قومی مکالمہ وقت کی ضرورت

وقت آگیا ہے کہ اس ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک میز پر آئیں اور ایک جامع ڈائیلاگ کا آغاز ہو


Editorial February 04, 2023
وقت آگیا ہے کہ اس ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک میز پر آئیں اور ایک جامع ڈائیلاگ کا آغاز ہو—فائل فوٹو

وزیراعظم شہباز شریف نے تمام اہم قومی امور پر سیاسی قیادت کو ایک میز پر بٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی سلسلے میں انھوں نے 7 فروری کو اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس بُلا لی ہے۔

وزیراعظم نے اے پی سی میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے، جو کہ انتہائی خوش آیند امر ہے ، اب کسی بھی قوم کی ترقی اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ ملک کو درپیش اہم مسائل پر قومی اتفاق رائے نہ ہو ، شاید قوم کی تاریخ میں آج سے زیادہ مناسب وقت کبھی نہیں گزرا جب پاکستان کو '' نیشنل ڈائیلاگ'' کی ضرورت ہو۔

قومی اتفاق رائے ہمارے دو بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے، ملک کو اس وقت دہشت گردی کی بحالی اور تباہ حال معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے بحران کا سامنا ہے۔

ہر شعبے سے انتہا پسندانہ سوچ ختم کر کے باہمی برداشت و بھائی چارے کو فروغ دینا ہوگا ، ایسے اندوہناک واقعات کی مستقبل میں روک تھام کے لیے فریم ورک تیار کرنا ہو گا ، یہ کسی ایک فرد یا قوم کا نہیں ، پورے ملک کا مشترکہ مسئلہ ہے، دہشت گردی کے خلاف قومی ڈائیلاگ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

پاکستان کو اس وقت جس بحرانی کیفیت کا سامنا ہے اس کا مقابلہ کوئی فرد یا جماعت اکیلے نہیں کرسکتی بلکہ اس کے لیے ایک ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس پر تمام اسٹیک ہولڈرز متفق ہوں۔

یہ ایک ایسی بات ہے جس کا احساس اور ادراک تو شاید ہماری تمام سیاسی قیادت کو ہے لیکن اس سلسلے میں عملی طور پر اقدامات کسی کی طرف سے نہیں کیے جاتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین کی انائیں اتنی بڑی ہیں کہ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ قومی مفاد کے لیے بھی ملنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

ان سطور کے ذریعے ہم پرامید ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی اے پی سی میں شرکت کا صائب فیصلہ کریں گے ، کیونکہ یہ قومی اہمیت کا مسئلہ ہے، سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے کا ہونا جمہوریت کا حسن ہے ، لیکن قومی مفاد ہر شئے سے زیادہ مقدم ہوتا ہے۔

گو اس ملک میں ایسا کئی بار ہوچکا ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگ اپنے اپنے مفادات کے لیے تو اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن ایسا کوئی بھی موقع گزشتہ پون صدی کے دوران دیکھنے میں نہیں آیا جب قومی مفادات کے لیے تمام سیاسی قیادت کسی ایک بات پر متفق ہوئی ہو۔

یہی وجہ ہے کہ مسائل بڑھتے ہی جاتے ہیں اور ہر حکومت جہاں ان کو قابو کرنے کے کچھ اقدامات کررہی ہوتی ہے وہیں حزبِ اختلاف کی جماعتیں صرف اور صرف تنقید کو اپنا فرض سمجھ کر کیڑے نکالنے میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کی اس بات سے کوئی بھی غیر متفق نہیں ہوگا کہ قومیں صف بندی اور پلاننگ سے بنتی ہیں جس کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی آئے کوئی جائے صنعت، تعلیم، صحت، زراعت اور معیشت پر سیاست کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اگلی حکومت آئی اور پچھلی حکومت کے ادارے تباہ کر دیے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن پر ہماری پوری سیاسی قیادت کو متفق ہونا چاہیے ، اگر یہ ملک اور نظام قائم ہے تو ہماری سیاسی قیادت اور جماعتیں بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہیں لیکن اگر مسلسل بگڑتے ہوئے حالات نے ملک کو عدم استحکام سے بھی نچلے درجے میں پہنچا دیا تو سیاسی قیادت کے پاس کھوکھلے نعروں اور زبانی جمع خرچ کے لیے بھی کوئی پلیٹ فارم نہیں بچے گا۔

اس لیے یہ ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں اور مسائل کا حل یہ سوچ کر نکالیں کہ یہ ملک ہمارا ہے اور اسے بچانے کی ذمے داری صرف اور صرف ہماری ہے، کوئی بھی دوسرا باہر سے آ کر اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔

پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت اور پی ٹی آئی اپوزیشن ، دونوں ملک کی تقریباً پوری سیاسی قیادت کی نمایندگی کرتی ہیں۔

ہمیں دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالیرنس کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا ، ریاست اور حکومتی اداروں کو دہشت گردوں کے خلاف ایک پیج پر آنا ہوگا ، معیشت اور امن و امان دونوں محاذوں پر صورت حال سنگین ہونے کے باوجود سیاستدان اپنے اپنے سیاسی فائدے کے لیے فکر مند ہیں۔ مختلف سطحوں پر اور معاشرے کے مختلف طبقات کی طرف سے ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاق رائے کے لیے آوازیں کافی عرصے سے اُٹھ رہی ہیں۔

اس وقت پاکستان انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے، ملک کو دہشت گردی اور اقتصادی چیلنجز درپیش ہیں جس سے نمٹنے کے لیے تمام فریقین کے درمیان قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے ، کیونکہ اس وقت ملک سنگین معاشی سیاسی بحران کی جانب گامزن ہے غریب متوسطہ طبقہ مہنگائی بے روزگاری سے تنگ ہے جس سے دل برداشتہ ہو کر نوجوان نسل جرائم کی جانب بڑھ رہی ہے۔

قومی سطح پر اتفاق رائے کا مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم ہوچکے ہیں، جو ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ غیر معمولی حالات غیر معمولی فیصلہ سازی کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب سیاسی رہنماؤں کے درمیان وسیع تر اتفاق رائے ہو۔

ایک مثالی معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ہوں۔ عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان پر حکمرانی کرنے والا جمہوری لیڈر ہے یا اس نے بزور طاقت اقتدار حاصل کیا ہے۔ ان کو اپنے مسائل کے حل سے دلچسپی ہوتی ہے۔

آپ یہاں بے شک فلسفہ جھاڑ لیں کہ اس اکیسویں صدی میں جمہوری نظام سے ہٹ کر کوئی بات کرنا آپ کی تاریک سو چ کی عکاس ہے لیکن ان دانشوروں کو یہ بات کون سمجھائے گا کہ اس اکیسویں صدی میں بھی اس پیٹ کو روٹی کی ضرورت ہے اور یہ روٹی اب اس کو جمہوری نظام دے یا کوئی بادشاہت وہ اس کے لیے قابل قبول ہوگا۔

اس اکیسویں صدی میں بھی آپ محض جمہوریت کا نام لے کر کسی کا پیٹ نہیں بھر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کا تن ڈھانپ سکتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے لوگ بھی اپنے گھرکی دہلیز پر انصاف چاہتے ہیں۔

آخر ہمارے ساتھ مسئلہ کیاہے ؟ ہم آج تک وہ قیادت کیوں نہیں پیدا کرسکے ہیں ، جو کسی ملک کے نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنے پر قادر ہو۔ یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ سمت کا درست تعین نہ ہونے کے باعث ہم جان ہی نہیں سکے ہیں کہ ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔

ہمارے بچوں نے اردو میڈیم میں پڑھنا ہے یا انگلش میڈیم میں یا پھر ان کو دینی مدارس کی راہ دکھانی ہے؟ ہمارا قومی بیانیہ کیا ہوگا ؟ ہمیں ایک مضبوط وفاق کی ضرورت ہے یا پھر ہمیں صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینی ہوگی؟

ہم تو آج تک اس بات کا بھی تعین نہیں کرسکے ہیں ہمارا دوست کون ہے اور ہمارا دشمن کون ہے ؟ اور کیا یہ بھی سب سے تلخ حقیقت نہیں ہے کہ ہم آج تک خود کو ایک قوم کی شکل میں نہیں ڈھال سکے ہیں اور سب سے خطرناک بات وہ فرقہ ورانہ تفریق ہے جو آج باقاعدہ نفرت میں تبدیل ہوچکی ہے اور بدقسمتی سے یہ نفرت اتنی شدید ہے کہ جو ہمیں ایک دوسرے کی جان لینے سے بھی نہیں روکتی۔قوموں کی زندگی میں پچھتر برس کچھ نہیں ہوتے۔ بظاہر آج ہمیں ہر طرف اندھیرا نظر آتا ہے لیکن ہم اگر آج بھی اپنی درست سمت کا تعین کرلیں تو باقی مسائل حل ہونے میں بھی زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

اس وقت ملک کو ایک نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ اس ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک میز پر آئیں اور ایک جامع ڈائیلاگ کا آغاز ہو اور پھر اس کی روشنی میں ترجیحات طے کی جائیں اور متفقہ فیصلہ کیا جائے کہ ملک کو کس ڈگر پر چلانا ہے، اگر ہم نے اس میں مزید تاخیر کی تو ہمیں اس کا ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی قومی اتفاق رائے کی درخواست کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور اہم ایشوز پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے فوری گرینڈ ڈائیلاگ شروع کیا جانا چاہیے۔

سیاسی جنگ بندی بلاشبہ ملک کے سنگین مسائل کے حل کی نشاندہی کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ان کی سیاسی وابستگیوں اور سیاسی جھکاؤ سے قطع نظر تفصیلی بات چیت ہونی چاہیے۔ سیاسی استحکام ایک مثبت پیغام بھیجے گا اور ہمارے اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ سلامتی سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں مدد کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں