اسلام میں دوستی کا معیار
چناں چہ وہ فرشتے ان ذکر کرنے والوں کو آسمان دنیا تک اپنے پروں میں ڈھانپ لیتے ہی
ﷲ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت اور مزاج میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ تنہائی سے گھبراتا ہے اور اپنے اوقات کو خوش گوار گزارنے کے لیے دوست کو تلاش کرتا ہے تاکہ اس سے دل کی باتیں کہہ سکے۔ اس لیے شریعت اسلامیہ نے نیک دوست اور ہم نشین بنانے کی ترغیب دی ہے، اہل ﷲ کی صحبت اختیار کرنے کو لازم قرار دیا ہے اور کفار، فساق اور بداخلاق دوستوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔
حضرت عمران بن حطانؒ کہتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد میں گیا تو وہاں پر حضرت ابُوذرؓ اکیلے تشریف فرما تھے، میں نے عرض کیا: اے ابوذرؓ! یہ تنہائی کیوں اختیار کی ہوئی ہے؟ حضرت ابوذرؓ نے فرمایا: میں نے رسول ﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بُرے دوستوں کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے اور نیک لوگوں کی صحبت تنہائی سے بہتر ہے اور اچھی بات کہنا خاموشی سے بہتر جب کہ بُری بات کرنے سے خاموش رہنا بہتر ہے۔
(شعب الایمان للبیہقی)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: قیامت کے دن سات آدمیوں کو ﷲ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں جگہ دیں گے اور وہ ایسا دن ہوگا کہ کہ عرش کے سائے کے علاوہ اور سایہ نہیں ہوگا۔ عدل کرنے والا حکمران۔ جوانی میں عبادت کرنے والا۔ جس کا دل مسجد میں لگا رہے اگر کسی وجہ سے باہر نکلے تو دوبارہ مسجد میں آئے۔ وہ دو لوگ جو ﷲ کے لیے آپس میں دوستی اور محبت کریں، ان کا آپس میں جمع ہونا اور جُدا ہونا ﷲ کے لیے ہو۔ تنہائی میں ﷲ کا ذکر کر کے رونے والا۔ حسب نسب والی حسین و جمیل عورت کی دعوت گناہ (حرام کاری) کو ﷲ کے خوف سے چھوڑنے والا۔ اس طرح چھپا کر صدقہ دینے والا کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں نے کیا خرچ کیا ہے۔ (مؤطا مالک)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: قرآن کریم ہر ایک سے زیادہ فضیلت والا ہے جس نے قرآن کریم کی تعظیم کی تو درحقیقت اس نے ﷲ کی تعظیم کی (کیوں کہ قرآن کریم ﷲ تعالیٰ کی صفت ہے) اور جس نے قرآن کریم کی بے قدری کی درحقیقت اس نے ﷲ تعالیٰ کے حق کی بے قدری کی۔
حاملین قرآن ﷲ تعالیٰ کی رحمت میں ہر طرف سے لپٹے ہوئے ہیں۔ کلام ﷲ کی عظمت کرنے والے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے نور ِہدایت میں ملبوس ہیں۔ جنہوں نے ان حاملین قرآن سے دوستی رکھی تو انہوں نے ﷲ سے محبت کا رشتہ جوڑ لیا اور جنہوں نے ان سے دشمنی رکھی تو انہوں نے ﷲ تعالیٰ کے حق کی ناقدری کی۔ (تفسیر القرطبی)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ﷲ تعالیٰ کے کچھ (مقرر کردہ) فرشتے ﷲ کا ذکر کرنے والوں کو تلاش کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر چکر لگاتے ہیں اور اس دوران جب وہ ایسے لوگوں کے پاس پہنچتے ہیں جو ﷲ کا ذکر کر رہے ہوں تو ایک دوسروں کو کہتے ہیں کہ آؤ! ہمیں منزل مقصود مل گئی۔
چناں چہ وہ فرشتے ان ذکر کرنے والوں کو آسمان دنیا تک اپنے پروں میں ڈھانپ لیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ﷲ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے باوجود (ﷲ کا ذکر کرنے والوں کی فضیلت اور مرتبے کو ظاہر کرنے کے لیے) فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ میرے بندے کیا کر رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ﷲ! آپ کی پاکی، بڑائی، تعریف اور بزرگی بیان کر رہے تھے۔
اس پر ﷲ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ قسم بہ خدا! انہوں نے آپ کو نہیں دیکھا۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو پھر؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پھر تو وہ آپ کی پہلے سے بڑھ کر عبادت، بزرگی، بڑائی اور پاکی بیان کریں گے۔
ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ کیا مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ آپ سے جنت مانگ رہے تھے۔
ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا انہوں نے جنت کو دیکھا بھی ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ قسم بہ خدا! انہوں نے جنت کو نہیں دیکھا۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ جنت کو دیکھ لیں تو پھر؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پھر تو وہ جنت کے اور ہی زیادہ حریص، اس کی بہت ہی دعا مانگنے والے اور زیادہ اس کی طرف رغبت کرنے والے بن جائیں گے۔
ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جہنم سے۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا بھی ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ قسم بہ خدا! انہوں نے جہنم کو نہیں دیکھا۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ جہنم کو دیکھ لیں تو پھر؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پھر تو وہ اس جہنم سے دور رہنے کی اور زیادہ کوشش کریں گے اور اس سے پہلے سے زیادہ ڈریں گے۔
ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان سب کی بخشش کر دی ہے۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ عرض کرتا ہے کہ (اے ﷲ) اس جماعت میں فلاں شخص ذکر ﷲ کے بہ جائے اپنی کسی ضرورت کے تحت آیا ہوا تھا۔ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ ایسی خوش قسمت جماعت ہے کہ ان سے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والا شخص (خواہ وہ ذکر نہ بھی کر رہا ہو تب بھی وہ) محروم نہیں ہوتا۔ (صحیح البخاری)
مفہوم آیت:''اے ایمان والو! ﷲ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔'' (سورۃ التوبۃ)
ان لوگوں کے ساتھ رہو جو تقویٰ میں سچے ہیں ﷲ تمہیں بھی تقویٰ عطا فرما دیں گے۔ یاد رکھیں کہ اپنی زندگی کے اکثر اوقات متقین لوگوں کے ساتھ گزارنے سے ﷲ تقویٰ جیسی دولت عطا فرماتے ہیں۔
آج کل کی دوستیوں کا معیار نیکی اور تقویٰ نہیں رہا۔ دنیاوی مفادات، بیہودہ مجالس، لہو و لعب اور گناہوں کی جگہیں دوستی کا معیار بن چکی ہیں۔ وقت گزاری کے لیے لوگ ایک جمع ہوتے ہیں جہاں وہ کسی کی غیبت، عیب گوئی، بہتان طرازی، دل آزاری اور اپنے گناہوں کو ایک دوسرے کے سامنے فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
اس طرح کی مجالس سے قرآن کریم نے دور رہنے کا حکم دیا ہے کہ رحمٰن کے بندے غلط کام میں شریک نہیں ہوتے اور بیہودہ مجالس کے پاس شرافت سے گزر جاتے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے اوصاف میں ایک وصف بُری مجالس سے دوری ہے۔
کسی بیہودہ مجلس پر گزر ہو تو شرافت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ بے حیائی، ناچ گانا، محفل موسیقی، شراب و کباب کی مجالس ال غرض کسی بھی ناجائز اور ناحق کام کی مجلس میں شریک نہیں ہوتے۔
مفہوم آیت: ''اور جس دن ظالم کافر انسان اپنے ہاتھوں کو حسرت و افسوس سے کاٹ کھائے گا اور کہے گا کہ اے کاش! میں نے رسول (ﷺ) کی ہم راہی اختیار کرلی ہوتی تو آج مصیبت سے بچ جاتا، ہائے! میری کم بختی و بربادی! کاش میں نے فلاں کافر یا بُرے شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ میرے دوست نے نصیحت کے آجانے کے باوجود مجھے اس سے بھٹکایا اور شیطان تو ہے ہی عین موقع پر دھوکا دینے والا۔'' (سورۃ الفرقان)
لمحہ فکریہ! ابھی وقت ہے اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں، دوست و احباب پر نظر کریں ایسے لوگ جو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، ان اہل ﷲ، علماء و صلحاء سے دوستی اور تعلق بنائیں اور نبھائیں بھی۔ ان کے پاس کثرت سے آنا جانا اور اٹھنا بیٹھنا رکھیں اور جو لوگ دوستی کی آڑ میں نیکی میں رکاوٹ بنیں، برائی کے لیے راہ ہم وار کریں اور گناہوں پر مجبور کریں ان سے خود کو بچائیں۔
ﷲ کریم ہم سب کو توفیق نصیب فرمائے