حمزہ شہباز کی واپسی ناگزیر
حال ہی میں پنجاب میں جو ہوا ہے۔ اس حوالے سے ایک بحث موجود ہے کہ حمزہ شہباز پنجاب کو سنبھال نہیں سکے
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر بننے کے بعد مریم نواز ملک میں واپس آگئی ہیں۔ ان کی واپسی پر ان کا استقبال بھی ہوگیا ہے۔
میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ استقبال بڑا تھا یا چھوٹا۔ لیکن ایک جماعت جس نے کافی عرصہ سے اپنے ووٹر اور کارکن کو گھر سے نہ نکالا ہو۔
اس نے یہ کام شروع کیا ہے۔ اس لیے بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ مریم نواز نے اعلان کیا ہے کہ وہ یکم فروری سے پنجاب کے تمام اضلاع کے دورے پر نکل رہی ہیں۔
اب دیکھا جائے گا کہ وہ اپنے کارکن میں کتنا جوش پیدا کر سکتی ہیں۔ ان کے لیے یہ یقیناً یہ ایک مشکل ٹاسک ہے، لیکن نا ممکن نہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) ماضی میں ایسے مراحل سے کافی دفعہ گزر چکی ہے۔اس لیے ان کے لیے یہ کوئی بات نہیں ہے۔
مریم نواز کی واپسی کے بعد اور ان کے پنجاب کے دوروں کو اگر کامیاب بنانا ہے تو حمزہ شہباز کو بھی وطن واپس آنا ہوگا۔ حمزہ شہباز اپنی والدہ کے علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے۔
میں جانتا ہوں کہ والدہ دنیا میں ہر چیز سے قیمتی ہے۔ والدہ کے لیے ایک نہیں ہزار سیاست کے کیریئر بھی قربان کیے جا سکتے ہیں۔
حمزہ شہباز کی اپنی والدہ سے محبت کوئی نئی نہیں ہیں۔ مشرف کے دور میں جب ان کی والدہ کو جلا وطن کیا جا رہا تھا تو حمزہ شہباز نے اپنی والدہ کو چھپا لیا تھا۔ا ور پولیس ان کی والدہ کو بازیاب کروانے کے لیے ماڈل ٹاؤن کے مختلف گھروں میں چھاپے مارتی رہی۔ اسی لیے ان کے علاج کے لیے پاکستان سے چلے گئے اور ابھی تک بیرون ملک ہیں۔ اطلاعات یہی ہیں کہ اب ان کی والدہ کی طبیعت بہتر ہے۔
بہرحال مریم نواز نے اگر پنجاب میں کامیاب ہونا ہے اپنے اہداف حاصل کرنے ہیں تو حمزہ شہباز کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ حمزہ شہباز کا پورے پنجاب میں ہر کارکن اور ہر سیاسی گھرانے سے ذاتی تعلق ہے اور وہ سب کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔
اسی لیے ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جتنی بھی انتخابی مہم چلائی ہیں۔ حمزہ شہباز کا اس میں کلیدی کردار رہا ہے۔ انتخابی مہم چلانے میں انھیں خاص مہارت ہے اور وہ اس سائنس کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
ان کی اس مہارت کو پاکستان مسلم لیگ (ن) میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہر ضلع میں کون سے دھڑا کتنی اہمیت رکھتا ہے، کون جیت سکتا ہے اور کون نہیں جیت سکتا ہے، کس کو کب ٹکٹ دینا چاہیے اور کس کو کب نہیں ٹکٹ دینا ، حمزہ شہباز کی اس پر کافی ورکنگ ہے۔
انھوں نے پنجاب بھر میں لوگوں کے بہت کام بھی کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے کارکن اور سیاسی گھرانوں میں ان کا بہت احترام موجود ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں مریم نواز کو اکیلے نکلنے سے وہ کامیابی نہیں ملے گی جب تک حمزہ شہباز ان کے ساتھ نہیں ہونگے۔ حمزہ شہباز کا تجربہ اور ان کا گراس روٹ کی سطح تک کام اس طرح ضایع نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے حمزہ شہباز کو فوری وطن واپس بلانا چاہیے۔
اب تو کیسز ٹھیک ہو گئے ہیں۔ سلمان شہباز بھی کچھ عرصہ کے لیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے حمزہ شہباز کو واپسی کے لیے قائل کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں حمزہ شہباز نے سب سے زیادہ قید کاٹی ہے۔ اگر اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو حمزہ شہباز صرف عمران خان کی حکومت میں 627دن پابند سلاسل رہے ہیں۔
جب ان کے بعد خواجہ سعد رفیق کا نمبر آتا ہے جو 462دن، نواز شریف 374دن، شاہد خاقان عباسی 222دن،شہباز شریف 207دن، خواجہ آصف 176دن، رانا ثناء اللہ 174دن، مریم نواز157دن، قید رہی ہیں۔
اس طرح حمزہ شہباز نے سب سے زیادہ قید کاٹی ہے۔ اس لیے ان کی ان قربانیوں کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر بہت احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ اپوزیشن کے تمام وقت پاکستان میں رہے اور جیل میں رہے۔ اپنی اکلوتی بیٹی کی بیماری پر بھی جیل میں تھے۔
اس کی پہلی سالگرہ پر بھی وہ جیل میں ہی تھے، بہت عرصہ بیٹی کو نہیں مل سکے، بیٹی کے علاج کے لیے ضمانت پر گئے تو عدالتی وقت کے مطابق واپس آگئے۔ حالانکہ سب کہہ رہے تھے کہ لندن میں رک جائیں لیکن وہ نہیں مانے۔
حمزہ شہباز کبھی پاکستان چھوڑ کر نہیں گئے۔ جب مشرف کے دور میں پوری شریف فیملی سعودی عرب چلی گئی تھی تب بھی حمزہ شہبازاور ان کے بھائی سلمان شہباز بطور ضمانت مشرف کی تحویل میں رہے۔ وہ مشرف کے سارے دور میں ایک طرح سے جیل میں ہی تھے۔
ان کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی تھی، اورہر وقت وہ مشرف حکومت کی تحویل میں ہی تھے۔ اس لیے حمزہ شہباز نے اپنی سیاست اور اپنے خاندان کے لیے بہت برا وقت دیکھا ہے۔ وہ بے نظیر کے دور حکومت میں جب ابھی بالغ نہیں تھے تب ہی جیل چلے گئے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ جیل میں گزارا ہے۔
حمزہ شہباز نے اپنی جیل کو کبھی اس طرح کیش بھی نہیں کروایا جیسے سیاسی طور پرکروایا جاتا ہے۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ بہت کم لوگوں کو اندازہ ہوگا کہ عمران خان کے دور میں وہ سب سے زیادہ جیل میں رہے ہیں۔
کیونکہ انھوں نے کبھی شور نہیں مچایا۔ وہ خاموشی سے جیل کاٹنے کے عادی ہیں۔ ویسے بھی سیاسی طور پر حمزہ شہباز کو شہباز شریف کے بیٹے کے طور پر ہی دیکھا گیا ہے۔ اسی رشتہ کی وجہ سے حمزہ شہباز کی اپنی سیاسی کارکردگی پیچھے رہ جاتی ہے۔
بیٹا ہونے کا شور زیادہ مچ جاتا ہے۔ ان کی سب سے لمبی قید پیچھے رہ جاتی ہے، ان کی سیاسی صلاحیتیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ برے سے برے وقت میں حالات کو بدل دینے کی ان کی صلاحیت کی بات کم ہوتی ہے۔
حال ہی میں پنجاب میں جو ہوا ہے۔ اس حوالے سے ایک بحث موجود ہے کہ حمزہ شہباز پنجاب کو سنبھال نہیں سکے۔ لیکن اب تو کہانی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ جنرل باجوہ کا مکمل آشیر باد پرویز الٰہی کے ساتھ تھا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کو قبول نہیں تھے۔ بات اسٹبلشمنٹ نہیں جنرل باجوہ کی تھی۔ وہ پنجاب میں پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنوانا چاہتے تھے۔
اسی لیے حمزہ شہباز کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ انھیں ناکام کرنے کی ہر ساز ش کی گئی۔ حمزہ شہباز نے اس ساری سازش کا بھی خوب مقابلہ کیا۔ لیکن اب جب کہانی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو حمزہ شہباز کے ساتھ ہوئی زیادتی کو دیکھنا ہوگا۔
جماعت کے اندر احتساب ہونا چاہیے کہ کس نے سارے 196ووٹ ڈلوانے کے لیے زور ڈالا۔ کیونکہ کوئی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر اسٹبلشمنٹ کی طرف سے کھیل رہا تھا' وہی جنرل باجوہ کا مہرہ اور حمزہ کا مخالف تھا۔ میں ابھی نام نہیں لکھنا چاہتا۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کے اندر سب اس کا نام جانتے ہیں۔
پنجاب میں الیکشن کا ماحول بنتا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹوں پر ضمنی انتخاب ہیں۔ پنجاب کے انتخابات ہیں، کے پی کے انتخابات ہیں۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اپنی پوری طاقت لگانی ہے۔ حمزہ شہباز کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ ان کی ایک ٹیم ہے جو ان کے آنے پر ہی فعال ہوگی۔ وہ اس موقع پر حمزہ شہباز کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔
اس لیے مریم نواز کو اپنی کامیابی کے لیے حمزہ شہباز کی ضرورت ہے۔ ان کے بغیر انھیں بھی مکمل کامیابی نہیں مل سکے گی۔حمزہ شہباز کو خود بھی خیال رکھنا چاہیے۔ سیاست اونچ نیچ کا کھیل ہے۔ ان کو پچھلی اننگ کے بارے میں کم اور اگلی اننگ کے بارے میں زیادہ سوچنا چاہیے۔ ان کے پاس ابھی ایک لمبا سیاسی کیریئرہے۔
اس میں آگے بھی بہت سے مواقعے آئیں گے۔ ڈوب کرنکلنے کی ان کے خاندان میں بہت سی مثالیں ہیں۔ اس لیے انھیں ایک نئی اننگ کے لیے دوبارہ فعال ہونا چاہیے، یہی سیاست ہے۔ مریم نواز کو بھی ان کو واپس بلانا چاہیے۔ ورنہ نقصان پارٹی کا ہو گا۔