براڈ کاسٹر و شاعرہ صفیہ حیدر
پھر مہدی حسن، نور جہاں، لتا منگیشکر، فریدہ خانم اور اقبال بانو کی غزلیں بھی وہ بہت شوق سے سنا کرتی تھیں
جب ہماری ریڈیو اسٹیشن کراچی میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ اس وقت بحیثیت پروڈیوسر ریڈیو سے مشہور ادبی شخصیات کے انٹرویوز کیا کرتی تھیں۔ صفیہ حیدر خود ایک بڑے ادبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، عظیم شاعر بہزاد لکھنوی ان کے خالو ہوتے تھے اور بہزاد لکھنوی کی غزلیں بھی ہم ان دنوں ریڈیو سے بڑے شوق سے مشہور گلوکاروں اور گلوکاراؤں کی آوازوں میں سنا کرتے تھے۔
ان دنوں صفیہ حیدر فلمی گیتوں کے پروگرام بھی کیا کرتی تھیں ، وہ پروگرام کی اناؤنسر بھی ہوا کرتی تھیں، پھر میں نے کراچی کی چند فلموں کے لیے کہانی، مکالمے اور گیت لکھے تھے، ان دنوں ریڈیو سے ایک گیت کہانی کے پروگرام بھی بڑے ڈرامائی انداز اور ساؤنڈ افیکٹس کے ساتھ پیش کیے جاتے تھے اور ریڈیو کا یہ سلسلہ ان دنوں بڑا پسند کیا جاتا تھا۔
گزشتہ دنوں مجھے جب صفیہ حیدر صاحبہ کے انتقال کی خبر ملی تو دل دکھ کے سمندر میں ڈوب گیا تھا۔ ان کا چہرہ ، ان کی باتیں اور ریڈیو اسٹیشن پر ان سے اکثر و بیشتر ملاقاتیں یاد آگئی تھیں۔
ایک طویل عرصے کے بعد میری فیس بک دوست بنی تھیں اور جب میں نے ان کے پروفائل کی تصویر دیکھی تو مجھے یقین نہیں آ رہا تھا یہ وہی صفیہ حیدر صاحبہ ہیں جو کبھی کالے کالے لمبے بالوں والی ایک سانولی سلونی خاتون ہوا کرتی تھیں دور سے دیکھو تو وہ کوئی بنگالی اداکارہ کا روپ لگتی تھیں مگر اب اپنی تصویر میں وہ ایک بہت ہی بجھی بجھی سی خاتون لگ رہی تھیں۔
گردش زمانہ اور حالات کی آندھیوں نے ان کی شخصیت کا وہ سارا پرانا روپ و انداز چھین لیا تھا میں نے بھی بہت سال پہلے ان کا ایک انٹرویو کیا تھا ، ان کی کچھ باتیں اور یادیں شیئر کر رہا ہوں۔
صفیہ حیدر صاحبہ نے ابتدا بچوں کے رسالوں میں لکھنے سے کی تھی ، وہ بچوں کے مشہور رسائل، کھلونا، بچوں کی دنیا اور پھول میں چھوٹی چھوٹی خوب صورت نظمیں لکھا کرتی تھیں، نوعمری کے زمانے ہی سے وہ شعر کہنے لگی تھیں، گھر کا ماحول بھی ادبی تھا اور شعر و ادب ان کی تربیت میں شامل تھا۔
انھوں نے ایک ملاقات میں ہمیں وہ شعر بھی سنایا تھا جو انھوں نے شاعری کی ابتدا کرتے ہوئے کہا تھا اور ان کا وہ پہلا شعر تھا:
خوشی میں ہم کبھی رہتے ہیں غم میں رہتے ہیں
کسی کو کیا خبر ہم کون سے عالم میں رہتے ہیں
جس زمانے میں انھوں نے ریڈیو کی ملازمت اختیار کی وہ پروڈیوسر قمر جمیل، ضمیر علی، رضی اختر شوق اور سلیم احمد کا دور تھا اور صفیہ حیدر کو ان دنوں ریڈیو کی خبریں بڑی اچھی لگتی تھیں اس وقت شکیل احمد، انور بہزاد اور وراثت مرزا خبریں پڑھا کرتے تھے اور کیا دھوم تھی ان کی خبروں کی۔
صفیہ حیدر بھی ریڈیو سے خبریں پڑھنا چاہتی تھیں، جب یہ ریڈیو پر آڈیشن دینے گئیں تو ان کی خواہش تھی کہ یہ نیوز کاسٹر بن جائیں مگر ان کو مشورہ دیا گیا کہ وہ نیوز کاسٹر کی بجائے اناؤنسر زیادہ اچھی رہیں گی اور پھر انھیں بحیثیت اناؤنسر ریڈیو پر ملازمت مل گئی تھی۔
ابتدا میں یہ ہندی سروس کے پروگرام کیا کرتی تھیں، پھر کافی وقت ایکسٹرنل سروس میں رہ کر دیگر پروگراموں کی طرف آگئی تھیں اور ڈرامہ ادب اور شاعری سے متعلق لوگوں کے انٹرویوز بھی کرنے لگی تھیں۔ یہ اچھا لکھتی بھی تھیں اور اچھا بولتی بھی تھیں۔
ان کے اس وقت کے ساتھی اناؤنسروں میں محمد یوسف، قربان جیلانی اور حسن شہید مرزا کا بھی بڑا چرچا رہتا تھا ، صفیہ حیدر کا تو ریڈیو گھر آنگن تھا ، وہ بہت خوبصورت نظمیں کہتی تھیں اورکبھی کبھی اپنی تازہ نظمیں ہمیں بھی سنایا کرتی تھیں۔ ان کی نظموں کا انداز بڑا منفرد ہوتا تھا، اور پورا فلسفہ بھرا ہوتا تھا۔ دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ ہوتا تھا، انھیں موسیقی سے بھی بڑی دلچسپی تھی اور وہ ہندوستان کی نامور غزل سنگر بیگم اختر کو بھی سنا کرتی تھیں۔
پھر مہدی حسن، نور جہاں، لتا منگیشکر، فریدہ خانم اور اقبال بانو کی غزلیں بھی وہ بہت شوق سے سنا کرتی تھیں۔ ان کے پاس غزلوں کا ایک خوبصورت کلیکشن بھی تھا۔ جب امیر احمد خان جو مشہور کلاسیکل سنگر، موسیقار اور سارنگی نواز استاد امراؤ بندوخان کے بھانجے بھی ریڈیو پر پروڈیوسر ہوگئے تھے اور یہ بات بھی میں بتاتا چلوں کہ امیر احمد خان اسلامیہ کالج میں میرا کلاس فیلو اور بہترین دوست تھا۔
امیر احمد خان جب ریڈیو پروڈیوسر ہوا تو پھر میرا ریڈیو میں آنا جانا اور زیادہ ہو گیا تھا۔ اور پھر امیر احمد خان خود ایک بہترین غزل سنگر تھا۔ بڑی بڑی موسیقی کی محفلوں میں اس کی شمولیت رہتی تھی۔
اس کی نیم کلاسیکل گائیکی اور غزل کی گائیکی کی بھی کراچی میں بڑی دھوم تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ صفیہ حیدر کے گھر پر امیر احمد خان اپنا ہارمونیم لے جایا کرتا تھا اور میں بھی اس کے ساتھ ہوا کرتا تھا اور پھر کافی دیر تک صفیہ حیدر صاحبہ اور ہم غزلوں کی دلکش دھنوں اور موسیقی کی دنیا میں چلے جاتے تھے۔
صفیہ حیدر کی اپنی آواز بھی اچھی تھی وہ خود بھی کبھی کبھی گا لیتی تھیں اور امیر احمد خان ہارمونیم پلے کرتے تھے، ایک دن امیر احمد خان نے مشورہ دیا کہ آپ اپنی شاعری کو کتاب کی صورت میں مرتب کریں۔ آپ کی نظمیں بہت دل کو چھوتی ہیں اور آپ کی کتاب آ کر ادبی حلقوں میں بڑی پسند کی جائے گی۔
اسی دوران میں لاہور چلا گیا تھا اور میں وہاں دس بارہ سال تک رہا۔ کافی فلموں کے لیے لکھا۔ پھر جب میں واپس کراچی لوٹا اور صفیہ حیدر صاحبہ سے ملاقات ہوئی تو پتا چلا ان کی کتاب '' بھید بھرا سناٹا '' کے نام سے منظر عام پر آچکی ہے اور بڑی مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ پھر میں کراچی میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد امریکا شفٹ ہو گیا تھا اور دس بارہ سال تک تو میں خود امریکا میں اپنی فیملی کو سیٹ کرنے میں لگا رہا اور بڑے کٹھن حالات سے گزارا کرتا رہا اور اپنے آپ کو بھول گیا تھا کہ میں یونس ہمدم ہوں یہاں میرا اصلی نام منظر عام پر آیا تھا۔ سید یونس علی اور مجھے ملازمت کے دوران سب علی کہہ کر پکارتے تھے۔
جب حالات اچھے ہوئے تو کراچی پاکستان جانا شروع کیا ، میری بہت سے دیرینہ دوستوں سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ میرے دوستوں میں معین اختر، امیر احمد خان اور ٹیلی وژن کے پروڈیوسر دوستوں آفتاب عظیم اور شاعر سلیم جعفری اب دنیا میں نہ رہے تھے۔
پھر امریکا ہی میں مجھے صفیہ حیدر صاحبہ کی وفات کی خبر ملی تھی، وہ بھی ایک نایاب شخصیت تھیں۔ ان کی ذات شعر و ادب کا گہوارہ تھی، سنا ہے آخری دنوں میں وہ دنیا کی رونقوں سے بالکل کنارہ کش ہوگئی تھیں، لوگوں سے ملنا ملانا بھی چھوڑ دیا تھا اور پھر بیماری کی حالت ہی میں وہ ایک دن رونق دنیا کو چھوڑ کر اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اللہ کریم ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔( آمین)