دیوؤں کے قبضے میں آئے ہوئے انسان
مشکل ترین بات یہ ہے کہ ایسے انسان کو بروقت پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے
اگر آپ مائٹر لنک کے ڈرامے Intruse کا مطالعہ کریں تو عجیب صورتحال سامنے آتی ہے کہ غیر اہم واقعات اور گفتار کے پس پردہ ڈرامہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے ، جس میں ہر کردار موت کا وجود محسوس کر رہا ہے اور اس کا احساس ہونے کے باوجود خاموش ہے ، اصل ڈرامہ دکھائی نہیں دیتا یہ صرف نظروں ، خاموشی اور خوف میں نظر آتا ہے جس کا شکار ڈرامے کا ہر کردار ہو چکا ہے لیکن کوئی اس کا اظہار کرنے پر تیار نہیں۔
ڈرامہ کا مرکزی کردار موت ہے جو براہ راست نظر نہیں آتی لیکن سارے ماحول پر اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ ہر کردار پر اس کا اثر نظر آتا ہے۔
ڈبلیو بی اٹیس نےNietzscheکےThe Geneology of Moralsکے اپنے نسخے کے حاشیے پر لکھا لیکن ''Nietzsche یہ کیوں سوچتا ہے کہ رات کے پاس کوئی ستارے نہیں ہیں ، سوائے چمگادڑوں ، الوؤں اور پاگل چاند کے اور کچھ نہیں ہے۔'' Nietzscheکی انسانیت کے بارے میں شک و شبہات اور مستقبل کے بارے میں اس کا سرد کر دینے والا ادراک بیسویں صدی کے آغاز سے عین پہلے پیش کیا گیا۔
اس کی وفات 1900 میں ہوئی ، بعد میں آنے والی صدی کے واقعات بشمول عالمی جنگوں ، قتل عام ، نسل کشیوں ، لوٹ مار وکرپشن ، ناانصافیوں اور دوسرے مظالم ، خاصا پریشان کرنے اور سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا بنی نو ع انسان کے بارے میں Nietzsche کے شک و شبہات بالکل ٹھیک نہ تھے۔
بلاشبہ بیسویں صدی کے اختتام پر Nietzscheکی فکر مندی کی تحقیقات کرتے ہوئے جو ناتھن گلو وریہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ہمیں '' اپنے اندر چھپے ہوئے کچھ دیوؤں کو سختی اور واضح طریقے سے دیکھنے اور انھیں پنجرے میں بند کرنے اور پالتو بنانے کے طریقوں اور ذرائع پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔'' اگر ہم جو ناتھن گلوور کے نتیجے پر غور و فکر کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ یا تو انسان اپنے اندر چھپے ہوئے کچھ دیوؤں کو پنجرے میں بند کر لیتا ہے اور انھیں پالتو بنا لیتا ہے۔
اس صورت میں وہ مہذب ، باکردار ، با اخلاق اور قانون کی پاسداری کر نے والا انسان نظر آنے لگتا ہے۔ دوسری صورت میں اس کے اندر چھپے دیو اس انسان کو پنجرے میں قید کر لیتے ہیں اور اسے پالتو بنا لیتے ہیں ، تو پھر اس میں انسانوں والی کوئی خوبی باقی نہیں رہتی کیونکہ وہ پھر ایک ایسا حیوان بن جاتا ہے جسے صرف اپنے فائدے اور اپنے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے اور نہ ہی سجھائی دیتا ہے۔
مشکل ترین بات یہ ہے کہ ایسے انسان کو بروقت پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن جب وہ اپنے فائدے کے لیے تیزی کے ساتھ رنگ و روپ بدلنا شروع کر دیتا ہے تو پھر اس کی پہچان آسان ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمیں ایسے انسانوں کی اکثریت سے پالا پڑ گیا ہے جن کو ان کے اندر چھپے دیوؤں نے اپنی قید میں لے لیا ہے اور سب سے وحشت ناک بات یہ ہے کہ ان کی اکثریت اہم عہدوں اور منصوبوں پر جا بیٹھی ہے۔ یاد رہے انسانوں کی بھوک ایک حد پر جا کر ختم ہوجاتی ہے لیکن دیوؤں کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی، ان کے لالچ کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
ان کی چاہت ، آرزؤں اور خواہشوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے، آپ کے خیال میں کیا غلام محمد، اسکندر مرزا اور دیگروں کو دیوؤں نے قید نہیں کررکھا تھا۔ کیا ہمارے ملک کے بعض اہم کرداروں کو دیوؤں نے قید نہیں کر رکھا ہے۔
کیا انسان ایسے ہوتے ہیں، کیا کوئی انسان اپنے جیسے انسانوں کو اس طرح ذلیل و خوار کر سکتا ہے کیا انھیں اس طرح پریشان مصیبت زدہ اور بد حال کر سکتا ہے کیا کوئی انسان اپنے فائد ے کے لیے اپنے جیسے انسانوں کو زہریلا پانی پینے پر مجبور کر سکتا ہے۔
کیا کوئی انسان اسپتالوں ، اسکولوں ، محلوں ، گلیوں کا ایسا حال کرسکتا ہے۔ کیا کوئی انسان دوائیوں ، دودھ ، آٹے ، چینی میں ملاوٹ کر کے اپنے ہی جیسے انسان کی زندگیاں خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
کیا کوئی انسان کاغذ کے نوٹ کی خاطر اس طرح کرپشن اور لوٹ مارکرسکتا ہے۔ کیا کوئی انسان اس قدر بے حسی کا مظاہرہ کر سکتا ہے جیسا کہ یہ کررہے ہیں کیا کوئی انسان اس طرح ناانصافیوں اور ظلم کا بازار گرم کرسکتا ہے۔ کیا کوئی انسان اس طرح اپنی ریاست کے قانون کے خلاف ورزی کر سکتا ہے۔
کیا کوئی انسان اس طرح اپنے ملک کے اداروں کو لڑوا سکتا ہے نہیں بالکل نہیں اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ہمارے بعض اہم کرداروں کو دیوؤں نے اپنی قید میں لے رکھا ہے۔
ایک بات ان دیوؤں کو ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ اگر دل میں ڈوبے ہوئے نشتر لوگوں کی زبان ہوگئے تو پھر کیا ہوگا اگر مصیبت زدہ بد حال لوگ ان پر حملہ آور ہوگئے تو پھر کیا ہوگا۔ آپ نے حضرت داؤد اورگالائتھ کی لڑائی کا واقعہ تو سنا ہی ہوگا۔
گولائتھ ایک دیو نما شخص تھا ، ہر کوئی اس سے خوف کھاتا تھا۔ ایک دن پندرہ سالہ چراوہا بچہ (حضرت داؤد) اپنے بھائیوں سے ملنے آیا ، اس بچے نے کہا '' تم اس دیو سے لڑنے کے لیے کیوں نہیں اٹھتے؟ '' بھائی گالائتھ سے خوف زدہ تھے، انھوں نے کہا '' تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ وہ اتنا لحیم شحیم ہے کہ اسے مارا نہیں جاسکتا ؟ '' باقی حصہ تاریخ کا حصہ ہے اس دیو کو حضر ت داؤد نے غلیل سے مار ڈالا تھا۔
دیو ایک ہی تھا تناظر مختلف تھا نامور مصنف نپولین ہل کا کہنا ہے کہ '' ہر مسئلہ برابرکا یا بڑا موقع لے کر آتا ہے۔'' ذہن میں رہے برداشت کی ہمیشہ ایک حد ہوتی ہے اور جب آپ اس حد کے پار چلے جاتے ہیں تو پھر آپ کے لیے غلیل ہی کافی ہوتی ہے۔