مریض جسے خون کا کینسر ہے
ایک زمانے میں یہ اتنا طاقتور تھا کہ دنیا جہاں کی جونکیں آکر اس کا خون چوستی تھیں اور شکم سیر ہوکر چلی جاتی تھیں
ہمیں تو مایوسی ہونے لگی تھی کہ شاید اس مرتبہ اس ''مریض'' کی جان ہی چلی جائے گی اور ہم تقریباً اس حالت میں تھے ۔
مریض عشق پر رحمت خداکی
مرض بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی
اس کے گلے میں گھنگرو بولنے لگا تھا کہ اس کے دل ودماغ، جگر، پھیھپڑوں، گردوں وغیرہ سب نے کام چھوڑ دیا تھا اور ہر تدبیر الٹی پڑ رہی تھی۔
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
لیکن شاید کچھ لوگوں کی دعاؤں نے کام کیا کہ کچھ امیدیں پیداہوگئیں اور ''تریاق'' مل گیا۔
یا دل ٹھہرگیا ہے یاجاں سنبھل گئی ہے
یا مرحلے وفا کے آساں ہوگئے
خیر مرحلے وفا کے تو ہرگزآسان نہیں ہوئے کیوں کہ ''میر''بدستور سادہ تھا اور اسی عطار کے لونڈے سے دوا لے رہا تھا لیکن خدا ''مخیر'' لوگوںکا بھلا کرے جنھوں نے جنیوا میں جمع ہوکر کچھ خون ڈونیٹ کرنے کا اعلان کردیا۔
مریض کے لواحقین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ کم ازکم بھیک میں ملنے والے اس ادھار خون سے اس کی زندگی کچھ اور بڑھ جائے گی، بھیک ملنے کی اس کامیابی پر جشن منایاجارہاہے اور ہم اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ ؎
دوست غم خواری میں میری سعی فرماویں گے کیا
زخم کے بڑھتے تلک ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا
بلکہ ناخن بڑھے ہوئے بھی ہیں، موجود بھی ہیں اورکچھ اور زیادہ تیز بھی ہیں کیوں کہ ہمیں پکا پکا یقین ہے اسے ''خون کاکینسر'' لاحق ہے اور جس مریض کوخون کاکینسر ہوجائے،اس کا بچنا ناممکن ہے، اس کی سانس تب تک چلتی رہے گی جب تک اسے خون چڑھایا جاتا رہے گا۔
یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
خون کاکینسر دراصل جگر کاکینسر ہوتا ہے ،اس میں مریض کا جگر ماؤف ہوجاتا ہے اورخون بنانا چھوڑ دیتاہے چنانچہ اسے باہرکا خون چڑھا چڑھا کر زندہ رکھا جاتاہے اور سب جانتے ہیں کہ مریض چند روزکے ایکسٹینشن پر ہے ۔
ہوش وحواس و تاب وتواں داغ جاچکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
اسپین کے ڈکٹیٹرجرنل فرنکو کو خون کا کینسر لاحق ہو گیا تھا شاید ''اوپر'' کاخون پی پی کر اس کاجگر اتنا عادی ہوگیاتھا کہ اپنا خون بنانے کاکام ہی چھوڑ دیاتھا۔
چنانچہ فوجی سپاہیوں کی قطاریں مختص کی گئی تھیں کہ اسے خون چڑھایاجاتا رہے لیکن کب تک آخر کب تک حالت یہ ہوگئی تھی کہ چوبیس گھنٹے میں چھ چھ بوتل خون چڑھایاجانے لگا جو اس کے جسم کی بھٹی میں جلتا رہا اورآخر کار کہ بانگ برآئد فلاں نماند۔
اب جس مریض کاذکر ہم کررہے ہیں اس کے بھی سارے اعضا ء ماؤف ہوچکے ہیں۔پچیس کروڑ عوام کاخون بھی اس کے لیے ناکافی ہوگیاہے کہ اس کے جگر پر پھوڑے ہی پھوڑے نکل آئے ہیں، پہلے کے پھوڑے کیاکم تھے کہ اب ایک بہت بڑا پھوڑا بلکہ ''کاربنکل'' کہیے، بھی نکل آیا ہے اور جب سے نکلا ہے مریض کی چیخیں نکل رہی ہیں کہ کاربنکل کوئی عام پھوڑا نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر اور بہت سارے پھوڑوں کے ''منہ'' ہوتے ہیں۔
اس مریض کے بارے میں تھوڑی سی جانکاری بھی آپ کو دوں، ایک زمانے میں یہ اتنا طاقتور تھا کہ دنیا جہاں کی جونکیں آکر اس کا خون چوستی تھیں اور شکم سیر ہوکر چلی جاتی تھیں ،اس ملک کا گندم کی پیداوار میں ساتواں نمبر ہے ،کپاس کی پیداوار میں چوتھا نمبر ہے،دودھ کی پیداوار میں اس کا پانچواں نمبرہے اورپانچواں ہی نمبر گنے کی پیداوار میں بھی ہے۔
آموں کی پیداوار میں اس کا نمبرچوتھا اور کینوکی پیداوار میں چھٹا ہے ،چنے کی پیداوار میں اس کا نمبر دوسرا ہے،چاول میں چوتھا جب کہ کھجورکی پیداوار میں پانچواں۔ تمام دنیا میں اونٹوں کی پیداوار میں یہ پہلے نمبر پر ہے ،یہ ملک خوبانی اورگھی کی خرید وفروخت کے لیے دنیا کی دوسری بڑی مارکیٹ ہے، اس کے بیرونی محنت کش اسے پچیس کروڑ ڈالر زرمبادلہ دیتے ہیں۔
اس ملک میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے، پن بجلی پیداکرنے میں بھی یہ نمبر ایک ہے، یہاں کوئلے کے ذخائر اتنے ہیں کہ صرف کوئلے ہی سے ایک لمبی مدت تک توانائی حاصل کی جاسکتی ہے ،گیس تیل کے ذخائر بھی بے پناہ ہیں ۔اب یہ کوئی کس سے پوچھے کہ یہ سب کچھ کہاں جاتا ہے
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
زیر لب آہ بھی محال ہوئی
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں