بلدیاتی نظام … عوام سے دھوکا
میئر شپ کی رسہ کشی میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی مسلسل دست وگریبان ہیں
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں آج کل گرفتاریوں کے ساتھ الیکشن کی کافی ہاہا کار مچی ہوئی ہے، ہر سیاسی رہنما خود کو جمہوریت کا نمایندہ سمجھ کر اپنے طور پر اپنی مرضی کی جمہوریت لانے پر مصر ہے۔
اس درمیان ملکی معاشی ابتری اور شدید مالی مشکلات سے پریشان عام فرد ایک وقت کی روٹی کے حصول کے لیے ذہنی مشکلات کے ایسے نرغے میں پھنسا ہوا ہے کہ وہ تمام سیاسی قیادت کو نہ صرف کوس رہا ہے بلکہ سیاسی ہلچل سے خود کو لا تعلق کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
جس کا عملی مظاہرہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات سے عوام کے لا تعلق ہونے اور بلدیاتی انتخابات میں عملی سرگرمی نہ دکھانے کو پوری دنیا نے دیکھا۔
عوام کی سیاست سے لاتعلقی کی وجوہات کو جاننے کے لیے ہمیں اپنی ان سیاسی خرابیوں یا غفلت کی طرف نظر ڈالنا ہوگی۔
سیاست کو عام عوام کے ہاتھوں میں دینے کے بجائے ملک میں پچھتر برس سے تجرباتی امراء کی سیاسی پود پیدا کی جاتی رہی جو اپنے طبقے کے مفادات کو پورا کرتے ہوئے عوم کی معاشی حالت خراب کرکے عام فرد کا نوالہ چھین رہی ہے۔
امرا کا یہ طبقہ بعد میں اپنی اعلیٰ عیاشیوں کے سبب عوام کو سرمایہ دارانہ مفادات کے نگراں آئی ایم ایف کے سامنے تر نوالے کے طور پر ڈال دیتا ہے۔سات دہائیوں سے جمہوریت کا راگ الاپنے والے اعلیٰ طبقاتی حکمران جب طلبہ ، مزدور اور محنت کش کی ٹریڈ یونین سیاست کی آزادی آج تک نہ دے پائے تو وہ عام فرد کے نمایندوں کو محلے گلی کے مسائل کو حل کرنے کی آزادی کیوں کر دیں گے ؟
جمہوریت کے یہ چیمپیئن اکثر کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ عوام کی جمہوریت کا بنیادی تقاضہ اور ضرورت ایک مربوط بلدیاتی نظام ہے ، مگر تاریخی طور پر ہر آمر اور جمہوریت پسند نے عوام کے بنیادی بلدیاتی نظام کو لانے میں ہمیشہ پس و پیش کیا یا اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام لانے کی کوشش کی ، جس کا نتیجہ کراچی ایسا عالمی شہر تجاوزات اور مفلوج نظام زندگی کا ایک بے ترتیب شہر بنا ہوا ہے۔
عوامی جمہوریت کا ہر وقت دم بھرنے والی سندھ کے اقتدار کی وارث پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں ہر چار سال کے بعد ہونے والے شہری حکومت کے انتخابات عدالتی حکم کے تحت نہ چاہتے ہوئے 15جنوری2023 کو کروانے پڑے جس میں ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے نتیجے میں اکثریتی پارٹی کے طور پر کراچی شہر کی نمایندہ جماعت پیپلز پارٹی جب کہ دوسرے نمبر پر مذہبی جماعت اسلامی ٹہری ، دس روز گذر جانے کے باوجود اب تک نہ مکمل نتائج آسکے اور نہ ہی یہ طے ہو سکا ہے کہ میئرکس جماعت کا ہوگا۔
میئر شپ کی رسہ کشی میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی مسلسل دست وگریبان ہیں جب کہ عوام بھونچکا سے ہو کر اپنی نمایندہ جماعتوں کے جھگڑوں میں شہر کی سماجی ترقی سے ہنوز محروم ہیں۔
اس پورے بلدیاتی تناظر میں اہم بات یہ نہیں کہ ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بلدیاتی الیکشن کروا دیے گئے بلکہ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ خاص طور پر کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے بعد اختیارات اور بلدیاتی نظام اپنے ہاتھ میں لینے کی کوششوں کا سبب کیا ہے اور اشرافیہ آخرکار اپنے ہی قابو میں آنے والے افراد گروہ یا جماعت کو کراچی کا بلدیاتی نظام کیوں دینا چاہتی ہے۔
اس اہم مسئلے کو سمجھنے کے لیے برطانوی راج سے لے کر آج تک کے بلدیاتی نظام پر ایک نظر ڈالنا بہت اہم اور ضروری امر ہے ، تاریخی طور پر برطانوی راج میں جب کراچی کو بمبئی حکومت نے شہرکا درجہ دیا تو1846میں کنزروینسی بورڈ تشکیل دیا گیا۔
اس کے بعد 1851میں میونسپل کمیشن بنا اور1925میں میونسپل بورڈ کا درجہ دے کر کراچی کے بلدیاتی نظام کو چلانے کے لیے 1933میں میونسپل کارپوریشن بنایا ، اسی دوران شہر کی اہمیت اور آبادی میں اضافے کے سبب بمبئی حکومت نے کراچی کو1851کی شرح آبادی کی بنیاد پر1884 میں اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق دیا جب کہ پارسی میئر جمشید نو سر وانجی 1920میں کراچی کے پہلے میئر مقررکیے گئے جن کی سربراہی میں 57کونسلرز، جن میں 12کونسلر برطانوی حکومت کے مقررکردہ تھے۔
کے ذریعے شہر کا بلدیاتی نظام چلایا ، جب کہ اس سے قبل برطانیہ نے اپنے راج کو مضبوط کرنے کے لیے کراچی کو فوجی دفاع کے طور پر چنا اور چارلس نیپیئرکی سربراہی میں1843میں کراچی کو برٹش فوج کا کنٹونمنٹ بنایا جب کہ بلدیات کے پورے نظام کو برطانوی راج نے اپنے اثر میں رکھا اور تقسیم ہند کے بعد ہمارے حصے میں آنے والے برٹش فوج کے افسران کو تاکید کی کہ کراچی شہر کا انتظام و انصرام مکمل طور پر عوامی نمایندوں کو فوجی حکمت عملی کے طور پر ہرگز منتقل نہ کیا جائے۔ تاریخی طور سے ہمارے ملک کی اشرافیہ اب تک ذہنی طور سے برطانوی فوجی تسلط سے آزاد نہیں ہو سکی ہے۔
ملک میں پہلے مارشل لا کے خالق جنرل ایوب نے کراچی میں حکومتی اثر اور جبر قائم رکنے کے لیے بنیادی جمہوریت کا خاکہ1959میں پیش کیا جس کے خالق ذوالفقار علی بھٹو بنے ، جنرل ایوب کا یہ نظام بھی بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد 1972میں دم توڑ گیا ، مگر اس بلدیاتی نظام کو ملک میں بھٹو خود نافذ کرنے میں ناکام رہے کہ بھٹوکی حکومت جنرل ضیا کے مارشل لا نے ختم کی اور سندھ لوکل گورنمنٹ نظام لے کر آئے جس کے تحت مارشل لا کے باوجود پیپلز پارٹی کے عبدالخالق اللہ والا اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئے۔
مگر جنرل ضیا نے اپنی من پسند جماعت کو کراچی کی میئر شپ دلوائی ، جس کے لیے 4 ووٹ پیپلز پارٹی کے مسترد کروائے گئے اور یوں عبدالستار افغانی کو میئر منتخب کروایا ، اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ 1988کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں بھی بلدیاتی نظام کا حق عوام کے عام فرد تک نہ پہنچا سکیں۔
جنرل ضیا نے اپنے اقتدارکو طول دینے اور کراچی کے جمہوری مزاج کو سمجھتے ہوئے نسلی بنیاد پر مہاجر قومی موومنٹ بنوائی اور 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے اپنی بنائی ہوئی جماعت ایم کیو ایم کو کراچی کی بلدیات کا نظام ستار فاروق کی قیادت میں حوالے کیا اور اس بلدیاتی نظام پر مکمل کنٹرول اشرافیہ کا ہی رہا۔
جنرل ضیا کے بعد 1999میں ملک ایک مرتبہ پھر جنرل مشرف کی آمریت کا شکار ہوا اور عوام کو جمہوری آزادی اور جمہوری الیکشن دینے کے بجائے اشرافیہ کی گود لی گئی جماعت ایم کیو ایم کی مدد سے لوکل باڈی آرڈیننس جنرل تنویر نقوی کی سربراہی میں بنوایا اور کراچی میں بلدیاتی اختیارات میں وسیع پیمانے کی آزادی دی ، مگر جب کراچی میں بلدیاتی آزادی دینے کا وقت آیا تو جنرل مشرف کی اتحادی جماعت نے مکمل بلدیاتی اختیارات کا تقاضہ کیا مگر چونکہ اشرافیہ کراچی کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرنا چاہتی تھی سو ایم کیو ایم کو باقاعدہ کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے بائیکاٹ پر مجبورکیا گیا اور پھر اشرافیہ نے اپنی من پسند جماعت کے میئر کو لانے میں کامیاب ہوئی جو جنرل مشرف کے دیے گئے محدود اختیارات پر کام کرنے کے لیے راضی تھے۔