ملٹری کورٹس دوبارہ بنائی جائیں
ملٹری کورٹس کے لمبی مدت کے قیام سے دہشت گردوں کو واضع پیغام ملے گا
پشاور میں مسجد میں دہشت گردی کے واقعہ نے ملک بھر میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے اس واقعے کی ذمے داری بھی قبول کرلی ہے۔
دہشت گردوں نے ملک بھر میں اپنا نیٹ ورک دوبارہ قائم کر لیاہے۔ غلطی ہماری ہے، ہم نے مذاکرات اور سیز فائر کے نام پر انھیں دوبارہ سنبھلنے اور نیٹ ورک بنانے کا خود موقع دیا ہے۔ ہم افغانستان میں جرگے بھیجتے رہے لیکن ٹی ٹی پی والے اپنا کام کرتے رہے۔
ہم ان سے امن کی بات کرتے رہے، وہ جنگ کی تیاری کر رہے تھے، لیکن سوال یہ ہے کہ جوہونا تھا ہو گیا، اب کیا کریں؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ پوری قوت سے دوبارہ لڑنا ہوگی، اس کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کو دوبارہ فعال کرناہوگا۔
لیکن میں سمجھتا ہوںکم از کم پانچ سال کے ملٹری کورٹس دوبارہ بنانا ہوں گی۔ ہم نے دو سال کے لیے ملٹری کورٹس بنائی تھیں، اس کا فائدہ ہوا تھا، ان کے ختم ہونے کا بہت نقصان ہوا ہے۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہمارا روایتی نظام انصاف جیٹ بلیک دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ہمارا نظام انصاف تو عام مجرم کوسزا دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، یہاں تو قتل، ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان کے مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔
دہشت گردوں کی کیا بات کرنی ہے، ایک مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے مقدمات کو کئی کئی سال تک عدالتوں میں زیر سماعت نہیں رکھا جاسکتا ، انھیں عام مجرموں کی طرح عدالتوں میں پیش کرنا بھی ایک خطرناک کام ہے، پھر اپیلوں میں وہ سب بری ہوئے ہیں۔
ہم نے دیکھا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ سے کتنے لوگ بری اور رہا ہوئے ہیں۔ اس لیے ان دہشت گردوں کا عام مجرموں کی طرح ٹرائل نہیں کیا جا سکتا، ان کے لیے ملٹری کورٹس بنانا ہوںگی۔یہ متوازی عدالتی نظام کا معاملہ نہیں ہے، یہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کا معاملہ ہے۔ دو سال کی ملٹری کورٹس کے نتائج سامنے رکھ لیں اور ا س کے بعد عام عدالتی نظام کی کارکردگی سامنے رکھ لیں، صورتحال واضح ہو جائے گی۔
ہمارے نظام انصاف نے دہشت گردی کے مقدمات کو جلد نبٹانے اور کارروائی کو بہتر کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا ہے،کوئی اصلاحات نہیں کی گئی ہیں بلکہ ان کے مقدمات میں ریلیف کو بڑا کریڈٖٹ سمجھا گیا ہے۔
ملٹری کورٹس کی مدت کم اس لیے رکھی گئی تھی کہ ہمارا عدالتی نظام اس دوران دہشت گردوں کے مقدمات سننے کی صلاحیت پیدا کریگا۔ ایسی اصلاحات کرے گا کہ ان کے مقدمات کے جلد فیصلے ہوںگے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ آج ملٹری کورٹس کو ختم ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں۔ لیکن کوئی عدالتی اصلاحات نہیں ہو سکی ہیں۔
اس لیے اب اس ضمن میں روایتی نظام سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی، وہاں تاریخ پر تاریخ کا کلچر ہی چلے گا، اسے ختم کرنے میں کوئی سنجیدہ نظر نہیں آرہاہے، اس لیے عام شہری تو اس کو سہہ ہی رہا ہے۔ لیکن دہشت گردوں کے حوالے یہ رسک نہیں لیا جا سکتا۔
ملٹری کورٹس کے لمبی مدت کے قیام سے دہشت گردوں کو واضع پیغام ملے گا ۔ انھیں سمجھ آجائے گی اب ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوگی، وہ بچ نہیں سکتے۔ میری رائے میں ان کی اپیل سننے کے لیے بھی ملٹری اپیل کورٹس بنائی جائیں۔
ٹرائل کورٹ بھی ملٹری کورٹ ہوگی، اس کی اپیل بھی ایک ملٹری کورٹ ہی سنے گی۔ ان کے مقدمات کا عام عدالتی نظام سے کوئی تعلق ہونا ہی نہیں چاہیے تا کہ کسی بھی قسم کی کوئی رعایت کا کوئی سوال ہی نہ ہو۔
ہمارے سیاستدان ملٹری کورٹس کے حق میں نظر نہیں آتے۔ پہلے بھی یہ کہا گیا کہ یہ ایک کڑوی گولی ہے۔ اس لیے ایک مختصر مدت کے لیے کھائی جا رہی ہے۔ ایسے بیانات بھی سامنے آئے کہ ہم بہت بوجھل دل کے ساتھ ملٹری کورٹس کے حق میں ووٹ دے رہے ہیں۔
اس لیے پہلے سال کے بعد دوسرے سال کی توسیع پر بھی ایسے ہی بیانات سامنے آئے۔ اور پھر تیسرے سال عمران خان ملک کے وزیر اعظم بن چکے تھے۔ انھوں نے اس کی توسیع کے لیے کوئی عملی کوشش ہی نہیں کی۔ وہ اپوزیشن سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتے رہے اور ان کے اس رویے کے نتیجے میں ملٹری کورٹس بھی ختم ہو گئیں اور آج دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا چکی ہے۔
ہم نے جو دہشت گرد پکڑے ہیں، وہ ہمارے ناقص عدالتی نظام کی وجہ سے بچ گئے ہیں۔ رہا ہو گئے ہیں۔ میں وہ اعداد و شمار لکھنا نہیں چاہتا کہ کتنے اپیلوں میں رہا ہوئے ۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ مقدمے میں نقائص ہوںگے اسی لیے ریلیف دیا گیا، پراسیکیوشن کی کمزوریوں کو عدالت پر نہیں ڈالا جا سکتا، لیکن یہ دلیل کمزور ہے، عدالت کو بھی دہشت گردوں کے مقدمات کو سنتے ہوئے دہشت گردی کو سامنے رکھنا چاہیے۔
یہ کوئی عام جرم نہیں، جہاں شک کا فائدہ دہشت گرد یا اس کے سہولت کار کو دیا جاسکے، اس کے شواہد عام مقدمے جیسے نہیں ہو سکتے، اس لیے یہ دلیل کہ شواہد ناکافی تھے، اس لیے چھوڑ رہے ہیں، کوئی درست نہیں۔
یہ درست ہے کہ ملٹری کورٹ میں مقدمہ بھیجنے کا اختیار حکومت کے پاس پہلے بھی تھا اب بھی ہونا چاہیے۔ وہاں مقدمہ بھیجنے کا کوئی معیار بھی ہونا چاہیے۔
عام مقدمات ملٹری کورٹس میں نہیں جانے چاہیے۔ اب تو عام جرائم میں بھی دہشت گردی کی دفعات لگا دی جاتی ہیں۔ پہلے بھی یہ اختیار وفاقی وزارت داخلہ اور وفاقی وزارت قانون کے پاس تھا۔ اب بھی ان کے پاس ہی ہونا چاہیے۔
وہاں سخت اسکروٹنی ہونی چاہیے۔ صرف دہشت گردوں کے مقدمات ہی ملٹری کورٹس میں جانے چاہیے۔ اداروں کو گالیاں دینے کے مقدمات وہاں نہیں جانے چاہیے،اس کے لیے عام عدالتیں ہی کافی ہیں۔
پاکستان کے سیاسی حالات اس وقت سازگار نہیں، ایک سیاسی جماعت پارلیمان سے باہر ہیں، لیکن ملک کے کام تو نہیں رک سکتے، میرا خیال ہے کہ دہشت گردی کا سر کچلنے کے لیے پانچ سال کے لیے ملٹری کورٹس بنانی چاہیے، اس سے دہشت گردوں، ان کے سرپرستوں، سہولت کاروں اور ہنڈلرز کو واضح پیغام جائے گا۔