کلائمیٹ چینج
ہم آلودگی کے بلند مقام پر پہنچ رہے ہیں۔ موسمیاتی تغیر خطرناک حد تک چھو چکا ہے
''یا تو دنیا موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام میں تعاون کرے یا پھر مکمل تباہی سے دوچار ہونے کے لیے تیار ہو جائے کہ دنیا کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اگر زمین کو انسانوں کے رہنے کے قابل رکھنا ہے تو اس کا درجہ حرارت ایک حد میں رکھنا ہوگا اور یہ حد ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔''یہ کہنا تھا اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس کا، جو کوپ 27 کلائمیٹ چینج کانفرنس کے سلسلے میں اپنے اراکین سے مخاطب تھے۔
ہم آلودگی کے بلند مقام پر پہنچ رہے ہیں۔ موسمیاتی تغیر خطرناک حد تک چھو چکا ہے۔ اس کا الزام کسے دیں گے، اس خطہ ارض پر انسان ہی بستے ہیں جو اپنی زندگی کی آسائشات کی خاطر نت نئی ایجادات کر رہے ہیں اور یہ ایک فطری عمل بھی ہے انسانی ذہن کھوجنے میں لگا رہتا ہے اور یوں خیالات، فارمولے اور تجربات کسی نتیجے پر پہنچ کر ایک ایجاد انجام دیتے ہیں۔
بعض اوقات وہ اس قدر خطرناک بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس کا خمیازہ پوری دنیا کو اٹھانا پڑتا ہے اور یہ کوئی بہت صدیوں پہلے کی بات نہیں ہے۔
دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں کیا کم تھیں کہ جاپان کی طاقتوں کو کچلنے کا حل بس یہی نظر آیا اور اس پر ایٹم بم گرا دیا گیا۔ایک ایسا بم کہ جس نے جاپان پر ہی نہیں پوری دنیا پر ایسے اثرات مرتب کیے کہ جن کی وجہ سے فضا میں موجود قدرت کی جانب سے حفاظتی تہہ کو نقصان پہنچا۔
اوزون لیئر کو اس سے پہلے بھی کاربن مونو آکسائیڈ کے بے پناہ استعمال سے تحفظات تھے کہ رہی سہی کسر ایٹم بم نے بھی پوری کردی تھی۔کہا جا رہا ہے کہ انسان کو اپنا طرز زندگی تبدیل کرنا پڑے گا اور ایسا تو ہونا ہی تھا۔
توانائیوں کے حصول کے لیے کوئلے، گیس اور تیل کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد فضائی فضلے کی صورت میں جو کاربن پیدا ہوتی ہے اس کی روزبروز بڑھتی ہوئی پیداوار فضائی صورت حال میں بگاڑ پیدا کر رہی ہے۔ اس گرین ہاؤس گیس کے اخراج کو کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے جو کاروبار زندگی کے دوسرے متاثرین عوامل کے علاوہ تین چوتھائی ہے۔ گو یہ زندگی کی آسانیوں کے لیے کارخانوں کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب حال اور مستقبل کے لیے خطرے کا الارم بھی بجا رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں ماحول کی آلودگی کے تحت موسمیاتی تغیرات کے مسائل میں گھر رہی ہیں جس کے باعث طوفان، بارشیں اور برف باری کے علاوہ درجہ حرارت کا خطرناک حد تک بڑھنا شامل ہے۔ اس خطرے کے سگنل کو ہم یوں بیان کرسکتے ہیں کہ عرب کا وہ خطہ جہاں صدیوں سے سنگلاخ پہاڑ اور چٹانیں سینہ تانے کھڑی ہیں۔
درجہ حرارت بھی اسی نوعیت کا تھا وہاں بارشوں کا سلسلہ ایسا جڑا کہ صدیوں سے وہ پہاڑ ایک خاص اشارے کے تحت کھڑے تھے اب سرسبز ہو رہے ہیں۔
یہ تبدیلی اس بڑی پیش گوئی کی جانب بھی ہمیں متوجہ کراتی ہے جو بحیثیت مسلمان بہت سے آنے والے منفی حالات کا احساس دلاتی ہے۔ ہمارے سائنس دان اپنی زبان میں اسے کلائمیٹ چینج کے سلسلے کی کڑی قرار دیتے ہیں بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے۔
دنیا بھر میں چین، روس، امریکا، یورپی یونین، برازیل اور انڈونیشیا وہ سات ممالک ہیں جن سے کاربن کا پچاس فیصد اخراج ہوتا ہے، یہ وہ ممالک ہیں جو ترقی کی دوڑ میں شامل ہیں جن میں چین، امریکا اور روس کے نام سرفہرست ہیں جو بظاہر دعوے تو بڑے بڑے کرتے ہیں لیکن ترقی اور دنیا کے چمپئن بننے کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔
یوکرین اور روس کی جنگ میں کیا فضائی آلودگی اس حوالے سے کاربن کے اخراج میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی لیکن روس اپنے موقف پر ڈٹا ہے اسی طرح اسرائیل کی شام پر شعلہ گراتی گولیاں اور دھماکے محض پھلجھڑیاں ہیں۔
یہ حقیقت بھی اپنی شکل واضح طور پر دکھا چکی ہے کہ دنیا میں گلیشئرز یا دوسرے الفاظ میں دنیا کا سرد خانہ درجہ حرارت کے بڑھنے کے باعث تیزی سے پگھل رہا ہے۔کیا ایسا ہونا ممکن ہے کہ ان پگھلتے گلیشئرز کو مصنوعی انداز میں پگھلنے سے روکا جاسکے؟ تو جواب ملتا ہے کہ ہرگز نہیں۔ یہ سب انسانی ذہانت کی ازحد کارروائی ہے جو آج کسی نہ کسی صورت میں ہمارے سامنے کھڑی ہے۔
ان قدرتی برف خانوں کے پگھلنے کے بعد دنیا میں ساحلی علاقوں پر آبادیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، ساحل سمندر ایک نعمت ہے۔ شپنگ کے ذریعے نقل و حمل خاص کر تجارتی حوالے سے نہایت کارآمد ہے۔ کیا ہم ان نعمتوں سے ہاتھ دھوتے نظر نہیں آرہے؟ سونامی کی تباہیاں ابھی بھی یادداشت میں محفوظ ہیں۔ اس کے بعد بھی ایسی ہی سمندری طغیانی اور طوفانوں نے دنیا کو متنبہ کردیا ہے کہ ہم بھی تیار ہیں، بس آپ کو تباہ کردینے میں ایک حکم کی دیر ہے۔انسان بہت منہ زور ہے اسے جو رتبہ جو طاقت مل جاتی ہے اس پر اکڑنے لگتا ہے۔
اس کی خام خیالی اسے تباہی کی دلدل میں دھنسا دیتی ہے۔ پھر بھی انسان دوسروں کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھتا۔نیوٹن ایک بہت بڑا سائنس دان تھا اس کی عقل و فراست سے دنیا واقف تھی اور مانتی تھی لیکن وہ ایک انسان ہی تھا۔ دوسری جنگ عظیم کی جنگی چالوں میں ایک چال یہ بھی تھی کہ دشمن کو ایک طویل جناتی بحری جنگی جہاز نظر ہی نہ آئے۔
بالکل بچوں کی جادوئی کہانیوں کی مانند اور نیوٹن صاحب نے اپنی فزکس پر آنکھ بند کرکے خدا جانے کون سے قانون کے تحت وہ خطرناک تجربہ بھی کر ڈالا جس نے حقیقتاً بحری جہاز کو کچھ دیر انسانی نگاہوں سے اوجھل تو رکھا لیکن اس جہاز اور اس میں موجود انسانی جانوں کو جنھیں چوہوں کی مانند اس خطرناک تجربے میں استعمال کیا گیا تھا سب مل کر خاکستر ہوگئے۔