کھائی
دہائیوں کی شدید ریاضت نے اس مشکل کام کو اس کے لیے سرنگوں کر ڈالا ہے
ایریکا سیڈلاسک (Erika Sedlacek) کی عمر پینتیس برس ہے۔ حد درجہ بے خوف اور بہادر خاتون۔ کمال یہ ہے کہ بلند ترین عمارتوں اور قدرتی کھائیوں کے درمیان رسا باندھ کر ' حد درجہ توازن کے ساتھ اس پر پیدل چلتی ہے۔
ایریکا نے کمال محنت کر کے اپنے وجود میں اس قدر اعلیٰ توازن پیدا کر لیا ہے کہ کسی خوف و خطر کے بغیر حد درجہ خطرناک کام بڑی آسانی سے کر لیتی ہے۔
یہ قطعاً معمولی بات نہیں۔ دہائیوں کی شدید ریاضت نے اس مشکل کام کو اس کے لیے سرنگوں کر ڈالا ہے۔ ہاں' ایک اور بات' ایریکا' رسے پر توازن سے چلتے ہوئے جوتی نہیں پہنتی بلکہ ننگے پاؤں چلتی ہے۔
چند دن قبل وہ برازیل کے شہر ساؤ پالو گئی۔ وہاں کی بلند ترین عمارتوں کے درمیان رسہ باندھا۔ جس کی لمبائی پانچ سو دس میٹر تھی۔ زمین سے ایک سو چودہ میٹر بلند تھا۔ جس جگہ یہ محیر العقول کارنامہ سرانجام دیا۔ اسے Vale do Anhangabau کہا جاتا ہے۔ ایریکا نے اس رسے پر صرف پچیس منٹ میں سارا سفر طے کر لیا۔
کمال یہ ہے کہ اس نے یہ سب کچھ بغیر کسی سہارے' بانس وغیرہ کے طے کیا۔ حسب روایت اس نے کسی قسم کی کوئی حفاظتی بیلٹ وغیرہ نہیں باندھ رکھی تھی۔
اتنی اونچائی پر پیدل چلنے کا یہ ورلڈ ریکارڈ ہے۔ سوال اٹھتاہے کہ ایریکا اتنے آرام سے حد درجہ خوفناک کام کیسے اور کیونکر کر لیتی ہے۔
جواب حد درجہ سادہ سا ہے۔ بچپن سے اسے اس منفرد کام کرنے کا جنون تھا۔ ایریکا نے بہت شدید محنت کر کے بلندی پر چلنا سیکھا۔ یہ کوئی ایک دو دنوں کا کام نہیں ۔ بلکہ سالوں کی محنت کا نتیجہ ہے کہ وہ بظاہر بڑے آرام سے یہ طویل قامت عمارتوں اور کھائیوں کے درمیان سے رسہ پر چل سکتی ہے۔
رسے پر توازن سے چلنے کے کرتب سے ایسا لگتا ہے کہ ہماراملک بھی بلندی پر صرف ایسے ہی رسے پر چل رہا ہے ۔ مگر توازن کے بغیر۔ یہ سفر کوئی ایک دو سال کی بات نہیں۔ بلکہ سات دہائیوں کی لغزشوں ' غلطیوں اور کج فہمیوں کا زہر آلود پھل ہے۔
کسی ایک سربراہ یا سیاسی جماعت کو مطعون کرنا بہت سادہ سی بات ہے۔ اگر پاکستان کے ابتدائی دور کو دیکھیئے تو سیاسی رسہ کشی' موجودہ دور سے بھی زیادہ نظر آئے گی۔ اس وقت کی سیاسی شطرنج پر بھی مہرے اور ادارے اپنی اپنی مرضی کی چال چلنے میں مصروف تھے۔
عوام کی فکر نہ اس وقت کسی کو تھی اور نہ آج ہے۔ سیاسی عدم استحکام اس قدر بھیانک تھا کہ ہمارے وزیراعظم' چند ہفتوں یا چند مہینوں میں درباری سازشوں کے ذریعے رسوا کر کے نکال دیے جاتے تھے۔ مرکز اور صوبوں کی باہمی رسہ کشی بھی باعث شرم تھی۔
ہمارا مقتدر طبقہ ایک ایسے دنگل میں مصروف تھا' جس میںکشتی لڑنے والے پہلوان نہیں بلکہ تماشائی یعنی عوام ہارتے ہیں۔ آج بھی سب کچھ اسی شدومد سے جاری و ساری ہے۔ سفلی پن اور اناپرستی آج بھی بالکل ویسے ہی راج کر رہی ہے۔ ویسے ایک بات کی بالکل سمجھ نہیں آتی۔ 1970کے الیکشن کے رزلٹ کو آج ہر کوئی یاد کرتا ہے۔
سوشل میڈیا پر اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کی تصویر لگا کر ' بہت سے لوگ بڑے تاسف سے کہتے ہیں کہ ہمارے مقتدر طبقے نے ماضی میں عوامی ووٹ کی توہین کی تھی اور اس کے شاخسانہ میں ملک ٹوٹ گیاتھا۔ اور آج بھی یہی صورت حال ہے۔
عرض کرنی ہے۔ کہ شیخ مجیب الرحمن نے ستر کے الیکشن میں 167نشستیں حاصل کی تھیں۔ اور ذوالفقار علی بھٹو کی سیٹیں صرف 86تھیں۔ وزیراعظم بننے کا جمہوری حق صرف اور صرف مجیب الرحمن کو حاصل تھا۔
یہ درست بات ہے کہ اس وقت کے مقتدر طبقہ نے عملی طور پر بنگالیوں کو حکمرانی کا حق دینے سے مکمل انکار کر دیاتھا۔ 1970 میں مغربی پاکستان میں باور کروایا گیا تھا کہ مجیب ملک توڑنے کی بھرپور سازش کر رہا ہے۔ اور مکمل طور پر غدار ہے۔ یہ بیانیہ مغربی پاکستان کے اداروں اور سیاست دانوں نے عوام کے ذہنوں میں مکمل منجمد کر دیا تھا۔
منظر اس وقت تبدیل ہوا جب ہندوستان نے مشرقی پاکستان پر فوجی یلغار کی۔ اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ذرا بتائیے۔ آج جو کرم فرما بار بار کہہ رہے ہیں کہ مجیب الرحمن کو 70میں حکومت بننے کا حق دینا چاہیے تھا۔ ان حضرات نے کڑے وقت میں مغربی پاکستان سے شیخ مجیب کے لیے طاقتور آوار کیوں نہیں اٹھائی تھی۔
دراصل ہم تمام لوگ ماضی کے پرستار ہیں۔ جو گزر گیا' ہم صرف اسی کو زیر بحث لاتے ہیں۔ جس کا عملی طور پر کسی قسم کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہوتا۔ ہمارے سماج میں بت پرستی ایک نئی جہت میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ ہم مرنے والوں کے قصیدے پڑھتے ہیں۔
ماضی میں اپنے ہیرو تلاش کرتے ہیں ۔ اور حال سے مکمل طور پر لا تعلق ہو جاتے ہیں۔ ہمارے لیے ماضی' دراصل موجودہ وقت سے زیادہ پر کشش ہے۔ یہ صرف سیاسی میدان میں نہیں' بلکہ ہر سوسائٹی کے ہر پہلو میں موجود ہے۔ ہم میں صلاحیت ہی نہیں کہ کڑے وقت میں برائی کو برائی اور سچ کو سچ کہہ سکیں۔
بدقسمتی سے ہم لوگ صرف سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بونے قائدین کے ادنیٰ بیانات ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے۔ مجبوراً مجھے بھی ملکی سیاست پر لکھنا پڑتا ہے۔
چلیے۔ ذرا دل تھام کر فرمائیے کہ کیا آج مسیحا نظر آتے خان صاحب اپنے دور حکومت میں کسی اصول اور ضابطے کے تحت حکومت کر رہے تھے؟۔ کیا ریاستی ادارے ان کی بقا کے لیے ہر دم کوشاں نہیں تھے؟ کیا احتساب کا ادارہ ' ان کی خواہش پر ہر طرح کے ظلم روا نہیں رکھتا تھا؟ کیا خان صاحب نے اپنے دور حکومت میں بے گناہ لوگوں کو ذلیل کرنے کی مکمل کوشش نہیں کی تھی؟ ان گنت واقعات ہیں جن میں خان صاحب نے حد درجہ غیر متوازن رویہ اپنائے رکھا تھا۔ مگر اس پر خان صاحب نے کبھی قومی سطح پر کسی سے بھی معذرت نہیں کی۔
اب' جب کہ خان صاحب کے خلاف وہی ریاستی کاروائیاں ہو رہی ہیں جو دوسروں کے لیے درست سمجھتے تھے' تو واویلا کس امر کا۔ ظلم ہمیشہ ''بوم رینگ'' کی طرح ہوتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد واپس قوت سے آتا ہے اور ظالم کے ہاتھ کاٹ دیتا ہے۔
عمران خان کو ایک استعارہ بنا لیجیے۔ ہمارے تمام حکمران اپنے دور حکومت میں مخالفین کے خلاف وہی درشت رویہ اپنائے رکھتے ہیں ۔ جس کی اپوزیشن میں بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
اس ادنیٰ طرز عمل میں کوئی بھی مبرا نہیں۔ نا مسلم لیگ کے امام اور ناہی ان کے خلاف سیاسی دھڑے۔ ہم میں سے اکثریت بونے لوگوں کی ہے۔ جو لکڑی کی ٹانگیں لگا کر عام لوگوں سے اپنا قد نمایاں گردانتے ہیں۔
جھوٹے اور کھوکھلے نعروں اور دعوؤں کو سیاست کہتے ہیں۔ اور پھر لوگوں کو رگید رگید کر مجبور کرتے ہیں کہ انھیں لیڈر تسلیم کیا جائے۔ عزت بچانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ متواتر جھوٹ کو سچ تسلیم کر لیا جائے۔ ورنہ بونے لوگ' ٹانگیں کاٹ دیتے ہیں۔ یہاں ایک سوال بہر حال چھپانے سے بھی نہیں چھپتا۔ 2022کے شروع میں ملک میں غیر ملکی ڈالر کے ذخائر کافی بہتر تھے۔ اگر تمام ذرایع شامل کیے جائیں تو غالباً چوبیس بلین ڈالر بنتے ہیں۔
آخر آٹھ دس مہینے میں موجودہ حکومت نے یہ کثیر سرمایہ کہاں خرچ کیا ہے؟ ۔ کوئی نیا ڈیم' کوئی قومی سطح کا منصوبہ' کم از کم عوامی سطح پر ایسا کوئی کارنامہ سامنے نہیں آیا۔ہو سکتا ہے کہ آپ کی فہم و ادراک میں ہو۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کوئی نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ اتحادی حکومت ہمارے آمرانہ مزاج کے قطعی متضاد ہے۔
ہمارے مقتدر طبقہ میں اتنی بلوغت نہیں کہ مختلف فریقین کو ساتھ لے کر چل سکے۔ اس وقت بعینہ یہی ہو رہا ہے۔ قائدین کے اللے تتلے بھی ماضی کی طرح شاہانہ طرز پر جاری ہیں۔ بین الاقوامی سفر حد درجہ مہنگے پرائیویٹ اور سرکاری جہازوں پر کیا جاتا ہے۔
کمرشل فلائٹس میں سفر کرنا آج بھی ماضی کی طرح سکہ رائج الوقت نہیں ہے۔ ملکی معیشت عملی طور پر دم توڑ چکی ہے۔ کارخانے دھڑا دھڑ بند ہو رہے ہیں۔ کاروباری طبقہ ' اپنے کارخانوں کی چابیاں اسٹیٹ بینک کے سربراہ کے حوالے کر رہاہے۔ مہنگائی کا کیا ذکر کرنا۔ اس پر بحث لا حاصل ہے۔ کیونکہ آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد یہ مزید بڑھے گی۔
یہ نہ ختم ہونے والا مرثیہ ہے۔ عملی طور پر کوئی بھی مشکلات حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتا۔ ذرا بتائیے کہ آخر اس مشکل ترین صورت حال کا حل کیا ہے؟ جس قسم کے درست فیصلے کرنے کی ضرورت ہے' کیا موجودہ حکمران ویسا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان ایک کھائی کے عین اوپر' معلق لٹکا ہوا ہے ۔ یہاں کوئی بھی ایریکا جیسی فولادی قوت نہیں رکھتا' کہ تنے ہوئے رسے پر اطمینان سے گزر جائے۔ یہاں سب کھائی میں گرنے کے منتظر ہیں ' بلکہ بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔اور ہاں ' ایریکا جیسی ریاضت بھی کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔