و منشاء کے خلاف سرزد ہو تو یقیناً انسان غصے میں آتا ہے اور بعض اوقات غصے سے مغلوب ہو کر اس سے کچھ ایسی حرکات سرزد ہو جاتی ہیں جو اس کی شخصیت کو داغ دار بنا دیتی ہیں۔
گویا گھر کے ایک عام فرد سے لے کر معاشرے کے ایک اہم رکن تک اور کسی بھی ادارے کے ایک خدمت گار سے لے کر اس ادارے کے سربراہ تک ہر شخص کو خلافِ طبع و خلافِ معمول امور کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر کام یاب اس شخص کو گردانا جاتا ہے جس کی پریشانیوں سے دوسرے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ مشکلات کو بھی ہنس کر برداشت کرنا جانتا ہے اور ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو صبر کی دولت سے لبریز ہو۔
صبر صرف مشکلات پر نہیں ہوتا بلکہ امورِ اطاعت و فرماں برداری میں بھی صبر ہوتا ہے۔ ﷲ تعالی کی آزمائش پر صبر کرنے سے اس کی اطاعت پر صبر کرنا زیادہ آسان ہے۔ لہذا آج صبر کی اس اہمیت اور اس کی صداقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس معاشرے کو خوب صورت بنانے کے ساتھ اپنی دنیا و آخرت بھی سنوار سکیں۔
صبر: قرآن حکیم کی روشنی میں:
ﷲ رب العزت نے صبر سے مدد لینے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً ﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرہ)
آزمائش پر صبر ﷲ تعالی کی بشارت کا ذریعہ ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو مختلف طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر ان مشکلات کو ﷲ تعالی کی رضا کے لیے برداشت کر لیا جائے تو ایسے صبر والوں کو اجر کی خوش خبری ﷲ خود دیتا ہے۔
ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے: ''اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیبؐ) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیں۔ جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک! ہم بھی ﷲ ہی کے ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔'' (سورۃ البقر)
ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے: ''اور ہم نے اسے دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرمائی، اور بے شک! وہ آخرت میں (بھی) صالحین میں سے ہوں گے۔'' (سورہ رعد)
صبر تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا خاصہ رہا ہے۔ سورہ الانبیاء میں ارشاد فرمایا:
''اور اسمٰعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو بھی یاد فرمائیں، یہ سب صابر لوگ تھے۔''
صبر: احادیث مبارکہ کی روشنی میں:
حضرت سعدؓ روایت کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول ﷲ ﷺ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کن کی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ''انبیا ئے کرامؑ کی، پھر درجہ بہ درجہ ﷲ تعالی کے مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام و مرتبہ (ایمانی حالت) کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین اور ایمان میں مضبوط ہو تو آزمائش سخت ہوتی ہے، اگر دین اور ایمان میں کم زور ہو تو آزمائش اس کی دینی اور ایمانی حالت کے مطابق ہلکی ہوتی ہے۔
بندے پر یہ آزمائشیں ہمیشہ آتی رہتی ہیں حتی کہ (مصائب پر صبر کی وجہ سے اسے یوں پاک کر دیا جاتا ہے) وہ زمین پر اِس طرح چلتا ہے کہ اس پر گناہ کا کوئی بوجھ باقی نہیں رہتا۔''
اولاد بڑی نعمت ہے۔ اولاد کے ساتھ انسانی زندگی کی رونق دوچند ہے اور گویا جینے کا مقصد مل جاتا ہے مگر جب کسی وجہ سے اولاد چھن جائے تو انسان حواس باختہ ہو جاتا ہے۔
اس مشکل وقت میں صبر کرنے والے کے بارے میں مسند احمد اور سنن ترمذی کی یہ روایت پیش ہے جس میں رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جب کسی کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو ﷲ تعالی فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے نہایت پیارے بچے کی روح قبض کرلی؟ وہ کہتے ہیں: جی ہاں۔ ﷲ تعالی فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا پھل قبض کیا ؟ وہ عرض کرتے ہیں: جی ہاں۔ ﷲ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے نے اس پر کیا کہا ؟ وہ عرض کرتے ہیں: اس نے تیری حمد کی اور کہا: بے شک! ہم بھی ﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ ﷲ تعالی فرماتا ہے: اس کے لیے جنّت میں ایک مکان بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد (تعریف والا گھر) رکھ دو۔
حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: قیامت کے روز جب مصیبت زدہ لوگوں کو (ان کے صبر کے بدلے بے حساب) اجر و ثواب دیا جائے گا تو اس وقت (دنیا میں) آرام و سکون (کی زندگی گزارنے) والے تمنّا کریں گے: کاش! دنیا میں ان کی جِلد قینچی سے کاٹ دی جاتی (تو آج وہ بھی اِن عنایات کے حق دار ٹھہرتے)۔'' (جامع ترمذی)
حضور نبی اکرم ﷺ نے صبر کو نصف ایمان قرار دیا۔ (سنن بیہقی)
صبر کہنے کو تو آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا مشکل کام ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے آج کے دور کو مدِنظر رکھتے ہوئے صحابہ کرام ؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''تمہارے بعد ایسے دن آنے والے ہیں جن میں (دین پر جمنے رہنے پر) صبر کرنا دہکتے کوئلے کو مُٹھی میں پکڑنے کے مترادف ہے اور ایسے زمانے میں صبر کرنے والے کو اس جیسا عمل کرنے والے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا۔ دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے کہ صحابہؓ میں سے کسی نے پوچھا کہ پچاس اس کے زمانے کے یا ہمارے زمانے کے؟ تو آپؐ نے فرمایا: نہیں بلکہ آپ کے زمانے کے پچاس لوگوں کا ثواب ملے گا۔ (سنن ترمذی)
حضرت عبدﷲ بن عمرو بن عاصؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''قیامت والے دن جب ﷲ تعالی تمام مخلوق کو اکٹھا کرے گا تو پکارنے والا پکارے گا: صبر کرنے والے کہاں ہیں؟ کچھ لوگ اٹھیں گے جو تعداد میں کم ہوں گے اور وہ جلدی جلدی جنّت کی طرف جائیں گے۔
راستے میں انہیں فرشتے ملیں گے جو ان سے پوچھیں گے: ہم آپ لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ آپ جنت کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں، آخر آپ ہیں کون؟ وہ لوگ جواب دیں گے: ہم اہلِ صبر ہیں۔ فرشتے پوچھیں گے کہ آپ نے کس بات پر صبر کیا ؟ وہ جواب دیں گے: ہم نے ﷲ تعالی کی اطاعت پر اور گناہوں سے بچنے پر صبر کیا۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ جنّت میں داخل ہو جائیں، بے شک! صبر کرنے والوں کا یہی اجر ہے۔ (علامہ ابن القیم، عدۃ الصابرین)
حضرت عبدﷲ بن جعفرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ حضرت یاسرؓ، عمار بن یاسرؓ اور ام عمارؓ کے پاس سے گزرے، جب انہیں اذیّت دی جا رہی تھی تو رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: ''اے ابُو یاسر و اہلِ یاسر! صبر کرو، بے شک! آپ کی جزا اور بدلہ جنّت ہے۔''
امام قشیری رسالہ قشیریہ میں حضرت علی کرم ﷲ وجہہ کا قول نقل کرتے ہیں:
حضرت علی کرم ﷲ وجہہ نے فرمایا: ''ایمان میں صبر کا وہی مقام ہے جو بدن میں سر کا ہوتا ہے، بغیر سر کے جسم ہلاک ہو جاتا ہے۔ پھر آپؓ نے بہ آوازِ بلند فرمایا کہ جس کا صبر نہیں اس کا ایمان نہیں۔ صبر ایسی سواری ہے جو کبھی نہیں بھٹکتی۔''
حضرت علی کرم ﷲ وجہہ نے فرمایا: صبر کے چار ستون ہیں: شوق، شفقت، زہد، انتظار۔
چناں چہ جو آگ سے ڈرا وہ محرمات سے دُور ہوگیا اور جو آدمی جنّت کا مشتاق ہوا وہ شہوات سے سلامت رہا۔ جو آدمی دنیا میں زاہد ہُوا اس پر مصائب آسان ہوگئیں اور جس نے موت کا انتظار کیا اس نے بھلائیوں کی طرف جلدی کی۔ چناں چہ آپؓ نے ان مقامات کو صبر کے ارکان فرمایا، اس لیے کہ یہ صبر سے نکلتے ہیں اور ان تمام ارکان میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے اور زہد کو ان میں سے ایک رکن قرار دیا۔
ﷲ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین