دہشت گردوں کا بھارت سے گٹھ جوڑ
ٹی ٹی پی کو دہشت گردی کی تربیت دینے اور اس کی مالی مدد کرنے میں وہ سالہا سال سے ملوث ہے
ہماری فوج کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ ''ضرب عضب'' آپریشن کے ذریعے ملک سے دہشت گردی کا مکمل صفایا کر دیا تھا ، حالانکہ اس وقت تک طالبان افغان اقتدار کو حاصل کرنے کے لیے افغان اور نیٹو افواج کا مقابلہ کر رہے تھے۔
اس وقت امریکا کی آڑ میں بھارت چھایا ہوا تھا ، افغان حکومت اس کی مٹھی میں تھی اور پاکستانی طالبان افغانستان میں ڈیرہ ڈال چکے تھے۔ ان کی جانب سے کوئی دہشت گردانہ واردات کسی بھی علاقے میں نہیں ہو رہی تھی، داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں بھی افغانستان تک ہی محدود تھیں وہ وہاں ضرور تخریبی کارروائیاں کر رہی تھیں مگر پاکستان ان سے محفوظ تھا۔
اب جب کہ طالبان کابل پر حکومت کر رہے ہیں ان کے اقتدار میں آنے کی امریکا نے سخت مذمت کی تھی اور وہ اس بات پر اب بھی ناراض ہے۔
افسوس اس بات پر ہے کہ جن کی پاکستانی حکومت نے حمایت کی تھی اب وہی ٹی ٹی پی کی فیور کرتے نظر آ رہے ہیں ، وہ اگر چاہتے تو ٹی ٹی پی کو راہ راست پر لے آتے اور پاکستان میں پرامن رہنے پر مائل کردیتے مگر ایسا کرنے کے بجائے ان کا دفاع کر رہے ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اشرف غنی حکومت کے بھارت کی تابع داری کرنے کی وجہ سے جلد از جلد ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ بھارت کو اس وقت وہاں مکمل چھوٹ حاصل تھی وہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے پاکستان پر مسلسل تخریبی کارروائیاں کرا رہا تھا جس سے بھاری جانی اور مالی نقصان ہو رہا تھا۔
طالبان حکومت کے کابل میں قائم ہونے کے بعد پاکستان کو پوری امید تھی کہ اب ٹی ٹی پی ہی نہیں دوسری دہشت گرد تنظیمیں بھی پاکستان کو نشانہ نہیں بنا سکیں گی ،کیونکہ افغان طالبان انھیں ایسی دہشت گرد کارروائیوں سے مکمل روک دیں گے۔
پشاور کا حالیہ ہولناک دہشت گردی کا واقعہ یہ ثابت کر گیا ہے کہ پاکستان نے طالبان کے ساتھ جو بھی مہربانیاں کی تھیں وہ سب خاک میں مل چکی ہیں اور پاکستان پھر دوبارہ دہشت گردی کی گرداب میں پھنس چکا ہے۔
یورپ کے ایک مشہور میگزین ماڈرن ڈپلومیسی (Modern Diplomacy) نے اپنی تازہ اشاعت میں ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ پشاورکا حملہ بھارت نے کروایا ہے۔ اس نے ٹی ٹی پی کی اس سلسلے میں مکمل مدد کی ہے۔
ٹی ٹی پی کو دہشت گردی کی تربیت دینے اور اس کی مالی مدد کرنے میں وہ سالہا سال سے ملوث ہے۔ میگزین نے مزید لکھا ہے کہ بھارت کے اندر کئی مقامات پر ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں موجود ہیں۔ اس نے یہاں تک لکھا ہے کہ زخمی اور بیمار ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو بھارت میں طبی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
اس بات کا ثبوت خود ٹی ٹی پی کی جانب سے یہ اعترافی ٹویٹ ہے کہ انھوں نے پشاور میں دھماکہ کر کے اپنے ایک بڑے کمانڈر خالد خراسانی کی موت کا بدلہ لے لیا ہے حالاں کہ بعد میں انھوں نے یہ بیان واپس لے لیا ہے۔
تاہم ان کی افغان سرحد پار سے پاکستانی پوسٹوں پر مسلسل دہشت گردی سے صاف ظاہر ہے کہ وہ دوبارہ بھرپور طریقے سے پاکستان پر حملہ آور ہوگئے ہیں۔ '' ماڈرن ڈپلومیسی'' نے تو اب ٹی ٹی پی کے بھارت سے تعلقات کو ظاہر کیا ہے یہ بات تو کئی برسوں پر محیط ہے کہ وہ برابر بھارت سے مدد لے رہے ہیں اور بھارت ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
تاہم اس سلسلے میں قابل افسوس بات یہ ہے کہ افغان طالبان کی ہمدردیاں بھی بھارت کو حاصل ہوگئی ہیں۔ حالانکہ افغان طالبان پہلے بھارت سے نفرت کی حد تک ان کے خلاف تھے۔ وہ ہمیشہ اس کی مذمت کرتے رہتے تھے کیونکہ بھارت اشرف غنی کا ہم نوا تھا اور وہ امریکا کی طرح طالبان سے نفرت کرتا تھا۔
بھارتی حکومت کی افغان طالبان سے ناراضگی بھارتی مسافر طیارے کے اظہر مسعود کے ذریعے اغوا کرکے کابل لے جانے کے بعد سے شروع ہوئی تھی۔
جب تک اشرف غنی حکومت قائم رہی بھارتی حکومت مسلسل افغان طالبان کے خلاف رہی مگر اب بھارت کے ٹی ٹی پی کی سپورٹ کرنے سے لگتا ہے کہ اس نے افغان طالبان کے لیے نرم گوشہ پیدا کرلیا ہے ، ساتھ ہی افغان طالبان نے بھی بھارت دشمنی ختم کرکے اس کے ایما پر ہونے والی ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف کارروائیوں پر آنکھیں بند کرلی ہیں۔
بہ ظاہر تو افغان حکومت پاکستان کی وفادار لگتی ہے۔ افغان حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت پوری دنیا میں صرف پاکستان اس کے حق میں مہم چلا رہا ہے جب کہ خود ان کا اپنا معاملہ اب بھی سمجھ میں نہ آنے والا ہے۔ انھوں نے خود کو افغانستان کا حکمران تو بنا لیا ہے مگر عوام سے دوری اختیار کر رکھی ہے۔ ان کا طرز حکمرانی اب بھی ماضی جیسا ہے۔
وہ اب بھی خواتین کے حقوق کو پامال کر رہے ہیں انھیں تعلیم تک حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک طرف وہ اپنے ہی عوام کی حمایت سے عاری ہیں تو دوسری طرف عالمی برادری کو بھی اپنی جانب مائل نہیں کر سکے ہیں۔
ان کی حکومت کو کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے یہ ایک خطرناک صورت حال ہے۔ لے دے کے صرف پاکستان ہی ان کی خیر خواہی میں لگا ہوا ہے مگر اسے بھی اب وہ ناراض کرنے کے در پے ہیں۔
سابقہ پاکستانی حکومت نے ٹی ٹی پی کو امن کی دعوت دے کر ان کو قومی دھارے میں ضم کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان سے مذاکرات میں سنجیدگی نہیں دکھائی گئی مذاکرات جتنے لمبے ہوتے گئے ٹی ٹی پی والے اپنے پرانے ٹھکانوں کو پھر سے آباد اور اسلحے سے لیس کرتے گئے۔
ان کے مطالبات یقینا ناقابل قبول تھے کیوں کہ وہ فاٹا کی پرانی پوزیشن کو پھر سے بحال کرانا چاہتے تھے اسے اپنی مملکت کے طور پر حاصل کرکے وہاں اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنا چاہتے تھے۔
ان کا شریعت کے نفاذ کا مطالبہ غلط نہیں تھا مگر فاٹا کو ہمیشہ کے لیے ان کے سپرد کرنے کا معاملہ یقینا خطرناک تھا۔ کاش کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد ہوجاتا تو آج ٹی ٹی پی سمیت تمام دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ جاتی۔ بہرحال موجودہ حکومت اور فوج کا دہشت گردی کے خلاف نو ٹالریشن کی حکمت عملی قابل قدر ہے۔
تاہم جہاں تک ٹی ٹی پی کا تعلق ہے اس کی دہشت گردی کو روکنا افغان طالبان کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔
طالبان کے ساتھ پاکستان جتنا تعاون کر رہا ہے وہ اتنے ہی سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے ان کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں آج کا معاشی بحران بھی ان کی ہی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
پاکستان سے ڈالر کو بے دریغ افغانستان لے جایا گیا ہے اور اسی طرح غذا کی اشیا بھی وہاں اب تک بڑی مقدار میں بھیجی جا رہی ہیں۔ پاکستان کو اب انھیں متنبہ کرنا چاہیے کہ وہ ٹی ٹی پی کے مسئلے کو مستقل حل کرائیں یا پھر پاکستان کی جانب دیکھنا چھوڑ دیں۔