متحدہ عرب امارات میں چند روز
متحدہ عرب امارات دیکھنے کی خواہش مدت سے دل میں تھی لیکن کوئی سبیل نہیں نکل رہی تھی
KARACHI:
متحدہ عرب امارات دیکھنے کی خواہش مدت سے دل میں تھی لیکن کوئی سبیل نہیں نکل رہی تھی' ایک روز اپنے چیف رپورٹر خالد قیوم، جو میرا دوست بھی ہے، سے سرسری ذکر چھیڑا تو وہ بولا' یہ کونسا مشکل کام ہے' وہاں میرے بھائی موجود ہیں' جب مرضی ہو چلے جائیں بلکہ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا''۔ بس پھر کیا تھا' چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو ملیں تو کس کا دل نہیں چاہے گا ۔ یوں چند دنوں میں سارا پروگرام ترتیب پاگیا۔ فیصلہ ہوا کہ پانچ روز کا وزٹ ہو گا۔21 مارچ کی رات روانگی اور 26 مارچ کی صبح واپسی طے پائی۔ ٹکٹیں دو ہفتے قبل بک کرا لی گئیں۔ ہم21 مارچ کو علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ لاہور سے رات ڈیڑھ بجے کی فلائٹ سے ابوظہبی کے لیے روانہ ہوئے ۔ ہمارا قیام ابوظہبی کے صنعتی شہر مصفع میں تھا جو ابو ظہبی شہر سے 30 کلو میٹر جنوب مغرب میں ہے۔ اس کے مشرق میں محمد بن زاید سٹی ہے' یہ نیا مگر خوبصورت شہر ہے ۔
مصفع شہر کی سڑکیں کشادہ اور صاف ستھری ہیں' دونوں جانب گرین بیلٹس ہیں ' یہ شہر خاصا سر سبز ہے۔ ٹریفک بہت کم ہے' اس شہر میں خواتین کم نظر نہیں آتی ہیں' جابجا فیکڑی ورکر نظر آتے ہیں' یا چمچماتی خوبصورت کاریں۔ خالد قیوم کے بڑے بھائی چوہدری ایوب ہمارے میزبان تھے۔ وہ المیثاق کمپنی کے مالک ہیں' یہ ابوظہبی کی چند بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے اور چوہدری صاحب وہاں کی نمایاں پاکستانی کاروباری شخصیت ہیں۔ انھوں نے اپنی فیکٹری میں ہمارے قیام کے لیے ایک خصوصی کمرہ تیار کرایا تھا' اس میں ہر وہ سہولت موجود تھی جو کسی بڑے ہوٹل میں ہوتی ہے' آرام دہ بستر' اے سی' فریج اور ٹیلی ویژن۔ جب ہم ابوظہبی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہنچے تو رات کے اڑھائی بجے کا وقت تھا۔ یہاں ہم تکلیف دہ چیکنگ سے گزرے۔
ایئر پورٹ کا سارا عملہ اماراتی باشندوں پر مشتمل تھا' یہ سارے نوجوان تھے' پاکستانیوں کو مخاطب کرنے کا انداز تحکمانہ تھا' البتہ خواتین کا بہت احترام کرتے تھے' ایک اور بات یہ ہے کہ ابو ظہبی میں ہماری ایئر لائنوں کے مسافروں کے لیے الگ ایئر پورٹ ہے' جب جہاز لینڈ کر لیتا ہے تو اسے اس لائونج تک آنے میں تقریباً بیس پچیس منٹ لگ جاتے ہیں۔ جب ہم ایئر پورٹ سے باہر نکلے، رات کے کوئی تین بج چکے تھے' ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی' موسم انتہائی رومان پرور تھا۔ باہر پراڈو گاڑی پر چوہدری رستم نعیم اور حاجی یعقوب موجود تھے' انھوں نے ہمارا سامان اٹھایا' اسے گاڑی میں رکھا اور ہم مصفع میں اپنی قیام گاہ پر روانہ ہو گئے' خوبصورت اور روشنی میں نہائی ہوئی سڑکیں' کوئی ٹریفک سگنل نہیں' ہم 10منٹ میں اپنی منزل پر پہنچ گئے' کمرے میں پہنچے' سامان رکھا۔
اسی لمحے خالد قیوم کے چھوٹے بھائی چوہدری ذوالفقار کا فون آ گیا' وہ بضد تھا کہ آپ میرے مہمان ہیں' میں نے تو ہوٹل کا کمرہ بھی بک کرا رکھا ہے اور اپنی فیکٹری کے ساتھ ہی خصوصی کمرہ بھی تیار کر رکھا ہے' اپنا سامان اٹھائیں اور میرے پاس آئیں' اسے بڑی مشکل سے راضی کیا' یوں ہمیں اطمینان ہوا کہ چلو ناراضی سے بچ گئے۔ چوہدری رستم نعیم نے ہمیں کہا کہ چلیں باہر نکلتے ہیں' کچھ ہلکا پھلکا کھا لیتے ہیں' وہاں سے ہم ایک پٹرول پمپ پر پہنچے' ابوظہبی اور دبئی میں پٹرول پمپ زندگی سے بھرپور نظر آتے ہیں' یہاں فاسٹ فوڈ' چائے' جوس اور اسٹور پر ہر چیز ملے گی۔ ہم نے ایک بھارتی فاسٹ فوڈ شاپ سے برگر لیا اور وہیں بیٹھ کر کھایا' بوتل پی وہاں کچھ دیر بیٹھے اور پھر واپس اپنی قیام گاہ پہنچے۔ اس وقت فجر کے تقریباً ساڑھے4 بج چکے تھے' بستر پر گرتے ہی نیند نے آ لیا۔ اگلی صبح چوہدری ایوب صاحب ہمارے کمرے میں پہنچ گئے' چوہدری ایوب صاحب کے بارے میں ممتاز صحافی عامر میر کے کہے گئے الفاظ آپ بھی سن لیں۔ ابوظہبی روانگی سے پہلے میں اور خالد قیوم گاڑی میں کاسموپولیٹن کلب لاہور سے دفتر آ رہے تھے کہ عامر میر کا فون آ گیا۔
خالد قیوم نے انھیں بتایا کہ ہم متحدہ عرب امارات جا رہے ہیں اور پھر ان سے میری بات کرا دی۔ عامر میر جاپان جا رہے تھے' باتوں باتوں میں انھوں نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا' ''یار تم ابوظہبی جا تو رہے ہو لیکن تمہیں میں ایک بات بتانا چاہتا ہوں' پھر انھوں نے کہا کہ وہاں خالد قیوم کے بڑے بھائی چوہدری ایوب سے بچ کر رہنا۔ میں نے سوال داغا کیوں؟ عامر میر نے بتایا۔ ''ایک بار خالد قیوم سے کوئی غلطی ہو گئی تھی تو انھوں نے اس کی پھینٹی لگا دی تھی۔ یہ بات ایک بھرپور قہقہے کے ساتھ ختم ہو گئی' سچی بات ہے کہ یہ سن کر میں تھوڑا سا پریشان ہو گیا' دل میں وسوسہ پیدا ہوا کہ یار کہیں گڑ بڑ ہی نہ ہو جائے۔ اب وہی چوہدری ایوب ہمارے ساتھ بیٹھے تھے' بڑے سادا مزاج' صاف گو اور کھرے آدمی' رہن سہن پاکستان کے روایتی خاندانوں جیسا' انھیں مل کر تسلی ہوئی کہ خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے یہ بات انھیں بھی بتائی تو بڑا ہنسے۔
سچی بات ہے کہ جس طرح انھوں نے ہمارا خیال رکھا ہے' آج کے نفسا نفسی کے زمانے میں ایسا ممکن نہیں ہے' ویسے بھی متحدہ عرب امارات میں جو پاکستانی کام کر رہے ہیں' ان کے پاس وقت نہیں ہوتا' ان کی زندگی بہت مصروف ہوتی ہے' چاہے وہ کوئی کاروباری شخصیت ہو یا کوئی ملازم، سب انتھک کام کرتے ہیں۔ فالتو باتوں کی کسی کے پاس فرصت نہیں ہے۔ اس تناظر کو سامنے رکھیں تو سمجھ آتا ہے کہ ابوظہبی اور دبئی میں دوستوں نے ہمارا کس قدر خیال رکھا۔ چوہدری ایوب ہر روز پوچھتے کہ کسی قسم کی پریشانی تو نہیں ہے' انھوں نے ڈرائیور اور گاڑی ہماری صوابدید پر دے دی کہ آپ جہاں جانا چاہیں' جائیں' پھر انھوں نے اگلے روز کا لنچ اپنے گھر میں کرایا' ان کا گھر مصفع کے نزدیک شہابیہ شہر میں ہے' یہ بھی ابوظہبی حکومت نے نیا شہر بنایا ہے۔ بڑا خوبصورت شہر ہے۔ اس کی کمرشل مارکیٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا' بڑے سلیقے اور منصوبہ بندی سے بنائی گئی اس مارکیٹ میں دنیا کی ہر چیز ملتی ہے۔ بلند و بالا رہائشی فلیٹس ہیں' ابھی یہ شہر آباد ہو رہا ہے' یہاں نسبتاً کم کرائے پر فلیٹ مل جاتا ہے' اس شہر میں کاروبار اور روز گار کے مواقع بھی وافر ہیں۔
دبئی' ابوظہبی اور شارجہ کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا' دبئی کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ بگڑا سے بگڑا پاکستانی یہاں آ کر تیر کی مانند سیدھا ہو جاتا ہے ۔ یعنی بندے کا پتر بن جاتا ہے۔ پاکستانی ایئر پورٹ پر جہاز سے اترتے ہی خود کو قانون کا پابند بنا لیتے ہیں' مجال ہے کہ کوئی ہینکی پینکی کر جائے' پاکستانی اتنے محتاط ہوتے ہیں کہ ائر پورٹ پر اگر اپنی ہی چیز گر جائے تو اسے اٹھانے سے پہلے بھی قانون کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ یہاں آ کر انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کیا ہے؟ ڈسپلن کیا ہے اور معاشی مواقع کیا ہوتے ہیں' میں نے وہاں دیکھا ہے کہ ایک تنہا شُرطہ (سپاہی) ہمارے آئی جی سے زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ میں نے ابوظہبی' دبئی اور شارجہ تک سفر کیا لیکن مجھے کوئی پولیس ناکہ نظر نہیں آیا' کوئی ٹریفک اہلکار کسی ٹریفک سگنل پر نہیں دیکھا' کسی بازار' اسٹریٹ یا شاپنگ مال میں وردی پوش پولیس اہلکار نہیں دیکھا لیکن اس کے باوجود ایسا ڈسپلن اور قانون کا خوف کہ یقین نہیں آتا کہ دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے۔
دبئی یا متحدہ عرب امارات کسی بھی شخص کی نئی زندگی کا گیٹ وے ہے۔ جیسے ہی آپ اس گیٹ وے سے باہر آئے' دنیا بدل گئی۔ وہاں کا حکمران قانون پہلے اپنے اوپر نافذ کرتا ہے۔ پورا متحدہ عرب امارات انتہائی محفوظ ہے۔ دن ہو یا رات کسی بھی وقت آپ بلا خوف خطر کہیں بھی جا سکتے ہیں' وہاں کے شہری اتنے آزاد ہیں کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ کوئی دکاندار' ہوٹل والا' برگر والا یا ٹیکسی والا اس سے زائد پیسے وصول کر سکتا ہے یا کوئی ڈاکو انھیں لوٹ بھی سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے دین اورامور مملکت کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ سیکولر ازم کی عملی تفسیر دبئی اور ابوظہبی میں نظر آتی ہے۔ آپ مسجد جانے کے لیے بھی آزاد ہیں اور کسی نائٹ کلب کو انجوائے کرنے میں بھی آزاد ہیں' کسی کی جرات نہیں کہ وہ اس نظام یا طرز زندگی پر اعتراض کرے۔
جتنے نائٹ کلب دبئی اور تھائی لینڈ میں ہیں' ایشیاء کے کسی اور ملک میں نہیں ہیں۔ یہاں قدم قدم پر باریں' کلب' ڈسکوز اور پب نظر آئیں گے۔ شام ڈھلتے ہی دبئی جاگ اٹھتا ہے' روشنیاں ہی روشنیاں' زندگی کی ایسی گہما گہمی شاید ہی کسی دوسرے ملک میں نظر آئے' یہاں ہر رنگ اور نسل کے لوگ نظر آئیں گے۔ وسط ایشیائی ریاستوں' رشیاء' یوکرائن' افریقہ' مشرقی یورپ' پاکستان' ہندوستان' بنگلہ دیش' چین اور فلپائن سے آئی ہوئی لڑکیاں جا بجا ادھر ادھر نظر آئیں گی۔ انتہائی مختصر لباس میں ملبوس یہ لڑکیاں آزادی سے پھر رہی ہیں' ہر ہوٹل کا شراب خانہ اور ڈانس کلب شام ڈھلتے ہی آباد ہو جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی میں شاید غم یا مایوسی نام کا کوئی جذبہ موجود ہی نہیں ہے۔ ابوظہبی اور دبئی کی کچھ رنگین باتیں اگلے کالم میں سنائوں گا۔