کینسر ڈرنے کی نہیں سمجھنے کی چیز ہے
بس خود نیم حکیم بننے یا کسی نمونے باز کی باتوں میں آنے سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے
چار فروری ، سرطان کی آگہی کا عالمی دن کینسر کنٹرول کی یونین ( یوآئی سی سی ) کے تحت سن دو ہزار سے منایا جا رہا ہے۔
اس کرہ ارض پر سالانہ ایک کروڑ افراد طرح طرح کے سرطان سے مرجاتے ہیں۔یہ تعداد ایڈز ، ملیریا اور ٹی بی سے ہونے والی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہے۔ سرطان سے ستر فیصد اموات غریب اور متوسط ممالک میں ہوتی ہیں۔
عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او ) کو خدشہ ہے کہ انفرادی و اجتماعی شعور نہ بڑھا تو سن دو ہزار تیس کے بعد کے برسوں میں کینسر سے سالانہ اموات ایک کروڑ سے بڑھ کے ایک کروڑ پندرہ لاکھ تک پہنچ سکتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ تمباکو نوشی ، شراب نوشی کی لت ، ناکافی غذائیت اورورزش کی کمی پر قابو پا لیا جائے تو سرطانی اموات میں چالیس فیصد تک کمی ہو سکتی ہے، اگر کینسر ابتدائی مرحلے میں پکڑا جائے تو مزید ایک تہائی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔کینسر کے پھیلاؤ کے انفرادی و اجتماعی اقتصادی نقصان کو جوڑ لیا جائے تو سالانہ حجم سوا کھرب ڈالر تک بنتا ہے۔
جس طرح ایک زمانے تک کوڑھ اور پھر تپِ دق کو سزائے موت کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج دونوں امراض کو قابلِ علاج سمجھنا معمول کا رویہ ہے۔
اسی طرح آج کے دور میں کسی کو کینسر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لازماً مر ہی جائے گا۔ سرطان کی بہت سی قسموں کا تسلی بخش علاج قوتِ ارادی ، لائف اسٹائل اور جدید طبی آلات و ادویات و تشخیص ترقی کے سبب پہلے سے زیادہ ممکن ہے۔
کینسر کا مطلب ہے کہ انسانی خلیوں کا کوئی ایک گروہ باغی ہو جائے یا پگلا کے غیر معمولی انداز میں بڑھنا یا پھیلنا شروع کردے اور کہیں بھی ایک گچھا (ٹیومر ) سا بنا لے۔سوائے خون کے سرطان ( لوکیمیا ) اور ریڑھ کی ہڈی کے گودے ( بون میرو ) کے سرطان کے علاوہ تمام کینسر ٹیومر کی شکل میں بڑھتے اور پھیلتے ہیں۔
بروقت تشخیص نہ ہو تو یہ ٹیومرز آس پاس کے صحت مند خلیوں کو متاثر کرنے لگتے ہیں یا خون میں شامل ہو کے جسم کے دوسرے حصوں تک رسائی حاصل کر کے ان اعضا کی فعالیت ہائی جیک کرنے لگتے ہیں۔
ٹیومرز تین طرح کے ہوتے ہیں۔اول بے ضرر چھوٹے ٹیومر جو نہایت آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں مگر پھیلنے کے بجائے ایک ہی جگہ رہتے ہیں۔اگر ان سے بلاوجہ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے تو عموماً کچھ نہیں کہتے۔ دوسری قسم ہے ضرر رساں (میلگننٹ ) ٹیومرز کی۔
یہ تیزی سے بڑھتے ہوئے جسم کے دیگر حصوں تک پھیل کے مزید گروپ بناتے چلے جاتے ہیں اور اپنے ساتھ صحت مند خلیوں اور پٹھوں کو بھی گھسیٹ لیتے ہیں۔تیسری قسم پری میلگننٹ ٹیومرز کی ہے۔وہ بذات خود سرطان نہیں پھیلاتے مگر سازگار ماحول میں پھیلا بھی سکتے ہیں۔
کینسر کے فروغ کا امکان بڑھانے والے کچھ اسباب سے بچنا شاید آپ کے بس میں نہ ہو۔جیسے صنعتی و ماحولیاتی آلودگی یا جینیاتی مسائل۔البتہ کچھ اسباب کو اپنا طرزِ زندگی لچک دار بنا کے قابو میں لایا جا سکتا ہے اور اس بدلاؤ کی مدد سے کینسر کے امکانات کو ایک تہائی تک کم کیا جا سکتا ہے۔
مثلاً علتِ مئے نوشی کے سبب جگر ، معدے ، آنتوں، سینے ، منہ اور گلے کے لیے سرطانی خطرات تین گنا بڑھ سکتے ہیں۔ وزن اور توند میں اضافے سے لبلبے سمیت بارہ طرح کے کینسرز کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
سرخ گوشت ، پروسیسڈ گوشت ( بازاری برگرز وغیرہ)، بہت زیادہ نمکین اشیا کا استعمال اور پھلوں اور سبزیوں کا کم استعمال سرطانی حملے کے لیے ماحول سازگار بناتا ہے۔باقاعدہ جسمانی ورزش سے نہ صرف عضلات صحت مند و توانا رہتے ہیں بلکہ چربی کم ہونے سے سینے اور معدے کے سلسلے میں سرطانی امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
تمباکو لگ بھگ اسی اقسام کے سرطان مدعو کر سکتا ہے۔کیونکہ زہریلے کیمیاوی مواد سے پروسیس ہونے والا تمباکو یا سگریٹ و سگار کا دھواں منہ کے راستے نرخرے سے ہوتا پھیپھڑوں میں ٹھہر کے خون کی نالیوں کے ذریعے جسم کے ہر حصے تک پہنچتا ہے تو اس تمباکو کے کندھوں پر وہ پالکی بھی ہوتی ہے جس میں بھانت بھانت کے کینسرز کچھا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔اس وقت کینسر سے جتنی بھی اموات ہو رہی ہیں ان میں سے بائیس فیصد کا سبب سگریٹ، پان، گٹکے وغیرہ میں استعمال ہونے والا پروسیسڈ تمباکو ہے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ جن انسانوں کی رنگت بھوری یا سیاہ ہوتی ہے انھیں کھال کا سرطان دیگر انسانوں کے مقابلے میں کم لاحق ہوتا ہے۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ہم سب کو سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بچنا ضروری ہے۔ جب کہ ایکس ریز اور گاما ریز سمیت متعدد تابکار شعائیں سرطان کو آسانی سے اپنی جانب متوجہ کر سکتی ہیں۔
جن صنعتوں میں کارکنوں کا کیمیاوی مواد سے مسلسل سابقہ رہتا ہے۔ اگر ان کارکنوں کے پاس حفاظتی آلات اور خصوصی لباس نہ ہوں تو پھر یہ کیمیاوی فضا طرح طرح کے کینسرز کی شکل میں اپنے رنگ دکھاتی ہے۔جیسے کیمیکل ڈائی انڈسٹری کے کارکنوں میں مثانے کے سرطان کی شکایات زیادہ پائی گئی ہیں۔ ازبسٹاس کی صنعت پھیپھڑے کے سرطان کی ضامن بن سکتی ہے۔
وائرس اور جرثومے بھی جسمانی خلیوں میں ایسی تبدیلیوں کا سبب بن سکتے ہیں جو بالاخر انسان کو سرطان کے جنگل میں لے جا کے چھوڑ سکتی ہیں۔
مثلاً بگڑا ہوا ہیپی ٹائیٹس بی اور سی ، معدے کی مسلسل سوزش خلیوں کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح کے سرطان کا تر نوالہ بن سکتے ہیں۔اور ان کے سبب کینسر سے ہونے والی اموات کا تناسب بیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔
یوں تو کینسرز کی اقسام سیکڑوں میں ہیں۔ان میں اسی کے لگ بھگ زیادہ لاحق ہوتے ہیں اور ان میں بھی پانچ چھ طرح کے سرطان زیادہ عام ہیں۔انھیں جانچنے کا کیا طریقہ ہے۔اندازے لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ بہت سی پیشگی علامات بہت سی بیماریوں میں مشترک ہیں۔
باقاعدہ سالانہ چیک اپ ہی کسی حد تک اس بات کا ضٰامن ہے کہ کم ازکم آج کی تاریخ تک مجھے سرطان نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو زیادہ امکان ہے کہ قابلِ علاج مرحلے میں ہے۔
اس موڑ سے ریاست کی ذمے داری شروع ہو جاتی ہے جو اگر ماحولیات کو درست نہیں کر پا رہی یا روزمرہ معیاری غذائی اشیا کی فراہمی قابلِ برداشت نرخوں پر دستیاب کروانے سے معذور ہے تو کم ازکم یہی انتظامِ عام کر دے کہ بے اعتدالیوں اور بدنظمیوں کے سبب پھیلنے والی دنیا کی سب سے بڑی بیماری یعنی کینسر کی موٹی موٹی عمومی اقسام کی بہتر تشخیص ہو سکے۔
امید ہے کہ طبی سائنس میں جس طرح سے تحقیق و دریافت کی رفتار بڑھ رہی ہے۔عمومی طور پر لاحق ہونے والے اکثر کینسرز کا بہتر اور سستا علاج ممکن ہو سکے گا۔بس گھبرانا نہیں ہے۔کینسر ایک مشکل بیماری ضرور ہے مگر ناقابلِ علاج ہرگز نہیں۔
بس خود نیم حکیم بننے یا کسی نمونے باز کی باتوں میں آنے سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے،کیونکہ کینسر ان مسائل میں سے ایک ہے جن سے آپ مذاق نہیں کر سکتے۔نہ ہی ان باتوں کو ہلکا لے سکتے ہیں۔
کینسر سے نمٹنے کے لیے صبر ، حاضر دماغی اور سنجیدگی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کسی دہشت گرد حملے سے نمٹنے کے لیے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)