ساری عظمتیں اور شان و شوکت فریب ہیں
برس ہا برس سے میں لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا ہوں
اسلم اشعرکا شعر ہے ؎
میں جو صحرا میں صدا دیتا ہوں
اپنے ہونے کا پتہ دیتا ہوں
ساری عظمتیں، عزتیں، شان و شوکت ، امنگیں ، کامیابیاں ، عیش و عشرت سب فریب ہیں ، سب مایا ہیں۔
قصہ مشہور ہے کہ جب عظیم رومی شہنشاہ مارکیوز اور لیوس کا انتقال ہوا تو اولمپائی دیوتاؤں نے اس کے اعزاز میں پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا۔
اس دعوت میں اس کے دائیں طرف شہنشاہ آگٹس ، طبرس اور ویسپا سین بیٹھے تھے جب کہ اس کے بائیں جانب دوسرے عظیم رومی شہنشاہ برا جمان تھے ان میں نروا ، ٹراجن ، ہڈرین اور اس کا سوتیلا باپ انٹونی نس پیوس شامل تھے۔
نیرو اورکیلی گلا کو البتہ دروازے پر ہی روک لیا گیا تھا ، اس ضیافت میں دیوتا جیوپیٹر نے ایک مقابلے کا اعلان کیا جس کے ذریعے یہ طے کرنا مقصود تھا کہ ان میں عظیم ترین رومی شہنشاہ کون ہے ، یہ سب شہنشاہ امیدوار تھے وہ باری باری اٹھے اور انھوں نے اپنے بارے میں مختصر تقریریں کیں۔
اکثر نے اپنی اپنی فتوحات کی شیخیاں بھگاریں پھر مارکیوز اور لیوس کی باری آئی تو وہ کھڑا ہوا اس نے بس یہ کہا کہ '' میں ایک معمولی سا فلسفی ہوں میرے دل میں کوئی تمنا ہے تو بس یہ کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے'' کہانی یوں آگے بڑھتی ہے کہ مارکیوز اور لیوس کے یہ الفاظ سننے کے بعد اس کو عظیم ترین رومی مان لیا گیا ، مگر اس کو عظیم ترین انسان نہیں کہا گیا کیونکہ اس تمنا کی تکمیل کی راہ میں فلسفی مارکیوز اور لیوس کو شہنشاہ مارکیوز اور لیوس نے روک لیا تھا۔
انسان اطمینان ، خوشی ، سکون اور سکنیت کے لمحوں کے حصول کی خاطر شروع ہی سے بھٹک رہا ہے اور مسلسل نامرادی و ناکامی سے دوچار ہے کیونکہ وہ زندگی کے اصل فلسفے کو کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا ہے ، زندگی کی سب سے اہم ترین بنیادی بات جسے ہر وقت یاد رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔
اس بات کو ہم سب سے پہلے غیر ضروری بات سمجھتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ہم سب بھکاری اورگداگر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ ہمارے پاس اپنا ذاتی کچھ بھی نہیں ہے حتیٰ کہ سانس بھی نہیں۔ سب ہی کچھ خدا کا عطا کردہ ہے اور سب ہی کچھ عارضی ہے۔
ہم ہر وقت اس سے مانگتے رہتے ہیں اور وہ ہر وقت ہمیں عطا کرتا رہتا ہے اور واپس لیتا رہتا ہے حتیٰ کہ زندگی تک بھی۔ جب ہم سب بھکاری ہیں تو ایک بھکاری دوسرے بھکاری کو دے بھی کیا سکتا ہے ، اس کی کسی دوسرے کوکچھ دینے کی اوقات ہی کیا ہے۔ یہ ہی وہ سب سے اہم ترین بات ہے جو ہم سب بھول جاتے ہیں۔ اس معاملے میںہم سب یکساں ہیں۔
1775کے بہار کے دنوں میں دوستوں کو جب معلوم ہوا کہ عظیم فلسفی ڈیوڈ ہیوم ان سے جدا ہونے والا ہے تو وہ اس کو آخری احترامات پیش کرنے کی خا طر جمع ہوئے۔
ان میں سے اکثر دل ہی دل میں یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ ہیوم اپنے آخری سفر کی تیاری کس انداز میں کرتا ہے۔'' مجھے فکریہ ہے کہ ''اس نے دوستوں کو بتاتا '' میں قیرون ملاح سے کیونکر ملوں گا جو مردہ روحوں کو دوزخ کے دریا کے پار پہنچاتا ہے میں اس جہان میں تھوڑے سے زیادہ قیام کے لیے کیا بہانہ کروں گا ؟ میں اس سے التجا کروں گا کہ '' اے نیک دل قیرون ! ذرا صبر کرو تھوڑی دیر مجھے یہاں رہنے دو۔
برس ہا برس سے میں لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا ہوں ، زندگی کے چند سال اور مجھے مل جائیں تو مجھے ان توہمات کا خاتمہ دیکھنے کی تسلی ہوجائے گی جن کے خلاف میں لڑتا رہا ہوں لیکن یقینی بات ہے کہ قیرون میری التجا سن کر بر افروختہ ہوجائے گا اور غصے سے چلائے گا '' او خوابوں میں گم رہنے والے لاعلاج شخص تمہاری خواہش کبھی پوری نہ ہوگی تم نے مجھے بیوقوف سمجھ رکھا ہے کہ اس بہانے میں تمہیں ایک زندگی د ے دوں گا ، او کاہل آوارہ اور احمق رجائیت پسند میری کشتی میں بیٹھو '' یاد رکھو جب جانے کا وقت آن پہنچا تو کشتی کبھی بھی خالی واپس نہیں جاتی ہے اور جب انسان کشتی میں بیٹھا آخری سفر کر رہا ہوتا ہے تو اسے اپنی گزاری ہوئی زندگی کی ساری باتیں ، ساری غلطیاں ، ساری زیادتیاں ، سارے ظلم و ستم ، ساری انصافیاں ایک ایک کر کے یاد آرہے ہوتے ہیں۔
ساری عیش و عشرت ، ساری لذتیں ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے سامنے سے گذر رہی ہوتی ہیں جن کی خاطر وہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو ذلیل و خوار کرتا رہا انھیں اذیتیں اور تکلیفیں پہنچاتا رہا۔ انھیں بے چین اور تنگ کرتا رہا لیکن بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور وہ بھوک اس کو نگل چکی ہوتی ہے وہ جھوٹی شان و شوکت ، وہ ہیرے جواہرات کے ڈھیروں ، زمینیں اور جاگیریں اور ملیں جنھیں وہ چھوڑ آیا ہے۔
وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اپنے اور غیرگدھوں کی طرح ان چیزوں کو نوچ رہے ہیں حقیر اشیاؤں کو جوازل سے حقیر ہیں اور ابد تک حقیر ہی رہیں گی ، وہ بھی وہ ہی غلطیاں شروع کرچکے ہیں جو وہ کر کے آ رہا ہے۔ زندگی کا اصل فلسفہ تب ہی شروع ہوتا ہے جب ذہن انسانی مڑکر اپنی طرف دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو پہچانتا ہے جب ہی سقراط کہتا تھا اپنے آپ کو پہچانو۔
یونان کے عظیم فلسفی سولن کو ایک بار لیڈیا کے بادشاہ Croesus نے اپنے ہاں مدعوکیا۔ سولن نے دعوت قبول کر لی ، ملاقات کے دن بادشاہ اپنے بیش قیمت لباس اور ہیرے جواہرات زیب تن کر کے تخت پر جلوہ افروز ہوا اور پورے شاہانہ طمطراق سے سولن کا انتظار کرنے لگا سولن آیا اور اطمینان و بے نیازی سے بادشاہ کے سامنے بیٹھ گیا۔
اس نے بادشاہ کے جاہ و حشم اور سطوت پرکوئی توجہ نہ دی جس پر بادشاہ بے چین ہوگیا۔ اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ سولن کو ہمارے خزانے دکھائے جائیں۔ وزیر نے سولن کے سامنے سونے ، چاندی ، لعل و زمرد کا ڈھیر لگوا دیا یہ چمک دمک بھی سولن کو متاثر نہ کرسکی ، وہ بے پرواہ بیٹھا رہا تو بادشاہ سے نہ رہا گیا اور اس نے بلند آواز سے سولن کو مخاطب کیا۔
'' سولن ! تم یونان کے نامور فلسفی ہو بتاؤ تمہارے نزدیک دنیا کا سب سے خوش نصیب آدمی کون ہے؟ '' سولن نے باوقار لہجے میں کہا ''بادشاہ میرے ملک میں یلس نامی ایک آدمی بہت خوش نصیب تھا وہ بہادر، نیک ، صاحب جائیداد اور اچھے بچوں کا باپ تھا ، اس نے اپنے وطن کی خاطر لڑتے لڑتے جان دے دی '' دوسرا سب سے زیادہ خوش نصیب کون ہے ؟ بادشاہ نے دریافت کیا سولن نے کہا '' دو بھائی سب سے زیادہ خوش نصیب ہیں انھوں نے اپنی ماں کی خدمت کرتے کرتے جان دی'' بادشاہ آگ بگولا ہوگیا، '' کیا تم ہمیں خوش نصیب نہیں سمجھتے ؟ '' ''خوش نصیب وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ خوش نصیبی زندگی کے آخری لمحے تک رہے'' سولن نے وضاحت کی ، جس کی زندگی ابھی ختم نہ ہوئی ہو اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، یہ ہی بات ہم سب پر بھی لاگوہوتی ہے۔