وہ گھڑی اب بھی نہیں آئی
اس صورتحال کا ذمے دار کیا آئی ایم ایف ہے یا ہماری منہ زور بے خوف اشرافیہ؟ جواب مشکل تو نہیں
باؤ جی، ایک بات تو بتائیں، یہ جو شور مچا ہوا ہے کہ ملک کے مالی حالات خراب ہیں، کیا واقعی ایسا ہے؟ اس نے فروٹ شاپر بیگ میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔ معاشی حالات واقعی خراب ہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں حکومت نے ابھی تیل کی قیمتیں بڑھائی ہیں۔
آئی ایم ایف کا پریشر ہے کہ بجلی گیس کی بھی قیمتیں بڑھاؤ۔ ہم نے اپنے تئیں اسے سمجھایا۔ حکومت اور سیاسی لیڈروں کے انداز سے تو کوئی ایسی پریشانی دکھائی نہیں دیتی، بس ایک دکھاوا سا ہے ہمیں مطمئن کرنے کے لیے۔ اس نے بڑے اطمینان سے ہماری دلیل کو جیسے اسی تھیلے میں باندھ دیا۔
کیا مطلب؟ ہم نے چونک کر اس سے پوچھا۔ اس نے جواب دیا، دیکھیں جی میرا ایک چھوٹا سا کاروبار ہے۔ دکان کرائے پر ہے، چار لوگ ملازم ہیں، گھر داری بھی ہے، بچے پڑھ رہے ہیں۔
کاروبار میں مندی آتی ہے تو مجھ جیسا چھوٹا سا کاروباری بھی فوری طور پر اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے ہلکان ہوجاتا ہے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک آمدن اور اخراجات برابر نہیں ہو جاتے۔ مجھ ایسے عام آدمی کو اپنے اخراجات کم کرنے کی ضرورت پڑے تو ہم اوکھے سوکھے کر لیتے ہیں لیکن واقعی اگر مشکل حالات ہیں تو ہماری حکومتوں کے اللوں تللوں میں کمی کیوں نظر نہیں آتی۔
انھیں تو چاہیے تھا کہ یہ اپنے وزیر کم کرتے، خرچے کم کرتے، پروٹوکول کے ٹھاٹھ کم کرتے، فارن ٹور کم کرتے لیکن ان پر خود تو کوئی اثر نہیں، بس ہمیں ہی ڈراتے ہیں اور نچوڑتے ہیں۔ اس کی بات سن کر ہم خاموش ہو گئے۔
خاموشی کے سوا چارہ بھی کیا تھا! ایک طرف واویلا کہ ہمارا بجٹ خسارے میں ہے لیکن دوسری طرف وزیر اعظم کی کابینہ ہے کہ اس میں ہر ہفتے ایک اضافہ ہوجاتا ہے۔ مشکل حالات ہوں تو عام سبزی فروش کی طرح حکومت کو بھی اپنے اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ کیا کہ پٹرول پر آئی ایم ایف کے نام پر لیوی بڑھاتے ہوئے منہ لٹکا کر عوام سے ہمدردی جتلانے کی ایکٹنگ تو ہوتی ہے لیکن دوسری طرف لمبے چوڑے پروٹوکول اسی کروفر سے جاری ہیں، بیوروکریسی اور حکومتی چارج میں ہزاروں لاکھوں گاڑیوں کے شاہانہ اخراجات اسی طرح جاری ہیں۔
سیاسی سرپرستی کے چکر میں پچھلے تیس پینتیس سالوں میں وفاق، صوبوں اور مقامی حکومتوں کے سائز بہت بڑھ چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کا شور اپنی جگہ مگر مجال ہے کسی بھی حکومت نے اشک شوئی کے لیے بھی کفایت کی متلاشی کمیٹی بنانے کے سوا عملاً حکومتی اخراجات میں 20% تک رضاکارانہ کمی کا تردد کیا ہو۔
لے دے کر یہی طریقہ رائج ہے کہ اضافی بوجھ جوں کا توں عوام پر ڈال دو۔ بس ایک کام اس کے ساتھ لازم ہے کہ عوام کی چیخوں سے زیادہ اونچی آواز میں شور مچاؤ ؛ پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہے یہ سب، ورنہ ہم اور یہ بے درد کام... توبہ توبہ!
حکومت کے پاس کئی درجن پبلک سیکٹر کارپوریشنز ہیں۔ ماضی کی سب سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں نے ان اداروں میں اقربا پروری اور سیاسی بھرتیاں کرکے ان اداروںکو زیر بار کر رکھا ہے، مجموعی طور پر بے ضابطگیاں اور کرپشن گنگا الگ ہیں۔
سالانہ 700 ارب روپے خسارے کے باوجود مجال ہے کہ ان اداروں کی نجکاری کی نوبت آئے۔ نج کاری کی وزارت ہے، وزیر ہے ، پورا محکمہ ہے ، بجٹ ہے مگر نہیں ہے تو نج کاری نہیںہے۔ اب تو یاد بھی نہیں کہ کب کوئی بڑی کارپوریشن بیچی گئی۔
محکمے کا خرچ اور ان کارپوریشنزکی انتہائی ناقص کارکردگی کا سیکڑوں ارب روپے کا ٹیکا ہر سال عوام کو لگ جاتا ہے مگر مجال ہے کسی سیاسی و غیر سیاسی حکومت کو اپنے مفاد کی دھند سے آگے کچھ دکھائی دیا ہو۔ پی آئی اے، ریلوے، ڈسکوز...
بجلی اور گیس کا عملاً ڈیٹ ہر سال بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس وقت یہ سرکلر ڈیٹ چار ہزار ارب روپے تک پہنچنے کو ہے مگر حکومت اور اس کی وزارتوں کے پاس اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ ٹیرف مزید بڑھا دو، حالانکہ بجلی اور گیس چوری بڑھتی گئی جوں جوں ٹیرف بڑھتا گیا۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے حال ہی میں ڈسکوز کے بورڈز کی تشکیل نو کی ہے۔
تھوڑی سے پرکھ پرچول سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کمپنیوں کے بورڈز میں بیشتر ڈائریکٹرز اقربا پروری اور سیاسی قرابت داریوں کے'' میرٹ'' کا چلتا پھرتا اشتہار ہیں۔ یہ ہے وہ سنجیدگی جس سے سرکلر ڈیٹ کم ہو سکے گا !!!
ملک بار بار دیوالیے کو ہاتھ لگا کر آتا ہے، دیوالیے کے خطرے کے آگے کچھ بن نہیں پاتا تو ہر تین چار سال بعد آئی ایم ایف کی دہلیز پردستک ، دوست ممالک کو لہک لہک کر تلقین کہ بھائی بھائی کے کام آتا ہے، کبھی دوستیاں ہمالیہ کی چوٹیوں کے ہمسر بتائی جاتی ہیں اور کبھی سمندر کی گہرائی کی حریف۔ دوست ممالک سے ڈیپازٹس کے بل بوتے پر اور موخر ادائیگیوں پر تیل کے معاہدوں کے آسرے پر فارن ریزرو کو سہارا دینا ایک مستقل عمل بن گیاہے۔
الیکشن سال ہو تو پھر خالی خزانے میں سے اگلے سال کی یافت بھی لٹانے کے رجحان نے پچھلی چار حکومتوں کی تبدیلی پر ہر نئے آنے والوں کو سب سے پہلے عمرے کے بہانے سعودی عرب اور آئی ایم ایف کا راستہ ناپنے پر مجبور کیا۔
اکنامک گروتھ دکھانے کے چکر میں دکھاوے کی ترقی کا ہنر اب فن بن چکا ہے جہاں امپورٹس اور تصرف یعنی Consumption کی سرخی پاؤڈر تھوپ کر ترقی کے گال سرخ دکھا کر سیاسی داد وصولی ہی کمال ٹھہرا ہے۔
2001-2 میں برآمدات 9 ارب ڈالرز اور امپورٹس 10 ڈالرز، دس سال بعد 2011-12 میںبرآمدات 23ارب ڈالرز اور امپورٹس 45 ارب ڈالرز، جب کہ 2021-22 میں برآمدات 31.7 ارب ڈالرز اور امپورٹس 80 ارب ڈالرز ہو گئیں یعنی بیس سالوں میں تجارتی خسارہ 48 ارب ڈالرز سے بھی اوپر پہنچا دیا ۔
اس صورتحال کا ذمے دار کیا آئی ایم ایف ہے یا ہماری منہ زور بے خوف اشرافیہ؟ جواب مشکل تو نہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر کی ایک خاتون ایگزیکٹو نے اس پر کومنٹ کیا ؛ جب تک اشرافیہ کو بدلنے کی مجبوری درپیش نہیں ہو گی ، یہ نہیں بدلیں گے۔ شاید وہ گھڑی ابھی آئی ہے کہ نہیں؟