ملکی معیشت اور سیاحت کا فروغ

سیاحتی شعبے کی ترقی ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کا سبب بن سکتی ہے


ضیا الرحمٰن ضیا February 11, 2023
حکومت کو سیاحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جس پر کوئی خاص خرچ نہیں ہوتا مگر یہ ملک کو بہت کچھ دے جاتا ہے۔ ہر ملک میں پہلے سے بہت کچھ موجود ہوتا ہے، کچھ قدرتی طور پر اور کچھ تاریخی طور پر۔ قدرتی طور پر جیسے پہاڑ، دریا اور خوبصورت مقامات وغیرہ اور تاریخی طور پر جیسے تاریخی عمارات، قلعے، قدیم مساجد و عبادت گاہیں وغیرہ۔ ملک میں پہلے سے موجود ان وسائل پر تھوڑی سی توجہ دینے سے سیاحت کا شعبہ ترقی کرتا ہے اور ریاست کی معیشت کےلیے نہایت سودمند ثابت ہوتا ہے۔

سیاحت کے شعبے کو اگر فروغ دیا جائے تو یہ ملک کی معیشت کو بہت زیادہ نفع پہنچاتا ہے اور ملکی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کی معیشتیں فقط سیاحت پر چل رہی ہیں اور وہ اچھے خاصے خوشحال ہیں۔

پاکستان کو قدرت نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ خاص طور پر سیاحتی شعبے میں ترقی کےلیے پاکستان کے پاس بہت سے مواقع اور وسائل موجود ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں تمام تر قدرتی مناظر، جو دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہیں، وہ سب تنہا پاکستان کے پاس ہیں۔ یعنی پاکستان میں خوبصورت اور دنیا کے بلند ترین پہاڑ، لہلہاتے کھیتوں پر محیط وسیع و عریض رقبہ اور سرسبز باغات، دلکش ساحل سمندر، صحرا، جنگل، غرض پاکستان کے پاس تمام تر وہ وسائل موجود ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک کو بہت کم میسر ہیں۔ اسی طرح تاریخی وسائل پر بات کی جائے تو پاکستان کے تقریباً تمام شہروں میں چھوٹے بڑے تاریخی مقامات موجود ہیں۔ ہر شہر میں کوئی باغ، تاریخی عمارت، تاریخی مسجد ، قدیم قلعے وغیرہ موجود ہیں۔

خوش قسمتی سے پاکستان میں دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے آثار بھی موجود ہیں، جو دنیا کے چند ایک ممالک کو میسر ہیں۔ یہاں گندھارا، موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی قدیم ترین تہذیبوں کے آثار موجود ہیں، جو ہزاروں سال قدیم انسان کے رہن سہن کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک سے سیاح انہیں دیکھنے کےلیے ذوق و شوق سے آتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے آثار قدیمہ کے محققین بھی ان تہذیبوں میں نہایت دلچسپی رکھتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو پاکستان میں موجود ہے اور اس کے علاوہ بھی بلند ترین چوٹیاں پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھی ہیں۔

اگر سیاحتی شعبے کی طرف حکومت توجہ دیتی تو شاید پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سیاحتی ملک ہوتا۔ پاکستان کے تمام شہروں میں کسی نہ کسی درجے میں سیاحتی مقامات موجود ہیں۔ کہیں خوبصورت پارک، کہیں خوبصورت مساجد، کہیں قدیم ترین عمارتیں اور قلعے ہیں۔ ان تمام عمارتوں کی تزئین و آرائش کرکے انہیں سیاحت کے قابل بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کے اردگرد گنجائش کے مطابق چھوٹے بڑے پارک بناکر سیاحوں کےلیے مزید پرکشش بنایا جاسکتا ہے۔ تمام اضلاع کی حکومتوں کی یہ ذمے داری لگانی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے ضلع میں موجود اس قسم کے سیاحتی و تاریخی مقامات کی فہرستیں تیار کریں اور پلاننگ کریں کہ انہیں کس طرح مزید دلچسپی کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ شمالی علاقہ جات اور ساحلی علاقوں میں بالخصوص سیاحوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ان کےلیے بہترین اور سستی ٹرانسپورٹ کا انتظام ہو۔ وہاں رہائش اور کھانے پینے کےلیے بین الاقوامی معیار کے ہوٹل ہوں، تمام سیاحتی مقامات تک پختہ اور خوبصورت سڑکیں اور جہاں سڑکیں نہیں بنائی جاسکتیں وہاں پیدل چلنے کےلیے خوبصورت اور معیاری راستے بنائے جائیں۔ غیر ملکی سیاحوں کےلیے سیکیورٹی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ یہ وہ تمام تر سہولیات ہیں جن پر نہایت کم لاگت آتی ہے لیکن یہ ملک میں سیاحت کے فروغ میں بہترین کردار ادا کرتی ہیں۔ ان سہولیات کی وجہ سے وہ تمام تر وسائل جو پہلے سے کسی ملک میں موجود ہوتے ہیں، وہ دنیا کے سامنے آشکار ہونے لگتے ہیں، یوں سیاح جوق در جوق چلے آتے ہیں اور ملک کی معیشت بہتر ہونے لگتی ہے۔ عوام کو روزگار کے بے شمار مواقع میسر آتے ہیں اور ان کا معیار زندگی بلند ہوجاتا ہے۔

حکومت کو سیاحت کے شعبے کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے اور اس شعبے کی ترقی کےلیے تمام تر ریاستی وسائل و ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے جلد از جلد اس پر کام شروع کردینا چاہیے۔ یہ کام تو کئی دہائیاں پہلے ہونا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے ہمارے نااہل اور بدنیت حکمرانوں نے اب تک اس شعبے کی طرف خاص توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے ہم قدرت کی عطا کردہ نعمتوں سے کماحقہ فائدہ اٹھانے سے محروم رہے۔ بہرحال اب بھی اگر اس کی طرف توجہ دی جائے تو یہ بھی ہمارے لیے بڑی خوش قسمتی ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔