مسائل کب حل ہوں گے
بہتر تو یہی ہوگا کہ پیپلزپارٹی کا میئر مقرر ہوجائے تو شاید کراچی کے مسائل سدھر جائیں
پی ایس پی کی ایک عرصے تک یہ کوشش رہی کہ متحدہ قومی موومنٹ اس میں ضم ہوجائے۔ اس سلسلے میں مصطفیٰ کمال کے فاروق ستار سے مذاکرات بھی ہوئے تھے مگر متحدہ کا نام جھنڈا اور انتخابی نشان کے بدلنے کے سوال پر یہ بات نہ بن سکی۔
بات کو یہاں تک پہنچانے میں متحدہ کے اس وقت کے سینئر رہنما فاروق ستار نے اہم کردار ادا کیا تھا مگر متحدہ کے دوسرے لیڈروں نے اس کی شدید مخالفت کی تھی اور پھر شاید اسی بات پر ان کو متحدہ سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ہی فاروق ستار نے ایم کیو ایم تنظیم بحالی کمیٹی کے نام سے ایک نئی پارٹی بنا لی تھی، اس طرح وہ کئی سال متحدہ سے دور رہے۔
گزشتہ ضمنی انتخاب میں متحدہ قومی موومنٹ کی پی ٹی آئی کے ہاتھوں ناقابل قبول شکست کے بعد پارٹی رہنما اس نتیجے پر پہنچے کہ اب وقت آگیا ہے کہ مہاجر نام پر سیاست کرنے والے تمام گروپوں کو یکجا کرلیا جائے ورنہ آگے پی ٹی آئی کے ہاتھوں مسلسل شکست سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔
یوں متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کی قیادت نے مصطفیٰ کمال، آفاق احمد اور فاروق ستار سے رابطہ کیا اور انھیں باہم ایک ہونے کا پیغام دیا۔
آفاق احمد نے تو اس اتحاد سے معذرت کر لی مگر مصطفیٰ کمال نے مستقبل کا جائزہ لیتے ہوئے یہی بہتر سمجھا کہ وہ اپنی پارٹی پی ایس پی کو متحدہ میں ضم کر دیں بہرحال پی ایس پی کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے نفرت کے خلاف کھل کر جہاد کیا۔
اس طرح پہلے مصطفٰی کمال متحدہ کو اپنی پارٹی پی ایس پی میں ضم کرنے پر اصرار کررہے ہیں مگر ہوا یہ کہ وہ خود پی ایس پی کو متحدہ میں ضم کرنے پر تیار ہوگئے اور اب وہ متحدہ کے ایک بڑے لیڈر ہیں اور خالد مقبول صدیقی کے دست راست بن چکے ہیں۔
پی ٹی آئی سے ضرور خطرہ ہے مگر یہاں تو پیپلزپارٹی نے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کو بھی پچھاڑ دیا ہے اور سب سے زیادہ ووٹ اور نشستیں لینے والی پارٹی بن کر ابھری ہے۔
کیا پیپلزپارٹی کا کراچی میں یہی مقام رہا ہے؟ پیپلزپارٹی کی جیت پر مصطفٰی کمال نے الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ چوری چھپے نہیں سرے عام سڑکوں پر ووٹوں پر ٹھپے لگائے گئے اور تین دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا مگر الیکشن کمیشن خاموش رہا۔
ایسے الیکشن سے تو بہتر تھا کہ پیپلزپارٹی کو پہلے ہی فاتح قرار دے دیا جاتا۔ سیاست میں الزامات چلتے رہتے ہیں، تحقیقات کے ذریعے اصل حقائق سامنے لائے جانے چاہئیں۔
چند تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں پی ٹی آئی کی دال نہیں گل سکتی بلکہ لگتا ہے پورے ملک میں اب جب بھی عام انتخابات ہوں گے پی ٹی آئی پیچھے ہی رہے گی کیوں کہ اب وہ بے آسرا ہوچکی ہے اب اس کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔
وہ اپنی فتح کے ترانے ضرور سنا رہی ہے مگر عوام ان کے گزشتہ چار سالہ دور کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ ملک میں مہنگائی ان کے دور سے بڑھی اور پھر بڑھتی ہی گئی حتیٰ کہ موجودہ حکومت بھی اسے کنٹرول کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔
پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ جو کھلواڑ کیا اور پھر اسے ادھورا چھوڑ دیا اس سے ملک میں معیشت کا بیڑہ غرق ہونا شروع ہوا۔
کاش کہ وہ حقیقت پسندانہ پالیسی پر چلتی اور آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرتی تو آج اسے ملک کی بدحال معیشت کے بارے میں طعنے نہ دیے جاتے مگر اس نے نام نہاد عوامی پالیسی اختیار کی کہ ان پر بوجھ نہ پڑنے پائے۔ یہ عوام کے مفاد میں ہونے کے بجائے اب نہ صرف عوام بلکہ املاک کے لیے بھی خطرناک ترین صورت حال بن گئی ہے۔
اس وقت پی ٹی آئی کی جانب سے فوری طور پر عام انتخابات کرانے کے لیے پورا زور لگایا جارہا ہے مگر کیا ملکی معیشت اس کی اجازت دے سکتی ہے۔
ملکی خزانہ پہلے ہی خالی ہے اور اگر عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو پھر بیرونی قرضے کیسے ادا ہوں گے ملک تو ضرور دیوالیہ ہوجائے گا پھر ایک دیوالیہ ملک میں عمران خان حکومت کرکے کیا حاصل کریں گے ، وہ اپنے دور میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرض کے لیے بہت چکر لگاتے رہے تھے مگر کچھ حاصل نہ ہوسکا تھا بلکہ ان کے روکھے رویے سے وہ ناراض بھی ہوگئے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ ملکی معیشت کو کیسے سنبھالیں گے ، اسے کیسے پٹری پر لائیں گے۔ تین وزیر خزانہ تبدیل کرچکے تھے کیوں؟ اس کی وجہ صاف ہے کہ ملکی معیشت کو اس وقت بھی سنبھالنا مشکل تھا۔
اس وقت ان برے حالات سے زیادہ برے حالات ہیں ۔ اس وقت اپنے اقتدار کے لیے سوچنے کے بجائے ملک کے لیے سوچنا ہوگا ، ملک ایک طرف معاشی بھنور میں پھنسا ہوا ہے تو دوسری طرف دشمن کے نشانے پر بھی ہے۔
23 جنوری کو ملک بھر میں ہونے والا بجلی کا بریک ڈاؤن دشمن کی طرف سے سائبر اٹیک بھی ہوسکتا ہے۔ اس سانحے نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے اس سے پہلے بھی ایک دفعہ ایسا ہی بریک ڈاؤن ہوا تھا ، اب اس کی ضرور تحقیق ہونا چاہیے اور اس کے تدارک کے لیے مناسب انتظام ہونا چاہیے۔
جہاں تک کراچی کے بلدیاتی انتخابات کا تعلق ہے اس میں متحدہ کی شمولیت نہ ہونا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ جماعت کراچی کے اکثریتی علاقوں کی آواز ہے۔
اس کی شکایتوں پر عمل نہ ہونا ایک بڑا المیہ ہے۔ اس طرح کراچی حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن تو جیسے تیسے ہوئے مگر وہ متحدہ کے بغیر ادھورے ہی رہے۔ متحدہ نے انتخابات میں حصہ لینے سے دو وجوہات سے گریز کیا اول تو کراچی کی درست آبادی کیا ہے اب تک تعین نہیں ہوسکا ہے پھر کراچی اور حیدرآباد میں جو حلقہ بندیاں کی گئی ہیں وہ یقیناً قابل اعتراض ہیں۔
کاش کہ الیکشن کمیشن اگر صحیح آبادی کے مسئلے کو نظر انداز بھی کردیتا تو حلقہ بندیاں تو ضرور درست کرلی جاتیں مگر اس نے اس بات پر بھی کوئی توجہ نہیں دی اور بس الیکشن کا اعلان کردیا اور وہ بھی راتوں رات ہوا۔
آخر اتنی عجلت کی کیا ضرورت تھی جہاں پہلے ہی بہت دیر ہوچکی تھی وہاں تھوڑی دیر اور ہوجاتی تو کیا ہوجاتا؟ اب الیکشن تو ہوگئے ہیں مگر ان کے نتائج کو ایم کیو ایم مشکوک قرار دے رہی ہے ایسے میں جو بھی میئر بنے گا اس کے لیے بھی مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی؟ پھر اصل مسئلہ اختیارات کا ہے وہ پہلے کی طرح پھر بے اختیار ہوگا اور اس طرح شہر کے مسائل پھر وہیں کے وہیں رہے گے اس وقت جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی میں میئر کے سلسلے میں کھینچا تانی چل رہی ہے۔
بہتر تو یہی ہوگا کہ پیپلزپارٹی کا میئر مقرر ہوجائے تو شاید کراچی کے مسائل سدھر جائیں ورنہ اگر جماعت اسلامی کا میئر بنا تو پیپلزپارٹی اس کی نہیں سنے گی کیوں کہ صوبائی حکومت اس کی ہے اور اس طرح جماعت اسلامی کے میئر کا حال متحدہ کے سابق میئر وسیم اختر جیسا ہوگا جو اپنے پورے دور میں اختیارات کا رونا روتے رہے اور پیپلزپارٹی نے ان کے رونے دھونے پر کوئی توجہ نہیں دی ، پھر کراچی کے مسائل جوں کے توں ہی رہے۔