رئیس فاطمہ احوال و آثار
بیشترکہانیاں اگرچہ حقیقت پسندانہ اور روشن خیالی کی تلقین کرتی ہیں مگر کبھی کبھی وہ روایتی تعصبات کا شکاربھی ہوجاتی ہیں
پروفیسر رئیس فاطمہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ وہ صرف اردو ادب کی استاد ہی نہیں بلکہ بہت سی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔ معراج جامی نے ''رئیس فاطمہ، احوال و آثار '' کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ہے۔ یہ کتاب336 صفحات پر مشتمل ہے۔
جاذب نظر سرورق ، خوبصورت پرنٹنگ اور بہترین مواد کے ساتھ پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں اس طرح لیتی ہے کہ قاری تمام مضامین کے مطالعے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ پروفیسر رئیس فاطمہ کا اس کتاب میں مختصر تعارف خاصا معلوماتی ہے۔
رئیس فاطمہ 17 جولائی 1941کو گنگا جمنا کے سنگم الہٰ آباد میں پیدا ہوئیں۔ ان کے ددھیال کا تعلق پشاور اور ننھیال کا دہلی سے تھا۔ رئیس فاطمہ کے نانا سید محمد علی حسینی قادری عالم دین تھے۔ رئیس فاطمہ کے دادا کا نام قادر بخش تھا۔ ان کا گھرانہ پشاور کے متمول گھرانوں میں شامل تھا۔
رئیس فاطمہ کے والد کا نام محمد بخش تھا۔ ان کے والد نے باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ محمد بخش، قیام پاکستان سے پہلے کراچی سول ایسی ایشن کے محکمہ میں تعینات تھے۔ رئیس فاطمہ کا کہنا ہے کہ مجھے لکھنے کی طرف مائل کرنے میں میرے والد کا بڑا ہاتھ تھا۔
رئیس فاطمہ کے والد کے حلقہ احباب میں نامور ادیب، شاعر، موسیقار ، اداکار اور سیاست دان شامل تھے۔ رئیس فاطمہ کے دو بھائی اور ایک بہن تھیں۔ رئیس فاطمہ نے ابتدائی تعلیم سینٹ زیورخ اور سوشل کیمبرج اسکول سے حاصل کی۔
کراچی کالج فار ویمن سے 1965 میں بی اے کیا اور 1970 میں ایم اے اردو فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں کیا۔ انھوں نے 1972 میں گورنمنٹ جامعہ ملیہ کالج ملیر سے لیکچرار کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا، پھر مختلف کالجوں میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔
رئیس فاطمہ کی شادی جولائی 1979 میں برصغیر کے نامور عالم اور ادیب قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی (مرحوم) کے صاحبزادہ قاضی محمد اختر کے ساتھ ہوئی جو صاحب دیوان شاعر بھی تھے۔ ان کا ادبی مضامین کا مجموعہ بھی شایع ہوچکا ہے۔
رئیس فاطمہ کا ایک ہی بیٹا ہے جس کا نام راحیل اختر ہے۔ وہ سوفٹ ویئر انجنیئر ہیں اور وفاقی حکومت کے اہم سرکاری ادارہ میں افسر ہیں۔
رئیس فاطمہ ایک بہادر خاتون ہیں۔ وہ خود لکھتی ہیں ''میرے شوہر کی وفات کے بعد جو وقت میں نے بالکل تنہا گزارا وہ بہت تکلیف دہ تھا۔'' رئیس فاطمہ کا تین سال قبل ایک بہت بڑا ایکسیڈنٹ ہوا۔ اس ایکسیڈنٹ میں ان کی کولہے کی ہڈی میں خراش آگئی۔
وہ لکھتی ہیں ''خدا کا شکر ہے کہ چھ ماہ بیڈ پر رہنے کے بعد ایک دن میں اچانک بغیر واکر چل پڑی ۔ اتنے بڑے ایکسیڈنٹ کے وقت جو دیکھتا تھا وہ کہتا تھا کہ اب میں نہیں بچوں گی، البتہ جب میں اچانک بغیر واکر کے چل پڑی تو لوگوں نے بتایا کہ جو میری حالت تھی اس میں کسی کو بچنے کی امید نہیں تھی۔'' وہ لکھتی ہیں ''ایکسیڈنٹ کے بعد بھی میں تنہا تھی ، صرف نرسوں پر گزارا تھا۔ ایک نرس دن کی اور ایک نرس رات کی تھی۔
اس کتاب میں نامور فسانہ نگار الطاف فاطمہ کا رئیس فاطمہ کے نام خط بھی شایع کیا ہے۔ الطاف فاطمہ نے اس خط میں لکھا ہے '' میری عزیز بہن رئیس فاطمہ ، السلام علیکم، غالباً 20 اگست 2013 کو تم میرے یہاں آئی تھیں اور مجھے اپنی تصنیف دے کرگئی تھیں جو میں نے دو تین دن کے اندر بے صبری سے ندیدے انداز میں چاٹ کر ختم کردی تھی اور تم سمجھ سکتی ہوکہ چاٹ کا مزہ کب تک باقی رہ سکتا ہے۔
پھر میرے کام و دہن سے یہ مزہ اور لطف کبھی زائل نہ ہوسکا۔ تم یقین کرنا کہ ان پانچ ماہ یعنی آج 9 جنوری 2014 تک مجھے رہ رہ کر یہ احساس شرمسار کرتا رہا ہے۔ میں تمہارے اس خوبصورت دل نشیں اور دل گزار تحفے کے شکریہ کے لیے دو بول بھی نہ لکھ سکی۔''
اس کتاب میں کئی معروف ادیبوں کے مضامین شامل ہیں ، جو ان ادیبوں نے رئیس فاطمہ کے معروف ادبی مضامین پر لکھے۔ اردو کے ممتاز ادیب جمیل الدین عالی نے لکھا ہے کہ مصنفہ رئیس فاطمہ نے اس کتاب میں عینی کے ابتدائی افسانوں کے مجموعہ کا ایک تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ ہے۔
مصنفہ نے اس کتاب میں عینی کے ابتدائی افسانوی مجموعہ ''ستاروں سے آگے'' سے لے کر ''شیشے کا گھر''، پت جھڑ کی آواز اور روشنی کی رفتار تک پچاس سے زائد افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔ رئیس فاطمہ بھی ایک افسانہ نگار اور کالم نگار ہیں لہٰذا ان کے کالموں میں افسانوں کی جھلک انسانی مسائل کا ادراک کا عنصر لامحالہ نظر آتا ہے۔
اردو ادب کے ایک اور معروف افسانہ نگار انتظار حسین نے نسوانی شعر کی ایک مثال کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ رئیس فاطمہ کو ہم صرف رئیس فاطمہ سمجھ رہے ہیں مگر ان کے قلم نے جو الگ الگ گل کھلائی ہیں ان کی تفصیل پڑھ کر تو ہکا بکا رہ گئے۔
ایک اور معروف ادیب ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے قرۃ العین حیدر کے افسانے ، ایک تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ کے عنوان سے لکھا ہے کہ میں اپنی بات یہاں سے شروع کروں گا کہ انجمن سے شایع شدہ کتاب قرۃ العین حیدر کے افسانے ایک تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ میں اس کی مصنفہ پروفیسر رئیس فاطمہ نے قرۃ العین حیدر کے خاص خاص افسانوں کا عام فہم اسلوب میں تجزیہ تمام ترجیحات کے ساتھ پیش کر کے فرض کفایہ ادا کیا ہے۔
ایک اور معروف افسانہ نگار ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ یہ محترمہ رئیس فاطمہ نے اس کتاب کو صرف افسانوں کے تجزیہ تک محدود نہیں رکھا بلکہ چوتھے باب میں قرۃ العین حیدر کی تخلیقات کا مجموعی جائزہ اور تجزیہ بھی پیش کیا ہے اور ناولوں پر بھی بحث کی گئی ہے۔ اردو کے معروف استاد پروفیسر علی حیدر ملک لکھتے ہیں کہ رئیس فاطمہ نے قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری پر کتاب لکھ کر ایک قابل قدرکام کیا ہے ، افسانوں کے خلاصے بہت اچھے ہیں۔
بعض تنقیدی نکات بھی قابل داد ہیں۔ ترقی پسند ادیب و معروف کالم نگار صحافی حمید اختر نے رئیس فاطمہ کے افسانوں کے مجموعہ '' زرد چنبیلی کی خوشبو'' پر ایک مضمون تحریر کیا۔ حمید اختر اس مضمون میں لکھتے ہیں کہ رئیس فاطمہ اپنی سوچ اور فکر کے لحاظ سے ترقی پسندی اور روشن خیالی کی داعی ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بعض روایتی تعصبات سے چھٹکارا نہیں پاسکیں۔
ان کی بیشتر کہانیاں اگرچہ حقیقت پسندانہ اور روشن خیالی کی تلقین کرتی ہیں مگر کبھی کبھی وہ روایتی تعصبات کا شکار بھی ہوجاتی ہیں۔ اس مجموعہ کے افسانہ میں ایک ماڈل خاتون کی داستان ہے۔ ماڈلنگ یا اداکاری کے پیشہ سے منسلک خواتین کے بارے میں ان کا رویہ غیر صحت مندانہ بلکہ رجعت پسندانہ ہوگیا ہے۔
ترقی پسند ادیب انور احسن صدیقی '' زرد چنبیلی کی خوشبو'' پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسانی زندگی کا لامحدود منظر نامہ ان گنت کہانیوں سے بھرا پڑا ہے ، اس کتاب میں کئی اور معروف ادیبوں کے علاوہ کالم نگاروں کے تبصرے بھی شامل ہیں۔ پھر رئیس فاطمہ نے اپنے مرحوم شوہر اختر جونا گڑھی کے بارے میں ایک خوبصورت تاثراتی کالم تحریر کیا تھا ، وہ بھی کتاب میں شامل اشاعت ہے۔
رئیس فاطمہ کے کئی کالم بھی معراج جامی نے کتاب میں شامل کیے ہیں۔ کتاب کے سرورق پر پروفیسر صاحبہ کی خوب صورت تصویر نظر آتی ہے۔
اس تصویر سے پروفیسر صاحبہ کی ہمت اور حالات سے مقابلہ زندگی کی آخری رمق تک جدوجہد کی عکاسی ہوتی ہے جو ہم جیسے لوگوں کے لیے تقویت کا باعث ہے ، یہ کتاب اردو ادب کے قارئین کے لیے ایک اچھا تحفہ ہے۔