ہائی کورٹس کا دائرہ اختیار
امید یہی کی جاتی ہیں کہ تمام عدالتیں اپنی حدود کے مطابق ہی کام کریں گی
پاکستان میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار پورے ملک پر ہے۔ سپریم کورٹ کے نیچے پانچ ہائی کورٹس ہیں۔ چاروں صوبوں کا اپنا اپنا ایک ہائی کورٹ ہے جب کہ وفاقی دارالحکومت کا الگ اسلام آباد ہائی کورٹ ہے جس کا دائرہ اختیار صرف اسلام آباد تک ہے۔
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے اپنے اپنے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ ہیں۔ چاروں صوبائی ہائی کورٹس کی حدود وہی ہیں جو صوبائی حکومت کی حدود ہیں۔ جیسے صوبے کی حدود ختم ہوتی ہیں، ویسے ہی اس ہائی کورٹ کی حدود بھی ختم ہو جاتی ہیں۔
یہ تقسیم بہت واضح ہے اور امید یہی کی جاتی ہیں کہ تمام عدالتیں اپنی حدود کے مطابق ہی کام کریں گی۔ اسی طرح ماتحت عدلیہ کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ سیشن کورٹ کی ضلعی حدود ہوتی ہیں۔ وہ اپنے ضلع سے باہر کے مقدمات نہیں سن سکتی، جیسے ہائی کورٹس اپنے صوبے سے باہر کے مقدمات نہیں سن سکتی۔
اسی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج نے گزشتہ روز فواد چوہدری کی حبس بے جا کی درخواست خارج کر دی کیونکہ فواد چوہدری کے خلاف مقدمہ اسلام آباد میں درج ہے۔ اسی لیے انھیں ضمانت دینے اور مقدمہ خارج کرنے کا اختیار بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کا ہی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نہ ضمانت دے سکتی ہے اور نہ ہی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت کا اختیار رکھتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ آئی جی صاحب کو بلانا بھی جیوڈیشل ایکٹوازم ہی تھا۔ جب یہ پتہ چل گیا تھا کہ اسلام آباد میں درج مقدمے میں گرفتاری ہوئی ہے اور لاہور میں مجسٹریٹ کی عدالت سے راہداری ریمانڈ لے لیا گیا ہے تو حبس بے جا کی درخواست وہیں خارج ہو جانی چاہیے تھی، انھیں پیش کرنے کا حکم اس کے بعد بنتا نہیں تھا، عدالت کو یہی تسلی چاہیے تھی کہ معاملہ حبس بے جا کا ہے یا نہیں ۔ آئی جی اسلام آباد کی طلبی بھی پر بھی ایک سوال ضرور موجود ہے۔
بہرحال عدالتیں ثبوت دیکھ کر ہی فیصلہ کرتی ہیں، لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج صاحب کو جب ثبوت دے دیے گئے تو انھیں حبس بے جا کی درخواست خارج کردی۔ عدالتوں کے غلط احکامات بھی ماننے ہوتے ہیں، یہی نظام انصاف کی بنیاد ہے۔
اسی طرح آجکل اسلام آباد ہائی کورٹ او ر لاہور ہائی کورٹ کے درمیان ایک اور زبردست مقدمہ چل رہا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الیکشن کمیشن کے ایک حکم کے خلاف پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، لیکن جب انھیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے وہ ریلیف نہیں ملا سکا جس کی انھیں تلاش تھی تو تحریک انصاف اور عمران خان نے وہی پٹیشن لاہور ہائی کورٹ میں دائر کر دی اور وہاں سے ریلیف حاصل کی کوشش شروع کر دی۔
اس طرح اب ایک ہی مقدمہ ملک کے دو ہائی کورٹس میں بیک وقت زیر سماعت ہے۔ عمران خان نے پہلے اس بات کو خفیہ رکھا۔
اسلام آباد میں التوا لینے کی حکمت عملی بنائی گئی تاکہ لاہور میں سماعت مکمل کرا لی جائے اور ریلیف لے لیا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے علم میں جب یہ بات آئی تو انھوں نے تحریک انصاف کے وکیل کی عدالت میں سرزنش کی کہ آپ کیا ایک مقدمہ دو عدالتوں میں چلا رہے ہیں۔ جس کے بعد تحریک انصاف نے اسلام آباد ہوئی کورٹ سے مقدمہ واپس لینے کی درخواست دائر کر دی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں ہی سنا جائے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست واپسی کی مخالفت کی ہے۔ ان کے رائے میں آپ ریلیف لینے کے لیے اپنی مرضی کے فورم کا نتخاب نہیں کر سکتے۔ جیسے آپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ آپ خود یہ طے کر سکیں کہ آپ کا مقدمہ کونسا جج سنے۔ اسی طرح آپ کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ آپ کا مقدمہ کونسی عدالت سنے۔ عدالتوں کے دائرہ اختیار آئین میں طے کیے گئے ہیں۔ جہاں ابہام ہو وہاں اس کی تشریح کر دی جاتی ہے۔
اسی لیے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے موجود ہیں کہ آپ نے پہلے جس عدالت سے رجوع کیا ہے، آپ کا مقدمہ وہیں سنا جائے گا۔ بعد میں عدالت بدلنے کا اختیار مدعی کو نہیں دیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کے انھیں فیصلوں کی روشنی میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست کی واپسی کی مخالفت کی گئی ہے۔
ابھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ درخواست واپسی کی اجازت دیتے ہیں کہ نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کو پہ چل گیا ہے تو لاہور ہائی کورٹ کے علم میں نہیں ہے۔ میر ی رائے میں لاہور ہائی کورٹ کو از خود یہ مقدمہ بھاری جرمانے کے ساتھ خارج کر دینا چاہیے تا کہ آیندہ کسی کو عدالت کو دھوکہ دینے کی جرات نہ ہو۔
یہ عدالت کو دھوکہ دینے کی ایک عمدہ مثال ہے کہ آپ نے پہلے ایک ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ،پھر دوسرے میں دائر کر دی۔ دونوں ہائی کورٹس کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ اہم اور غیر اہم کی بحث سے قطع نظر یہ آئین و قانون کا معاملہ ہے۔ نظام انصاف کی ساکھ کا معاملہ ہے۔
حال ہی میں بنچ فکسنگ کا معاملہ بھی بہت اہم رہا ہے۔ ایک ہی بنچ سب سنے یہ بھی ٹھیک نہیں۔ سب ججز کو موقع ملنا چاہیے۔ سنیئر ججز کو نظر انداز کر نا ٹھیک نہیں۔ جس طرح قوم نے سوموٹو کے بے جا استعمال کو پسند نہیں کیا۔ اسی طرح بنچ فکسنگ میں بھی ایک مربوط پالیسی کی ضرورت ہے۔
کیا یہ گلہ درست نہیں کہ ایک فریق کے ضمانت کے معاملات پر چار چار بنچ ٹوٹ جائیں اور دوسرے فریق کے لیے ایک ہی دن میں بار بار بنچ بن جائیں۔ حال ہی میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تاڑر نے بھی ایک بیان دیا جس میں اس طر ف اشارہ کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کے مقدمات بھی لاہور ہائی کورٹ میں دائر کر رہی ہے ۔
ہائی کورٹس کا دائرہ اختیار ایک آئینی معاملہ ہے، اس سے انحراف ممکن نہیں، اس کی پاسداری ہی آئین کی پاسداری ہے۔