لاہور ہائی کورٹ کا الیکشن کمیشن کو پنجاب میں 90 دن میں انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم
جسٹس جواد حسن نے 16 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا، الیکشن کمیشن کو 90 روز میں انتخابات یقینی بنانے کا حکم
لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو 90 روز کی آئینی مدت میں پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم جاری کردیا۔
جسٹس جواد حسن نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ نہ دینے کے خلاف پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری اسد عمر سمیت دیگر کی درخواست پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
تحریری فیصلہ
جسٹس جواد حسن نے 16 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ الیکشن کمیشن گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد فوری تاریخ کا اعلان کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر الیکشن ہوں۔ گورنر کے دستخط کے بغیر اسمبلی خود تحلیل ہو تو اس صورت میں آئین نے کسی اتھارٹی کو تاریخ دینے کا پابند نہیں کیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بطور خود مختار آئینی ادارہ ہونے کی حیثیت سے الیکشن کمیشن قانون کے مطابق الیکشن کرانے اور الیکشن کے انتظامات کرانے کا پابند ہے، آئین کا آرٹیکل 220 وفاقی اور صوبائی اداروں کو الیکشن کمیشن کی معاونت کا پابند کرتا ہے، آئین کی روشنی میں الیکشن کمیشن قانون کے مطابق الیکشن کا انعقاد کروائے۔
تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پرویز الٰہی نے 12جنوری 2023ء کو اسمبلی تحلیل کی سمری گورنر کو بھجوائی، گورنر نے اسمبلی تحلیل کی سمری پر دستخط نہیں کیے اور 48 گھنٹے کے اندار اسمبلی خود تحلیل ہوگئی، 20جنوری 2023ء کو اسپیکر پنجاب اسمبلی نے گورنر کو الیکشن کی تاریخ دینے کےلیے مراسلہ لکھا 24جنوری کو الیکشن کمیشن نے گورنر کے پرنسپل سیکرٹری کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے خط لکھا۔ تحریری فیصلہ کے مطابق گورنر نے الیکشن کمیشن کو جواب دیا کہ گورنر نے سمری پر دستخط نہیں کیے لہذا وہ تاریخ دینے کے پابند نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: پرویز الہیٰ اور پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دے دیا
واضح رہے کہ درخواست گزاروں نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ نہ دینے کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا، جسٹس جواد حسن نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سماعت
قبل ازیں دوران سماعت آئی جی پنجاب نے موقف اختیار کیا تھا کہ انتخابات سے متعلق جو الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہو گا ہم اس پر عملدرآمد کریں گے جبکہ چیف سیکرٹری پنجاب نے آگاہ کیا تھا کہ ہم آئین کے آرٹیکل 220 پر عملدرآمد کے پابند ہیں عدالت اور الیکشن کمیشن جو بھی فیصلہ کرے ہم اس پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے الیکشن بروقت کروانے سے معذوری ظاہر کردی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کا موقف تھا کہ تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے، عدلیہ ،چیف سیکرٹری، فنانس سب نے افسران اور فنڈز دینے سے معذرت کرلی ہے الیکشن کمیشن ایسے حالات میں کیسے الیکشن کروا سکتا ہے.ہمیں الیکشن کرانے کے لیے 14 ارب روپے کی ضرورت ہے، قانون میں الیکشن کی تاریخ مؤخر ہو سکتی ہے ۔
گورنر کے وکیل شہزاد شوکت نے دلائل میں کہا اگر اسمبلی خودبخود تحلیل ہوتی ہے تو گورنر انتخابات کی تاریخ دینے کا پابند نہیں ہے.
تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئین میں واضح درج ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد نوے روز میں الیکشن ہوں گے ، صدر مملکت بھی الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں ، عدالت حکم دے گی تو صدر تاریخ دے دیں گے۔
لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کے لیے دائر درخواستوں پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد از نماز جمعہ سنایا جائے گا۔