ایک اور ’آپریشن ضربِ عضب‘ کی ضرورت

ریاست کو اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے دہشتگردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کرنا ہوگا


ضیا الرحمٰن ضیا February 02, 2023
اس قوم نے ایک طویل عرصے تک دہشتگردی کا سامنا کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک بار پھر سانحہ پشاور نے ریاست کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ انتہائی المناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب خودکش حملہ آور نے پشاور کی ایک مسجد میں نماز ظہر کے دوران خود کو دھماکے سے اڑا دیا، جس کے نتیجے میں سو سے زائد افراد شہید ہوگئے۔ پوری قوم اس واقعے پر سوگوار ہے۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ اس سانحے نے کتنے گھر اجاڑ دیے، کتنی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم کردیے۔

یہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ پہلو ہے جس نے کئی سوالیہ نشان ہمارے حکمرانوں اور عوام کےلیے چھوڑ دیے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو عوامی مفادات سے کوئی غرض نہیں ہے۔ وہ مہنگائی ختم کرنے، بیروزگاری کم کرنے اور دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے عوام کو دہشتگردی کا نیا تحفہ دیا جارہا ہے۔

اس قوم نے ایک طویل عرصہ تک دہشتگردی کا سامنا کیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ہمارا وطن دہشتگردوں کے نشانے پر ہے اور دہشتگردی کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ ان واقعات میں ہمارے ہزاروں شہری اور افواج کے جوان شہید ہوچکے ہیں۔ ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچا وہ علیحدہ ہے۔ انسانی خون کا بے دریغ ضیاع ہوتا رہا جس کا سلسلہ تھمنے کے بجائے ایک بار پھر بڑھنے لگا ہے۔ 2014 میں پیش آنے والے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے فوجی قیادت کے ساتھ مل کر نیشنل ایکشن پلان تیار کیا جس میں دہشتگردی کی کسی بھی صورت کو برداشت نہ کرنے کا فیصلہ ہوا اور دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کا عزم کیا گیا۔ اس کے بعد ایک بڑا آپریشن 'ضرب عضب' کے نام ہوا، جس میں پوری قوم نے پاک فوج کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور وہ آپریشن کامیاب ہوا اور دہشتگردوں کا بڑی حد تک خاتمہ کردیا گیا۔

بدقسمتی سے آپریشن ضرب عضب میں بھی مکمل طور پر دہشتگردی کا خاتمہ نہ ہوسکا اور ان کی اِکا دُکا کارروائیاں جاری رہیں، لیکن ان کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ صرف اپنی موجودگی کے اظہار کےلیے دہشتگرد موقع ملنے پر چھوٹی چھوٹی کارروائیاں کرتے رہے مگر دہشتگردی کی گزشتہ تاریخ کے مقابلے میں یہ کارروائیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ یوں کچھ عرصہ تک تو ملک میں امن و امان قائم ہوگیا۔ پھر رفتہ رفتہ دوبارہ دہشتگردوں نے وطن عزیز میں کارروائیاں شروع کردیں۔ 2021 سے ایک بار بھر ملک میں دہشتگردی کے واقعات پیش آنے لگے اور ان میں اضافہ ہونے لگا۔ 2022 کے اختتام اور 23 کی ابتدا تک تو یہ عالم ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جب ملک کے کسی علاقے میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا ہو۔ ان واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا اور بالآخر سانحہ پشاور جیسا عظیم اور المناک سانحہ رونما ہوا، جس میں سو سے زائد معصوم شہریوں کو شہید کردیا گیا۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شاید دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور انہیں محفوظ ٹھکانے بھی میسر آگئے ہیں۔ اگرچہ ہم بھی ان لوگوں میں سے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں امن قائم ہوجائے گا، طالبان ہماری مغربی سرحد پر دہشتگردوں کی آمدورفت کا سلسلہ بند کردیں گے۔ مگر اب حالات کو دیکھتے ہوئے نہایت مایوسی اور افسوس ہورہا ہے۔ ہم نے اپنی مغربی سرحد کو محفوظ بنانے کےلیے خاردار باڑ لگانے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا مگر اب تو وہ بھی غیر مؤثر محسوس ہورہا ہے کیونکہ دہشتگردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہے، نہ جانے وہ باڑ کس کام کی ہے؟

بہرحال ہمیں کسی کی طرف دیکھنے کے بجائے بزور طاقت اپنے ملک کے حالات کو بہتر بنانا چاہیے۔ ہمیں نہ امریکا، اقوام متحدہ اور نہ ہی افغانستان سے امیدیں وابستہ کرنی چاہئیں۔ ہمیں خود ہی ان دہشتگردوں سے پوری قوت کے ساتھ نمٹنا چاہیے۔ ایک بار پھر آپریشن ضرب عضب کی ضرورت ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے جس میں دہشتگردوں کی باقیات بھی نہ رہیں۔ اگر ان کی باقیات کو چھوڑ دیا جائے گا تو وہ دوبارہ مضبوط ہوجاتے ہیں۔ اب مذمت اور مذاکرات کا وقت نہیں ہے، ہم نے یہ سب بہت کرکے دیکھ لیا ہے، اس سے ذرہ برابر افاقہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اب ریاست کو اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دہشتگردوں کے خلاف پوری قوت کے ساتھ بڑے پیمانے پر آپریشن کرنا ہوگا۔ یہی واحد راستہ ہے جس سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا اور ملک میں امن قائم ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں