آزادی اظہار کی آڑ میں توہین مذہب پر سخت سزا کا عالمی قانون بنایا جائے

سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی...ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح


پاکستان بھی سویڈن کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات ختم کرے: ’’ایکسپریس فورم ‘‘کی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

گزشتہ دنوں سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا دلخراش اور بدترین واقعہ پیش آیا جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ،وہ سراپا احتجاج ہیں اور ان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے سرکاری و عوامی سطح پر شدید ردعمل آیا ہے۔

حال ہی میں سینیٹ آف پاکستان نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف متفقہ قرار داد منظور کی اور سینیٹرز کی جانب سے سویڈن کے ساتھ تعلقات ختم کرنے پر بھی زور دیا گیا۔ عالمی سطح پر توہین مذہب کے واقعات میں تسلسل کے پیش نظر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد

چیئرمین رویت ہلال کمیٹی خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور

سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہم نے ہمیشہ پاکستان اور عالمی فورمز پر دنیا کو یہ بتایا ہے کہ حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم الرسل حضرت محمد ﷺ تک، سب کی تکریم اور عزت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

اسی طرح تورات، انجیل، زبور اور قرآن مجید ہیں، جب تک ہم تمام الہامی کتب پر ایمان نہ لائیں ، ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ یہ باعث افسوس ہے کہ ہر تھوڑے عرصے کے بعد دنیا کے بعض ممالک میں ایسا عمل کیا جاتا ہے جو مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔

اس کا خاتمہ ہونا چاہیے اور جو بھی اس میں ملوث ہو، اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے کیونکہ یہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کا مسئلہ ہے۔ جو ممالک امن کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں، وہاں سے ایسے عمل کا ہونا باعث تکلیف ہے۔

اس وقت ضرورت یہ ہے کہ عالمی سطح پرمقدسات، مقدس کتب اور شخصیات کی توہین پر سخت سزا کا قانون بنایا جائے۔

کوئی بھی مذہب ایسے قبیح عمل کی اجازت نہیں دیتا۔ تمام مذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی سطح پر اس کی بھرپور مذمت کریں اور ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کیلئے اقدامات بھی کریں۔ ریاست پاکستان اور علماء نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ہمارے لیے قرآن کریم ، پیغمبر دوعالم حضرت محمدﷺ اور تمام انبیاء ؑ کی عزت و تکریم سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔

حافظ زبیر احمد ظہیر

امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان

سویڈن میں ایک ملعون اور بدبخت شخص نے قرآن مجید فرقان حمید کو جلانے کا انتہائی اقدام کیا ہے۔ اس نے روئے زمین پر بسنے والے اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کی اور انہیں صدمہ پہنچایا ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

یہ عمل کسی بھی طور آزادی ظہار رائے میں شامل نہیں ہوتا۔ دنیا میں جتنی بھی قسم کی دہشت گردی یا انتہا پسندی ہے ان سب میں سے بدترین انتہا پسندی اور دہشت گردی یہ ہے کہ کسی آسمانی کتاب کی توہین اور گستاخی کی جائے۔ میں واضح طور پر یہ پوری دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس شخص نے صرف قرآن پاک کو نہیں جلایا بلکہ دراصل انجیل، تورات اور زبور کو بھی جلایا ہے۔

اس بدبخت نے انبیاء کرام ؑ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت یعقوبؑ، حضرت عیسیٰ ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عزیر ؑ، حضرت مریم ؑ کی عظمت اور شان جو قرآن پاک نے بیان کی ہے اس کو بھی جلایا ہے۔ پوری دنیا اس کی اشتعال انگیزی اور شیطانی شرارت کی مذمت کرتی ہے، تمام مسلمان اس کی بھرپور مذمت کر رہے ہیں۔

میرے نزدیک باتوں سے کچھ نہیں ہوگا،پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کو ایسے عملی اقدامات کرنے چاہئیں جن سے توہین مذہب کا سلسلہ رک سکے اور آئندہ کسی کو بھی ایسی جرات نہ ہو۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسلمان ممالک خصوصاََ اسلامی تعاون تنظیم کو یہ مسئلہ پرزور انداز میں اٹھانا چاہیے۔

یہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ جس ملک سے بھی یہ عمل ہو اس کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے ، تجارتی و سفارتی تعلقات بھی ختم کردینے چاہئیں۔ اگر مسلمان قرآن پاک اور رسول کریم ﷺ کی خاطر کسی کا بائیکاٹ نہیں کریں گے تو کس کے لیے کریں گے؟

ہمیں اپنی جان، اپنے پیاروں، اپنے وطن ہر چیز سے زیادہ عزیز اللہ کا کلام اور اس کے پیارے رسولﷺ ہیں۔میرا مطالبہ ہے کہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کیلئے عالمی سطح پرسخت قانون سازی کی جائے۔

یہ وقت ہے کہ مسلمان ممالک کے سربراہان آگے آئیں اور پوری امت کو متحد کریں۔ کلام پاک کو جلانے کا مقصد مسلمانوں کو اشتعال دلوانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

یہ چاہتے ہیں کہ بدلے میں مسلمان بھی کچھ ایسا کریں لیکن مسلمان کسی الہامی کتاب کی گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھی نور کہا ہے۔ تورات کو بھی نور کہا ہے۔ انجیل کوبھی نور کہا ہے اور زبور کو بھی نور کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ؑ پر جتنا بھی کلام نازل کیا وہ سب کا سب نور ہے۔

اس بدبخت نے یہ جسارت کرکے اللہ تعالیٰ کے قہر اور غضب کو دعوت دی ہے۔ انشاء اللہ ! کلام الٰہی کے گستاخ کیلئے یہ دنیا بھی عذاب بن جائے گی اور آخرت میں اسے بدترین سزا ملے گی۔ ہم تمام مسلمانوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ متحد ہوجائیں،ہر قسم کی فرقہ واریت کو ختم کرکے ایک قوت اور امت رسولﷺ بنیں ۔ اگر آج ہم فرقوں میں بٹے نہ ہوتے تو روئے زمین پر کسی کو بھی قرآن پاک جلانے یا حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات نہ ہوتی ۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہماری تقسیم اور آپسی اختلافات کا فائدہ دشمن اٹھا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام مسلمان حکومتوں کو متحد ہوکر ان چیزوں کا سدباب کرنے کی توفیق دے۔ آمین !

مفتی راغب حسین نعیمی

مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور

اہل اسلام کیلئے اللہ وحدہ لاشریک کی کتاب اور محبت وحی، حضور نبی کریمﷺ کی ذات مبارکہ ، اپنے والدین، آل اولاد اور جان و مال سے بھی زیادہ عزیز اور محترم و معظم ہے۔

سچا اور صحیح مسلمان دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتا ہو، کبھی یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ قرآن کریم یا نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ کی کسی بھی اعتبار سے دنیا کے کسی بھی خطے میں توہین ہو۔

9/11 سے لے کر اب تک ، ہر دو سال کے بعد پلاننگ کے تحت کبھی قرآن کریم کے حوالے سے توہین کی جا رہی ہے اور کبھی ذات نبویﷺ کے حوالے سے ایسے معاملات سامنے لائے جا رہے ہیں جن سے مسلمان کا بھڑکنا بجا ہے۔

قرآن کریم پر کبھی مقدمہ قائم کیا جاتا ہے، کبھی نذر آتش اور کبھی کسی اور انداز میں توہین کی جاتی ہے۔ یہ سب ببانگ دہل کیا جا رہا ہے اور اس کی میڈیا پر تشہیر بھی کی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ دنیا کے کس خطے میں مسلمان کسی الہامی کتاب کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں جس بدلے میں مسلمانوں کی کتاب کے ساتھ ایسا کیا جا رہا ہے؟

مسلمان کسی بھی مذہب کی کتاب یا شخصیات کے ساتھ ایسا نہیں کرتے۔ جب تک ہم قرآن پاک سے پہلے آنے والی الہامی کتب اور جن انبیاء ؑ پر نازل ہوئیں، ایمان نہیں لاتے، تب تک ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا۔ سویڈن سے پہلے ہالینڈ کے لوگوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی، کوئی بھی مسلمان یہ برداشت نہیں کرسکتا۔

قرآن کریم کے حوالے سے پوری دنیا کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ آزادی اظہار رائے کے حوالے سے قانون کو محدود کیا جائے اوراس کی آڑ میں الہامی مذاہب، الہامی انبیاء ؑ اور ان پر اتاری جانے والی کتب کی توہین کی اجازت نہ دی جائے گی۔یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی آواز ہے۔

جب تک دنیا بھر کے مسلمان ممالک کے قائدین، حکمران آگے نہیں آئیں گے، بات نہیں کریں گے، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر آواز نہیں اٹھائیں گے تب تک مسائل رہیں گے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ الہامی مذاہب کے ماننے والے اکٹھے ہوکر قرارداد منظور کریں۔

اس کی کاپی دنیا کے ممالک کو بھیجی جائے اور سب کو پابند کیا جائے کہ توہین مذہب کرنے والوں کی سخت سزا یقینی بنائیں۔

آج اگر مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہورہا ہے تو ایسے شیطان صفت لوگ دیگر مذاہب کے ساتھ بھی ایسا کرسکتے ہیں، اس وقت کیا ہوگا؟ سب کو آج اکٹھے ہوکر سوچنا ہوگا اور عملی اقدامات کرنا ہونگے۔

اعجاز عالم آگسٹین

سابق صوبائی وزیر برائےانسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب

سویڈن کے ایک سیاسی رہنما نے ترکیہ سفارتخانے کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کا جو قبیح عمل کیا ہے اس کی بھرپور مذمت کرتا ہوں۔

پاکستان کی تمام اقلیتیں خصوصاََ مسیحی برادری اس گستاخانہ عمل پر شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں، تمام مذاہب کی عبادتگاہوں میں اس عمل کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ سویڈن کی پولیس وہاں موجود تھی جو اسے روک نہیں سکی۔

پولیس کی موجودگی میں ایسا واقعہ ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ سویڈن کی حکومت بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جتنا یہ شخص۔ پولیس کو طاقت کے زور پر روکنا چاہیے تھا، سخت کارروائی کرنی چاہیے تھی مگر کچھ نہیں کیا گیا۔ یہ ایک ناپاک جسارت ہے جو آزادی اظہار رائے کی آڑ میں کی جاتی ہے اور یورپی ممالک میں تسلسل کے ساتھ ایسا ہورہا ہے۔

میرے نزدیک ہمیں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ سویڈن کے سفیر کو فوری طلب کرکے سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں اور سفیر کو واپس بھیجا جائے۔

امریکا، ڈنمارک، فرانس اور اب سویڈن میں توہین کا یہ تسلسل دنیا بھر میں مسلمان، مسیحی و دیگر مذاہب کے پیروکاروں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ شیطان صف لوگ ایسی حرکتیں کر کے بین المذاہب ہم آہنگی کو ٹھیس پہنچانا چاہتے ہیں، یہ مذاہب کے پیروکاروں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں تاکہ پوری دنیا انتشار کا شکار ہو۔

ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے عناصر کے عزائم کبھی پورے نہیں ہوں گے، یہ ضرور ناکام ہونگے۔ پاکستان میں موجود اقلیتیں گستاخی کی بھرپور مذمت کرتی ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے خلاف بھرپور اقدامات کیے جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی جسارت نہ کرے۔ میرے نزدیک وہ بے دین شخص ہے ، مذاہب تو ایک دوسرے کا احترام سکھاتے ہیں، توہین نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔