امن کا خواب
یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بیرونی مداخلت کاری اور دہشت گردی...
صدرآصف علی زرداری نے تہران میں منعقدہ غیر وابستہ تحریک ''نام'' کے 16 ویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام متنازع مسائل کا مذاکرات کے ذریعے پرامن حل چاہتا ہے۔
اسی لیے بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات کررہا ہے۔ صدر نے اپنی تقریر میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر درپیش مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے عالمی امن کے لیے اِن کے حل کی ضرورت پر زور دیا، انھوں نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں دیرپا امن کا خواہاں اور اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ صدر زرداری نے شام میں جاری محاذ آرائی اور خونریزی روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انھوں نے بالکل درست کہا کہ عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے لوگوں کے دل و دماغ کو جیتنا ہوگا تاکہ وہ ہتھیار پھینک کر ایک پرامن اور عدم تشدد کی سوچ پر مبنی معاشرے کے قیام میں مددگار بن سکیں۔ صدر زرداری کا یہ موقف مبنی برحقیقت ہے کہ غیر وابستہ رکن ممالک کی تنظیم ''نام'' کو اس وقت عالمی سطح پر مشکل چیلنجوں کا سامنا ہے اور منظم اتحاد ہی کی بدولت ''نام'' اپنے مقاصد حاصل کرسکتی ہے۔
صدر زرداری نے ایران میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے بھی ملاقات کی، دونوں رہنمائوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ خطے میں پائیدار امن کے قیام، عوام کی خوش حالی اور دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے مذاکرات کا عمل جاری رکھا جائے اور کشمیر سمیت تمام متنازع مسائل کو گفت و شنید سے حل کیا جائے۔
پاکستان اور بھارت خطے کے دو ایسے ممالک ہیں جن کے درمیان آزادی کے 65 برسوں بعد بھی دو طرفہ خوش گوار تعلقات کا قیام ایک خواب نظر آتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا ہے۔ دونوں ملکوں نے تین جنگیں لڑیں لیکن کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان آج بھی ''کور ایشو'' ہے۔ علاوہ ازیں سیاچن، سر کریک اور پانی کی تقسیم جیسے مسائل پر بھی دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کی خلیج موجود ہے۔
اگرچہ ماضی کے الم ناک تجربات کے بعد پاکستان اور بھارت کی قیادت کشمیر سمیت تمام متنازع مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے خواہاں ہیں اور اس ضمن میں گزشتہ کئی برسوں سے دو طرفہ مذاکرات کا عمل وقفے وقفے سے جاری ہے اور سیکریٹری خارجہ سے لے کر سربراہانِ حکومت تک ہر سطح کے دو طرفہ مذاکرات ہوتے چلے آرہے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے برسرِ اقتدار ہر حکمراں قیادت نے مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے اور کشمیر سمیت تمام متنازع مسائل کو بامقصد و نتیجہ خیز بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی نیک نیتی کے ساتھ سنجیدہ کوششیں کی تاہم بھارتی حکمرانوں اور مذاکرات کاروں کی عدم دلچسپی، روایتی بے حسی، ہٹ دھرمی، ضد، انا پرستی اور غیر لچک دار رویوں کی بدولت آج تک کسی بھی سطح کے مذاکرات کا کوئی قابل ذکر نتیجہ نہیں نکل سکا۔
یہی وجہ ہے کہ کشمیر سمیت تمام مسائل آج بھی دونوں ملکوں کے درمیان وجہ تنازع بنے ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت کو بہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے ایک مرتبہ پھر پاک بھارت تعلقات کی بحالی، خطے کے پائیدار امن اور تنازع کشمیر سمیت تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے نہ صرف مذاکراتی عمل کو زندہ کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر بھارت کے ساتھ دیگر شعبوں میں بھی باہمی تعاون کے فروغ کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔
اسی پس منظر میں چند روز پیشتر پاکستان کے ایک پارلیمانی وفد نے بھارت کا دورہ کیا تھا، جہاں اس کی بھارت کی مختلف سیاسی و حکومتی شخصیات اور دیگر شعبوں سے وابستہ افراد سے ملاقاتیں ہوئیں، دونوں ممالک کے درمیان امن کی خواہش اور خوش گوار دوستانہ مراسم کے قیام کے حوالے سے بات چیت کی گئی اور حکومت کو پیش کردہ سفارشات میں کہا گیا کہ بزرگ شہریوں، تاجروں، طلبا، ماہرین تعلیم اور پیچیدہ امراض میں مبتلا مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے ویزوں کی فراہمی میں لچک دار پالیسی اپنائی جائے۔
تاکہ مختلف شعبوں کے وفود جب مستقبل میں پاکستان اور بھارت کا دورہ کریں گے تو دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کی خوش گوار فضا پروان چڑھے گی۔ ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے سے ہر شعبے میں باہمی تعاون کو فروغ حاصل ہوگا اور افہام و تفہیم سے متنازع مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
ایسے اقدامات بلاشبہ پاکستان کی جانب سے مثبت و تعمیری سوچ کی علامت ہیں جس کی ہر مکتبۂ فکر کی جانب سے پذیرائی کی جارہی ہیں اور حکومتی اقدام کو خطے میں پائیدار امن کے قیام کی خواہش کا مخلصانہ اظہار اور کشمیر سمیت تمام متنازع حل طلب مسائل کو بامقصد و نتیجہ خیز دو طرفہ مذاکرات سے حل کرنے کی جانب مثبت قدم قرار دیا جارہا ہے۔
اگر بھارتی قیادت کی جانب سے بھی نیک نیتی اور خلوص پر مبنی مثبت ردعمل سامنے آئے تو کوئی وجہ نہیں کہ دونوں ممالک اپنے دیرینہ تنازعات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ اس حوالے سے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کا مجوزہ دورۂ پاکستان نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے ایران میں ملاقات کے دوران من موہن سنگھ سے بجاطور پر کہا کہ ہم آپ کے دورۂ پاکستان کے شدّت سے منتظر ہیں۔
توقع تھی کہ تہران میں صدر زرداری کے ساتھ ملاقات کے بعد من موہن سنگھ مثبت سوچ کے ساتھ پاکستان آئیں گے، تاہم وطن واپسی پر اپنے خصوصی طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ دورۂ پاکستان کے لیے مناسب ماحول کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ یقین ہو کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کررہا ہے۔
حالانکہ بھارتی وزیراعظم بخوبی آگاہ ہیں 9/11 کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک فریق کی حیثیت سے موثر کردار ادا کررہا ہے اور عالمی برادری اس کی معترف بھی ہے۔ پاکستان خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے، جیسا کہ صدر زرداری نے ''نام'' اجلاس کے خطاب میں واضح طور پر بتایا کہ پاکستان کا اس جنگ میں 80 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور 40 ہزار سے زاید جانوں کی قربانی دی ہے۔
یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بیرونی مداخلت کاری اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے مبینہ ثبوت پاکستان کے پاس ہیں اور اعلیٰ ترین سطح پر پاکستان یہ باور کراتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا، اسی لیے پاک فوج عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کررہی ہے، بہرحال ڈاکٹر سنگھ کو مثبت سوچ کے ساتھ پاکستان آنا چاہیے ورنہ دو طرفہ مذاکرات لاحاصل اور خطے میں امن کا خواب تشنۂ تعبیر ہی رہے گا۔