توہین صحابہ و اہل بیت بل پر اعتراض کیوں

قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے توہین صحابہ و اہل بیت و امہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین بل پاس کرلیا ہے


[email protected]

اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم حکومت کوششوں کے باوجود تبدیلی سرکار کے پیدا کردہ معاشی بحران سے نمٹنے میں تادم تحریر ناکام ہے مگر یہ حقیقت ماننا پڑے گی کہ شریعت مطہرہ کے قوانین کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی اور ہو رہی ہے جس کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمن صاحب اور جمعیت علمائے اسلام کو دینا پڑے گا۔

اس سلسلے میں ایک اور تازہ ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے توہین صحابہ و اہل بیت و امہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین بل پاس کر لیا ہے۔

پی ڈی ایم ہی کے دور اقتدار میں اس سے پہلے سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت نے جو فیصلہ دیا تھا، اسے سرکاری اور نجی بینکوں نے چیلنج کر رکھا تھا، مولانا فضل الرحمٰن، مفتی تقی عثمانی، قاری محمد حنیف جالندھری اور دیگر اکابرین کی کاؤشوں سے وزیر اعظم میاں شہاز شریف نے اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل واپس لے لیں۔

اسی طرح وفاق المدارس العربیہ سمیت پاکستان میں موجود تمام مسالک کے مدارس کے اتحاد، اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی قیادت نے وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کی جس میں مولانا فضل الرحمن، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمٰن اور قاری محمد حنیف جالندھری شامل تھے، انھوں نے وزیر اعظم سے مدارس کو درپیش مسائل اور خاص طور پر بینک اکاؤنٹس کھولنے اور رجسٹریشن کے مراحل کو آسان بنانے کی درخواست کی جسے وزیر اعظم نے منظور کیا۔

اس اقدام سے پاکستان بھر کے اسلام پسند طبقات کے دلوں کو راحت ملی۔ اب قومی اسمبلی میں جو توہین صحابہ و اہل بیت بل پاس ہوا ہے اس سے مسلمانان پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ہر مسلمان ناموس رسالت و ختم نبوت کا دفاع اور صحابہ کرام، اہل بیت عظام اور امہا ت المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ناموس کا دفاع اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے، عالم ِاسلام میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ناموس صحابہ، ناموس اہل بیت اور ناموس امہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک حساس موضوع رہا ہے کیونکہ ماضی میں پاکستان کی دشمن قوتوں نے ہمیشہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے اِس حساس موضوع کو اپنا ہتھیار بنایا اور اِسی ہتھیار سے پاکستان کے گلی کوچوں میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی گئی۔ ہزاروں علمائ، طلبا اور شہری اِن فسادات کی لپیٹ میں آئے اور اپنی جانوں کو قربان کرکے دنیا سے رخصت ہوگئے۔

بے شمار زخمی آج بھی معذوری کی زندگیاں بسر کررہے ہیں۔ ہر مسلمان کا یہ یقین ہے کہ صحابہ کرام، اہل بیت عظام اور امہات المومنین دین کے موقع کے گواہ ہیں۔گواہوں پر شک نعوذ باللہ پورے دین پر شک کے مترادف ہے۔

اِسی لیے جب بھی کسی دشمن نے اسلام کے کسی مسئلے میں مخالفت کی ہے تو اْس نے صحابہ کرام، اہل بیت عظام اور امہات المومنین کی مخالفت کی۔ نہ اْس نے حدیث سے انکار کیا ، نہ قرآن کا انکار کیا۔ نہ پیغمبر کی عظمت کا انکار کیا۔ جو دین پہنچانے کا ذریعہ تھے۔ نبی اور امت کے درمیان، قرآن کے موقع کے گواہ تھے۔ سنت کے موقع کے گواہ تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کے اترنے کے گواہ تھے۔ جبرائیل علیہ السلام کے آنے کے گواہ تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے کے گواہ تھے۔ پیغمبر کی اک اک اداؤں کے گواہ تھے۔ نبی کی وفاؤں کے گواہ تھے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک عمل کے گواہ تھے۔ اْن پر جرح کی گئی، تنقید و تحقیر کی گئی۔ جب اِن مقدس شخصیات پر جرح ہوگی تو یقین کمزور ہوگا، ایمان کمزور ہوگا۔ جب گواہ پر جرح ہوجائے تو کیس کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے اسلام تب باقی ہے جب صحابہ اہل بیت اور امہات المومنین محفوظ ہیں۔ اِن مقدس شخصیات کو درمیان سے نکالیں تو اسلام باقی نہیں رہتا ہے۔

اسی لیے پاکستان کے مسلمانوں نے ناموس رسالت و ختم نبوت کے دفاع کے بعد سب سے زیادہ زور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ صحابہ کی جماعت اور آپ کے اہل بیت کی ناموس پر دیا۔ یہ وہ عنوان ہے جس نے ہمیشہ مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کیا گیا، اْن کے جذبات کو آگ دکھانے کی کوشش کی گئی۔

صحابہ کرام اہل بیت عظام اور امہات المومنین ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہیں۔ اسی لیے ہر مسلمان اِن مقدس شخصیات کی ناموس پر حملے کو اپنے ایمان پر حملہ تصور کرتا ہے۔ اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں نے ہمیشہ ہمارے درمیان سے ہی کچھ کرایے کے ٹٹوؤں کو خریدا اوراْن کے ذریعے اِس حساس عنوان پر ملک کے امن کو تار تار کرنے کی کوشش کی۔

جب بھی آگ لگانے کی کوشش کی گئی ملک کے جید علمائے کرام میدان عمل میںآئے اور انھوں نے ہمیشہ اپنے عمل سے آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کی۔ صحابہ کرام ، اہل بیت اور امہات المومنین کی توہین کے اس ناپاک سلسلے کو روکنے کے لیے حکومتوں نے قانون سازی بھی کی۔

یہی وجہ کہ صحابہ کرام، اہل بیت عظام اور امہات المومنین کی توہین پر پہلے سے ایک قانون موجود ہے جس کے تحت جس شخص پر یہ جرم ثابت ہوجائے اْس ملعون کو تین سال قید یا جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے، اسی قانون کے تحت یہ جرم قابل ضمانت بھی ہے جس کا فائدہ ہمیشہ اِن اسلام دشمنوں نے اٹھایا۔

آج پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس کمزور قانون کی جگہ ایک قدرے مضبوط قانون لانے کا بل منظور کرلیا ہے۔ اس خبر نے پاکستان میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کو راحت بخشی کیونکہ اِس خبر کا تعلق ہر مسلمان کے ایمان سے جڑا ہے۔ قومی اسمبلی نے توہین صحابہ، توہین اہل بیت اور توہین امہات المومنین پر عمر قید کی سزا کا بل منظور کرلیا ہے۔

یہ بل جماعت اسلامی پاکستان کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالکبر چترالی صاحب کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔ جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ہے۔ اِس بل کی منظوری میںاِس وقت پارلیمنٹ میں موجود جتنی بھی جماعتیں ہیں سب کے اراکین نے ووٹ دیا اور اِس بل کی کھل کرمکمل حمایت کی۔

پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی، اے این پی، ہر جماعت نے اِس کی حمایت کی اور اِسے پاس کرانے میں دینی غیرت کا عملی مظاہرہ کیا۔ جو ہر پاکستانی کے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری اور اطمینان کی بات ہے۔

اِس بل کے تحت جو شخص اِس ناپاک سلسلے میں ملوث پایا گیا اْسے عمر قیداور جرمانے کی سزا ہوگی۔ اِس بل میں دوسرا بڑا کام یہ کیا گیا کہ یہ اِسے ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے۔گو کہ مولانا عبدالکبر چترالی نے تجویز پیش کی تھی کہ اِس ناپاک جسارت میں ملوث ملعونوں کو سزائے موت دی جائے تاہم قومی اسمبلی نے عمر قیدکا بل پاس کر لیا ہے۔

قومی اسمبلی کے بعد اب یہ بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا، جب سینیٹ سے بھی پاس ہوجائے گا تو صدر مملکت اس پر دستخط کر دیں گے اور یہ پورے ملک میں نافذ العمل ہوجائے گا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کی جانب سے اس بل کی مخالفت کی جا رہی ہے حالانکہ اس بل کی حمایت تو انھیں بھی کرنا چاہیے تاکہ ایک ایسا مسئلہ جس پر ملک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوتا رہا ہے وہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے۔ اس لیے حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اسے سینیٹ سے بھی متفقہ طور پر منظور کرائے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔