قربانیوں کا سفر

بات ملکی بحرانوں سے شروع کی لیکن پریشان خیالی میں کہیں سے کہیں نکل گئی


اطہر قادر حسن February 01, 2023
[email protected]

وطن عزیز میں جب بھی کوئی بڑا بحران سر اٹھاتا ہے تو ہمیں اپنے وہ پرانے منصوبے یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں جنھیں ہم اپنے اپنی سیاسی مصلحتوں کی نذر کر کے متروک یا موخرکر چکے ہوتے ہیں ۔

یہ وہ منصوبے ہیں جو ہمارے جاں بلب ملک کی زندگی کے منصوبے ہیں جن سے غموں کی ماری اور مایوس قوم میں نئی روح پھونکی جا سکتی ہے اور اس کی مایوسیوں کو امید میں بدلا جا سکتا ہے لیکن کیا کیا جائے ان چھوٹے چھوٹے سیاسی مفادات کا جن کی خاطر ہم نے اس جنت نظیر ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگا رکھا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک بار پھر بجلی کے بریک ڈاؤن نے ملک بھر کو اندھیروں میں دھکیل دیا ۔ آج کے جدید زمانے میں زندگی کو رواں رکھنے کے لیے بجلی کی مسلسل فراہمی اشد ضروری ہے یہ اب انسانی زندگی کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے یہ وہ ضرورتیں ہیں۔

جن کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہیں اور یہ ضرورت فراہم کرنے کے لیے حکومت عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے خزانے کو بھرتی ہے ، اگر آپ بجلی کے بل کا تفصیلی اور بغور جائزہ لیں تو اس میں بجلی کی قیمت کے علاوہ حکومتی ٹیکسوں کی بھر مار کی تفصیل الگ سے درج ہوتی ہے۔

یہ وہ ٹیکس ہیں جن کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے ،عوام بازار سے ضرورت کی اشیاء کی خریداری پر تو پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں لیکن بجلی پانی اور گیس کے بلوں پر عائد کیے گئے یہ بھاری ٹیکس اس کے علاوہ ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت ان ٹیکسوں کو بھی بجلی کی قیمت میں شامل کر لے تا کہ عوام کویہ علم ہو کہ ایک یونٹ بجلی کاا ستعمال ان کو کتنے میں پڑے گا اور وہ اس قیمت سے خوفزدہ ہو کراس لطیفے کو حقیقت میں بدل دیں کہ لالٹین روشن کرنے کے لیے ماچس کی تلاش کے لیے وہ بجلی کا بلب جلاتے ہیں اور لالٹین کے روشن ہوتے ہی بلب بند کر دیتے ہیں۔

لالٹین سے یاد آیا کہ ہماری عمرکے لوگ شاید وہ آخری نسل ہیں جنھوں نے لالٹین کی روشنی میںآنکھ کھولی اور اپنے معمولات زندگی اس کی روشنی میںسر انجام دیتے رہے ہیں۔

دیہات میں لالٹین کی دیکھ بھال ایک اہم کام ہوتا تھا اور سر شام ہی گھر کا ذمے دار فرد لالٹین کا شیشہ نہایت احتیاط سے اتار کر اس کی صفائی کرتا تھا۔ شیشے کی صفائی کے لیے چولہے میں موجود راکھ بہترین تصور کی جاتی تھی۔

ایک گھرمیں ایک ہی لالٹین جلائی جاتی تھی اور اگر صاحب خانہ کو کسی کام سے اٹھ کر کہیں جانا پڑتا تھا تو وہ لالٹین ساتھ لے جاتا تھا اور گھر والے آگ کی روشنی میں گزارا کرتے تھے۔جن گھروں میں دوسری لالٹین روشن ہوتی تو اسے عیاشی تصور کیا جاتا تھا ۔

میڈ ان پاکستان لالٹینوں کی جگہ اس وقت بھی چین کی لالٹینوں کو ترجیح دی جاتی تھی ،خصوصاً گاؤں کا کوئی فوجی جوان جو پشاور یا سرحدی علاقوں میں اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہوتا تھا تو چھٹی پر آنے سے پہلے اس کو خط لکھ کر خاص طور پر لنڈی کوٹل سے لالٹین لانے کی فرمائش کی جاتی تھی کیونکہ اس کی کوالٹی کو بہتر تصور کیا جاتا تھا ۔

شادی بیاہ کے موقعے پر بڑے لیمپس روشن کیے جاتے تھے جو گاؤں کے چند گھروں میں موجود ہوتے تھے اور ان کا استعمال صرف اہم تقریبات کے موقع پر ہوتا تھا اور ان کو جلانے کے لیے خصوصی مہارت درکار ہوتی تھی اورجو افراد لیمپس روشن کرسکتے تھے ان کوپہلے سے ہی اہم تقریبات پر لیمپ روشن کرنے کی ذمے داری سپرد کر دی جاتی تھی۔

مٹی کا تیل جو اس زمانے میں کریانے کی ہر دکان پر دستیاب ہوتا تھا، راشن کے ساتھ شیشے کی بوتلوں میں اس کی خریداری بھی لازمی جزو ہوتی تھی ۔

شام کو لالٹین کے شیشے کی صفائی کے بعد اس کی چھوٹی سی ٹینکی میں ایک مناسب حد تک تیل بھر لیا جاتا تھا اور مغرب کی اذان کے ساتھ ہی لالٹین روشن کر دی جاتی اور اس کو صحن میںایسی اونچی جگہ پر رکھا جاتا تھا جہاں سے مناسب روشنی ہر طرف پھیل سکے اور لالٹین بچوں کی پہنچ سے بھی دور رہ سکے۔

بات ملکی بحرانوں سے شروع کی لیکن پریشان خیالی میں کہیں سے کہیں نکل گئی، میں بات کرنا چاہ رہا تھا کہ ہمارے ہنستے بستے ملک کو نہ جانے کس کی نظر کھا گئی کہ جس سفر کا آغاز پچھتر برس قبل کیا گیا تھا وہ سفر ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا اور اب تویوں لگتا ہے کہ ترقی معکوس میںیہ سفر جاری ہے۔

بجلی کا بحران ہو یا آٹے کی قلت وغیرہ ہم پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی یا اچنبھے کی بات نہیں، ہم ان بحرانوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ ان کو ہم نے اپنی زندگی میں شامل کر لیا ہے اور اب تو بجلی کی بلاتعطل فراہمی اگرجاری ہو تو حیرت ہوتی ہے۔

بلاشبہ توانائی کا بحران دنیا بھر میں سر اٹھا رہا ہے لیکن دنیا میںاس کے تداراک کے لیے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں زبانی جمع خرچ ہی ہوتا رہا ہے۔ جہاں پر بھی آبی قلت کا ذکر آئے گا وہیں پر نئے آبی ذخیروں کی تعمیر کا ذکر بھی لازم ہو گا۔

ہم اکثر آبی ڈیموں کی بات تو کرتے ہیںلیکن دو بڑے ڈیموں کے سوا کسی نئے بڑے ڈیم کی داغ بیل نہیں ڈالی جا سکی۔ ہمارے بزرگ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خواب دیکھتے رخصت ہو گئے اور اب تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے لیے بھی کالا باغ ڈیم ایک ہی خواب ہی رہے گا۔

ملک کے کئی طاقتور حکمران جن میں فوجی اور دوتہائی اکثریت والے سیاستدان بھی اس ملک کے ارباب اختیار رہے مگرملکی سالمیت کا اہم ترین منصوبہ کالا باغ ڈیم تعمیر نہ ہو سکا اور اسے فوجی ، سیاسی حکمرانوں اور قوم پرستی کے نام پر سیاست کرنے والوں نے اسے صوبوں کے درمیان تنارعہ بنا دیا۔

مجھے افسوس سے یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ کسی قومی نوعیت کے تعمیری منصوبے کا متنارعہ بن جانا ایک المیے سے کم نہیںمگر یہ قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے ایسے مختلف المیوںاور بحرانوںکا شکار ہے بلکہ اب تواس قدر عادی ہو چکی ہے کہ ہر وقت قربانی کے لیے اپنا سر پیش کیے رکھتی ہے لیکن قوم کو یہ معلوم نہیں کہ اس کی قربانیوں کا یہ سفر کب ختم ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں