ڈالر…
ڈار صاحب کی نیت پر شک نہیں مگر ڈالر کو روکنے کا طریقہ ایک سیاستدان کا ہوسکتا ہے مگر ماہر معاشیات کا نہیں
ڈالر کے راستے کھول دیے گئے،اب مارکیٹ فیصلہ کرے کہ ہمارے روپے کی اوقات کیا ہے تارکین وطن بینکوں کے ذریعے اپنے خاندانوں کو ڈالر بھیجتے تھے، انھوں نے ہنڈی حوالہ کا آپشن استعمال کر لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انٹر بینک ریٹ کم اور مارکیٹ ریٹ زیادہ تھا۔
ملک میں اب کے تیس فیصد افراط زر بھی، جو ہر سال ڈالر کا تیس فیصد بڑھنا یقینی بھی بناتا ہے۔ یوں کہیے کہ ایک طرف آگ ہے اور دوسری طرف پانی، بلاشبہ راہ نکلے گی اگر ہم نے سمجھ اور بوجھ سے کام لیا ۔ ڈار صاحب کی نیت پر شک نہیں مگر ڈالر کو روکنے کا طریقہ ایک سیاستدان کا ہوسکتا ہے مگر ماہر معاشیات کا نہیں۔
کتنا بھیانک ایڈونچر تھا ہمارا ہائبرڈ جمہوریت کا جس نے ہمیںناکو چنے چبوا دیے۔ معیشت میں جو بگاڑ پیدا کر گئے، وہ اب سنبھلتا نظر نہیں آرہا ۔ڈار صاحب بھی اسد عمر کی طرح ایک کلاسیکل ماڈل ہیں ۔ اسد عمر کے پاس تو کوئی تجربہ نہیں تھامگر ڈار صاحب کے پاس تو تھا۔ پتہ نہیں کہاں سے ان کے دماغ میں آیا کہ ڈالر کی اصل حیثیت ہمارے 200 روپے سے بھی کم ہے اور وہ قدغن لگا کے بیٹھ گئے کہ 230 سے اوپر یہ نہ جائے۔
مارکیٹ فورسز نے اپنے اصول کے مطابق چلنا تھا، ڈار صاحب کے کہنے پر تو نہیں چلنا تھا، وہ ماہر معاشیات نہیں بلکہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں۔ قرضوں کے دروازے ڈار صاحب کی وزارت خزانہ کے دوران بھی کھلے رہے تاہم سری لنکا آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے قرضوں کی وجہ سے نہیں ڈوبا تھا، اس کو انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے نام پر چائنا کے مہنگے قرضے لے ڈوبے۔
چائنا نے سری لنکا میں اربوں ڈالروں کی لاگت سے ایسے شہروں میں جدید ترین ائرپورٹ بنائے جہاں انٹرنیشنل فلائٹس کی لینڈنگ اور ٹیک آف فلائٹس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے اور ہورہا ہے۔کیا موٹر ویز پاکستانی ادارے نہیں بنا سکتے؟
پاکستان کے حکمرانوںکی پاور پالیسی بھی غیر حقیقی رہی ہے ، کمیشن اورینٹیڈ پاور پالیسی نے ہزاروں ارب رو پے کے گردشی قرضے ریاست پر لاد دیے، صارفین کے لیے اتنی مہنگی بجلی لینا اب مشکل ہے جب کہ فرنس آئل پر چلنے والے نجی پاور پلانٹس کی بجلی آپ نے لینے ہی لینی ہے اور یہ بینکوں کی طرح پیسے بناتے ہیں، جس طرح ڈالر مہنگے ہونے سے بینکوں نے اربوں روپے بنائے،اگر آپ نے ریکوڈک کی طرح ان سے بھی معاہدے منقطع کیے تو پھر یہ بین الاقوامی کمپنیاں آپ انٹرنیشنل کورٹ میں کیس کردیں گے۔
خان صاحب کو تو چھوڑیں وہ جس معیشت کو سنبھالنے آئے تھے، وہ معیشت ہی بگڑی ہوئی تھی اور انھوں نے اس بگڑی ہوئی معیشت کو کچھ حد سے زیادہ ہی بگاڑ دیا۔ اب ایک بند گلی ہے ۔جس طرح ایک فرد کو ذیابیطس ہوجاتی ہے اور بلڈ پریشر کی بیماری لگ جاتی ہے، اسی طرح افراط زر ہمیں لگ گئی ہے، یہ افراط زر کوئی عام مروج افراط زر نہیں ہے، یہ وہ افراط زر ہے جو جرمنی میں ہٹلر لے آیا تھا ۔ یہ وہ والی افراط زر ہے جو وینزویلا میں آئی ہے۔
جب ریاست کے حکمران طبقے انتہائی لالچی، خود غرض اور بدعنوان ہوجاتے ہیں، تو ریاست زوال کا شکار ہوجاتی ہے ۔ایک طرف تو اشرافیہ کے ذاتی مفادات ہیں، دوسری طرف ان کی نالائقیاں،لالچ اور ہوس ہیں۔ اسد عمر بھی آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے لیے تیار نہ تھے جس کے نتیجے میں ڈالر شوٹ کر گیا، اب اسحاق ڈار نے بھی وہی غلط دہرائی ہے اور دونوں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ افراط زر کا مطلب عام آدمی کے اثاثوں پر ڈاکا ڈالنا ہوتا ہے۔
یہ حکمرانوں کی نالائقیاں اور خود غرضیوں کا ثمرجو اب پورے بائیس کروڑ عوام کو بھگتنا ہوگا۔ اس ملک میں اگر باہر سے اشیائے خورونوش منگوائی جائیں تو سمجھ آتا ہے کہ ڈالر غریبوں کو چاہیے مگر جو ان چھ ماہ میں صرف بڑی بڑی مہنگی گاڑیاں یہاں کے شرفاء نے منگوائی ہیں، اس میں ہی چھ سو ملین ڈالر ہمارے بیرونی کرنسی کے ذخائر اڑ گئے۔
ڈالر کون کماتا ہے ؟ ڈالر کماتا ہے یا تو سعودی عرب کی طرح پٹرول کے ذخائرخود ان کے 50 ارب ڈالر سے بھی زیادہ صرف اسی سیاحت کے وجہ سے آتے ہیں جو مذہبی حوالے سے ان مقامات کی زیارت باہر کے لوگ کرتے ہیںاور اگر ایسی صورت نہ ہو تو صرف اور صرف بنگلہ دیش ماڈل آپ کے پاس رہ جاتا ہے۔
وہ ہے انسانی وسائل کی بہتری ، ان کو ہنر دینا، تعلیم کا نظام بہتر کرنا اور پھر ایسے کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنا جس سے ایکسپورٹ بڑھ سکے اور اسی طرح ڈالر کمایا جاسکے۔مگر ہم نے صنعتوں کو بند کیا Cost of production اتنی بڑھ گئی کہ لوگوں نے صنعتیں یا تو ملک سے باہر منتقل کیں یا پھر بند ہوگئیں۔ فقط ایک کاروبار بہت پروان چڑھ رہا تھا وہ ہے کنسٹرکشن کا کاروبار، پلاٹوں کا اور ئیل اسٹیٹ کا کاروبار۔
ہم اب وینزویلا بننے کے دہانے پر ہیں۔ افراط زر اتنی آسانی سے اور بہت جلدی درست ہونے والی نہیں۔ دو تین سال بہت مشکل ہیں اور معیشت کو سنبھالنے کے لیے کسی تجربہ کار کی ضرورت ہے، جو ماہر معاشیات پہلے اور سیاستدان بعد میں ہو۔تمام سبسڈیز بند کی جائیں ، افغانستان کے نرم بارڈر کو سخت کیا جائے۔
ہماری معیشت بہتر ہوگی تو ہمارے اوپر باہر کا دبائو بھی کم ہوگا۔ اب ہم تمام شرائط ماننے کے لیے تیار ہیں۔جو بھی ڈالر آنے کے طریقے ڈار صاحب یا اس سے پہلے والے وزیر خزانہ کے پاس تھے وہ سب مصنوعی تھے۔ جو بھی ہم نے بیانیہ بنایا ہے اس سے ترقی یا شرح نمو نہیں بڑھ سکتی۔ اس بیانیہ سے ہم ادارے مضبوط نہیں کرسکتے اور نہ ہی کرپشن ختم ہوسکتی ہے۔
ہمیں ڈالر چاہیے اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ ہمیں مضبوط معیشت چاہیے جس سے ہم ایکسپورٹ بڑھا سکیں اور ہماری سیاست آئین کے تناظر میں پھلے پھولے۔ اب کے آمریت لانے والے اسٹیبلشمنٹ کے اندر نہیں، باہر بیٹھے ہیں، ان کی اب بھی کوشش ہے کہ جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارا جائے۔
اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان کے ساتھ گٹھ جوڑ اس ملک کو بہت مہنگا پڑا ہے، یہ وہی گٹھ جوڑ ہے جو نواز شریف نے ضیاء الحق کے ساتھ کیا تھا اور بھٹو جنرل ایوب سے لے کر جنرل یحییٰ کے ساتھ کیا تھا۔ ایسا ہی گٹھ جوڑ راولپنڈی سازش کیس کی شکل میں پکڑا گیا تھا جو انھی زمانوں کے بائیں بازو کی تحریک والوں نے کیا تھا۔ ہم اس موڑ سے با ربار گزر چکے ہیں، معلوم نہیں اب ہمیں کیا پھر بھی گذرنا ہوگا !