مہنگائی اور کرنے کے کام
بہت سے اور بھی راستے نکل سکتے ہیں کہ جن میں ہم حکومت کے بجائے خود ہی مہنگائی کے بوجھ کوکم کرسکتے ہیں
مہنگائی اس وقت ہوتی ہے جب آپ کی جیب میں پیسہ ، پائی نہ ہو ، یہ جملہ میرے ایک ساتھی اکثر کہتے تھے، یہ گریڈ سترہ کی سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔
کافی عرصے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ '' یار مہنگائی بہت ہوگئی ہے'' میں نے ہنستے ہوئے کہا '' کیوں ،کیا آپ کی جیب میں پیسہ پائی نہیں ہے؟'' کہنے لگے کہ '' یہ بات نہیں ہے، دراصل گزشتہ ایک برس سے تقریباً تمام ہی اشیاء صرف کی قیمتوں میں دگنا اضافہ ہوگیا ہے، ہر شے کی خریداری پر ہی نہیں ، یوٹیلیٹی بلز بھی پہلے کے مقابلے میں دگنے ہوگئے ہیں ، گویا اخراجات ڈبل ہوگئے ہیں اور سرکاری تنخواہ میں اضافے کے بجائے کمی واقع ہو رہی ہے۔
مہنگائی گزشتہ دور حکومت کی وجہ سے ہو یا کہ موجودہ حکمرانوں کی وجہ سے،اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک عام ملازم ہی نہیں، معقول تنخواہ لینے والا شخص بھی بری طرح پریشان ہے کہ وہ اپنے گھرکے اخراجات کس طرح پورا کرے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے حال ہی میں رکھے گئے مطالبات کے بعد تو ایسا نظر آرہا ہے کہ اب ایک عام گھرانے کا ماہانہ بجٹ مزید کئی گنا بڑھ جائے گا۔
ایسے برے معاشی حالات میں سب سے بری حالت اس سفید پوش طبقے کی ہوگئی ہے کہ جو شدید بھوک میں بھی کسی خیراتی لنگرخانے سے شرم کے باعث کھانا نہیں کھا تا بلکہ کسی سے ادھارکی رقم لیتے ہوئے بھی سخت ذہنی کوفت کا شکار ہوتا ہے۔ اس وقت کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جو لوگ ملکی تاریخ کے مہنگے سے مہنگے دور میں روٹی چٹنی کھا کر غربت میں اپنے بچوں کو پال لیتے تھے ، وہ موجودہ مہنگائی میں روٹی چٹنی کھا کر گزارا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
جب آٹا خریدنا بھی مشکل ترین ہو جائے اور تندور کی روٹی بھی مہنگی ترین ہوجائے تو پھر روٹی چٹنی کھانا بھی عوام کی دسترس سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہی حال اس وقت عوام کا ہوچکا ہے اور اس میں مزید اضافہ ہونے جا رہا ہے۔
فی الحال حکمرانوں کو ملک چلانے کے نام پر آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضہ لینے کی فکر ہے اور ظاہر ہے کہ ان شرائط کا مطلب مہنگائی میں اضافہ ہے، یوں حکومت کسی کی بھی ہو مہنگائی میں اضافہ تو لازمی ہے۔ چنانچہ ایسے میں عوام خاص کر سفید پوش طبقے کے لیے کیا کیا جائے؟
یہاں اس ضمن میں کچھ تجاویز پیش کی جارہی ہیں جس میں صاحب حیثیت لوگ حسب توفیق حصہ لے کر خود سے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں اور انھیں ایسا کرنا بھی چاہیے کیونکہ جس تیزی سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے اس اعتبار سے آنیوالے وقتوں میں لوگوں کی معاشی حالت کم و بیش ویسی ہوگی جیسا کہ ماضی قریب میں کورونا کی وبا کے وقت تھی۔
راقم کے خیال میں ایسے دکاندار جو روز مرہ کی اشیاء فروخت کرتے ہیں وہ کسی دو اشیا یا کم ازکم کسی ایک ایسی شے پر قیمت کم کر دیں یا اس پر منافع نہ لیں بلکہ جس دام خریدا ہو، اسی دام فروخت کریں۔ مثلاً پرچون فروش اپنی دکان میں ہر شے معمول کے مطابق فروخت کرے ، مگر چینی اور آٹا اسی قیمت پر فروخت کرے جس قیمت پر خریدا ہو۔ یہ بہت بڑی نیکی ہوگی کیونکہ یہ وہ اشیاء ہیں جو ہر غریب سے غریب گھر کی ضرورت ہے۔
محلہ کے جنرل اسٹور یا پرچون فروش ماضی میں محلے داروں کو راشن ادھار بھی دیا کرتے تھے، اب یہ کلچر بھی ختم ہورہا ہے۔ اس وقت لوگوں کی مدد کے لیے راشن ادھار دینا بھی ایک بڑی نیکی ہے۔ اسی طرح سبزی والا اورکچھ نہیں تو کم ازکم پیاز کی قیمت وہی رکھے جو قیمت خرید تھی، کیونکہ پیاز بھی ہر گھرکی لازمی ضرورت ہے اور اس وقت انتہائی مہنگی ہے۔
دودھ والے بھی عموماً اپنی دکان پر دودھ کے علاوہ کئی اور اشیاء بھی فروخت کرتے ہیں اگر وہ بھی دودھ کی قیمت میں اپنی حیثیت کیمطابق قیمت کم کردیں تو اس سے مستحق اور سفید پوش لوگوں کی بہت مدد ہوسکتی ہے کیونکہ اکثر گھروں میں بچوں کے لیے دودھ لازمی شے کی حیثیت رکھتا ہے۔
صحت کے معاملے آج کل بہت مہنگے پڑ رہے ہیں اور دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ضروری دوا بھی درست مقدار میں نہیں لے پاتے کیونکہ ادویات کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
میڈیکل کا کاروبار موجودہ دور میں اچھی آمدنی والا کاروبار ہے اگر اس کاروبار سے منسلک لوگ کچھ مخصوص ادویات کو بغیر منافع یا کم منافعے پر لوگوں کو فراہم کردیں خاص کر سنیئر سٹیزن یا معمر افراد کو ، تو یہ بہت بڑی بھلائی ہوگی کیونکہ ایسے لوگوں کے پاس اپنی جیب خرچ کے پیسے بھی نہیں ہوتے اور وہ اپنی اولاد کی جانب سے دی جانے والی معمولی رقم پر ہی اپنے دیگر اخراجات پورے کرتے ہیں۔
اسی طرح ڈاکٹر حضرات اپنی فیس کم کر کے یا واٹس ایپ پر کوئی مفت سروس شروع کرکے بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔تعلیم کا خرچہ بھی ایک بڑا خرچہ ہے اور مہنگائی میں اضافہ سے تعلیمی اشیاء بھی مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ بک شاپس کے مالکان بھی اپنی حیثیت کیمطابق کسی ایک یا دو آئٹم پر قیمت کم کر دیں تو طلبہ اور ان کے والدین کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔
تعلیم سے جڑا ایک سلسلہ اسکول اور اس کی فیسوں کا ہے، بیروزگاری اور مہنگائی کے سبب جن والدین نے اپنے بچوں کا نجی اسکولوں میں بہتر تعلیم کے لیے داخلہ کروایا تھا ، اب مہنگائی کے باعث بچوں کی فیسیں ادا کرنا بھی اکثر والدین کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
اسکول کے مالکان اگر فیسیں کم نہیں کرسکتے تو کم از کم لیٹ فیس پر جرمانہ عائد کرنا بھی ختم کردیں نیز ایسی سرگرمیاں کم کردیں کہ جن کے لیے بچوں سے کبھی چندہ توکبھی مختلف اشیاء، اسٹیشنری وغیرہ منگوائی جاتی ہے۔
رہائش کا مسئلہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے،ایک بڑی تعداد شہروں میں اپنا ذاتی مکان نہیں رکھتی ہے اور وہ ماہانہ کرایہ ادا کرتی ہے،ایسے لوگوں کی ہر ماہ آمدنی کی تقریباً نصف رقم کرائے کی مد میں چلی جاتی ہے۔
مالکان کو چاہیے کہ وہ ہر سال بے تحاشا اضافہ نہ کریں، ایسے بھی مالکان ہیں جو کرائے کی مد میں دس فیصد اضافہ کرتے ہیں حالانکہ یہ قانوناً بھی بہت زیادہ ہے۔ کچھ لوگوں نے تو کاروبار ہی یہ بنا لیا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ مہنگائی سے سب سے زیادہ مشکلات کرائے داروں کو ہوتی ہے کیونکہ مکان کے کرائے میں ، آمدن میں اضافے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر کرایہ دار کسی وجہ سے مکان تبدیل کرنا چاہے تو اسٹیٹ ایجنٹ اس سے ایک ماہ کا کرایہ بطور فیس لیتا ہے، یہ بڑی نا انصافی ہے اس قدر بڑی رقم قرین انصاف نہیں۔ اسٹیٹ ایجنٹ کو بھی چاہیے کہ ا س رقم میں کمی کرے تاکہ مہنگائی سے پریشان لوگ مزید پریشان نہ ہوں۔
ہمارے ہاں ایسے بھی صاحب حیثیت لوگ ہیں جو بڑی بڑی رقم امداد کے طور پر دیتے ہیں، ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں کہ کون ایسے لوگ ہیں جو سوال نہیں کرتے، اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہیں مگر ضرورت مند ہیں۔
ایسے لوگوں کو قرض حسنہ دے ان کی مدد کی جائے، مثلاً کسی کو ملازمت پر آنے جانے کے لیے موٹر سائیکل وغیرہ کی ضرورت ہے تو اس کی ممکنہ مدد کردی جائے اور آسان قسطوں یا کچھ وقت کی مہلت کے ساتھ رقم ادھار دے دی جائے یا کسی کو کچھ رقم دیکر چھوٹا موٹا کاروبار کرا دیا جائے۔
اس قسم کی مدد کے بعد جب یہی رقم واپس ملے تو پھر کسی اور ضرورت مند کا یہ رقم اسی طرح دے دی جائے۔اگر ہم غورکریں تو ایسے بہت سے اور بھی راستے نکل سکتے ہیں کہ جن میں ہم حکومت کے بجائے خود ہی مہنگائی کے بوجھ کوکم کرسکتے ہیں۔