دو روزہ چاک اردو کانفرنس حصہ اول
سرسید تحریک نے علمی اور عملی طور پر راہ ہموار کردی اس کے اثرات ادب پر بھی ظاہر ہوئے
گزشتہ دنوں ''چاک ایونٹ مینجمنٹ '' کے تحت دو پروگراموں میں بحیثیت مقرر شرکت کا موقعہ ملا ، اس تنظیم کی روح رواں ممتاز افسانہ نگار صائمہ نفیس ہیں، ان کی معاون یاسمین یاس اور دوسرے کئی اہم لوگ تنظیم کے حوالے سے فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔
یہ تنظیم ایک خاص مقصد کے تحت کووڈ 19 کے زمانے میں وجود میں آئی، یہ وہ ابتدائی دور تھا جب مصافحہ اور معانقہ پر سخت پابندی تھی لوگ اپنی ذات تک محدود ہوگئے تھے اگر ملنا مقصود ہوتا تو دور دور سے، اس وقت ہمیں یہ کسی گانے کا مصرعہ یاد آگیا ہے '' ظالم دور دور سے دیکھے گھور گھور کے'' مسکراہٹ تو نظر آنے سے رہی چونکہ لب و رخسار کو برقعہ پہنا دیا گیا تھا، یعنی بنا ماسک گھر سے باہر نکلنے کا مقصد یہ تھا کہ وبا سے دوستی کرنا، بہرحال تنظیم کے منتظمین نے جب یہ صورت حال دیکھی تو ادبی سرگرمیوں کو فعال کرنے کے لیے مختلف پروگرام ترتیب دیے، یہ وہ ایام تھے جب لوگ کووڈ 19 سے مانوس ہوگئے اور اس بیماری کے وار بھی کم ہوگئے تھے۔
چاک ایونٹ مینجمنٹ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شعرا اور ادبا کو کھلی فضا میں لانے اور محافل سجانے کے مواقع فراہم کیے جوکہ خوش آیند اور حوصلہ افزا بات تھی کہ چلیں تخلیقی اور تعمیری سرگرمیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک چھت تلے یا ساحل سمندرکی مچلتی ہوئی لہروں کے سنگ یا پھر فارم ہاؤس کے سبزے پر بیٹھنے اور جمع ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔ صائمہ نفیس صاحبہ نے 11 نومبر کو 2022 کو دو روزہ چاک اردو کانفرنس کا انعقاد کیا۔ بہت شان دار اورکامیاب پروگرام ہوا ، کئی دن تک اس کی کامیابی کی بازگشت سنائی دی۔
ہم نے جو اس کانفرنس میں اپنا مقالہ پڑھا، اس کا عنوان تھا۔'' معاشرے میں تشدد پسندی اور ادیب کی ذمے داری۔'' میں نے اپنا مضمون اکابرین کی سماعتوں کی نذر کچھ اس طرح کیا کہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ ادیب اپنے زمانے کا مورخ ہوتا ہے، وہ تاریخ کو لفظوں سے پینٹ کرتا ہے اور زمانوں کو اپنی تحریروں میں سمو دیتا ہے، جب سے دنیا آباد ہوئی ہے مختلف موضوعات پر کہانیاں جنم لیتی رہیں، پہلی کہانی قابیل اور ہابیل کی ہے، قابیل نے اپنے حقیقی بھائی ہابیل کا خون کردیا، پسند و ناپسند کے تناظر میں، قرآن کریم میں حضرت آدمؑ کے دونوں بیٹوں کا ذکر قاتل و مقتول کے حوالے سے درج ہے اور پھر مختلف قبائل، برادریوں، خاندانوں، پڑوسی اور رشتے داروں میں آپس کے اختلافات نے نفرت اور لڑائی جھگڑوں کو تشدد اور بربریت کے پیکر میں ڈھال دیا۔
معاشرتی ناانصافی، اقتدار کی ہوس کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے قصوں نے قلم کاروں کو خون میں ڈوبا ہوا مواد پیش کیا، تخلیق کاروں نے سماجی حقائق کو دردمندی کے ساتھ اپنی تحریروں میں ڈھالا اور پھر افسانے، ناول اور شاعری وجود میں آئی، یہ تخلیقات جب اپنے پس منظر اور پیش منظر کے تناظر میں جلوہ گر ہوئیں تو قاری کو ان زمانوں میں پہنچا دیا جن سے اس کی بصارت و بصیرت محروم تھی۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا، جبر کی مختلف صورتیں اور مقاصد سامنے آتے گئے، انگریزی کے نقاد ڈی ایچ لارنس کے مطابق '' فن کا فریضہ یہ ہے کہ انسان اور اس کے گرد و پیش پائی جانے والی کائنات کے مابین جو ربط موجود ہے اس کا ایک زندہ لمحے میں انکشاف کرے، چونکہ نوع انسانی قدیم روابط کے رنج و محن میں ہر لحظہ جدوجہد کرتی رہی ہے اس لیے کہ فن ہمیشہ وقت کے ادوار سے آگے ہوتا ہے جو خود زندہ لمحے سے منزلوں پیچھے ہوتے ہیں۔''
اردو افسانہ نگاروں نے فرد کی داخلی وخارجی کیفیت کی معرفت انسانی سوچ اور خیال تک رسائی حاصل کی۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی بدلتے وقت اور موضوعات کے انتخاب کے حوالے سے یہ رائے سامنے آئی کہ '' قومی، عالمی ادبی تحریکات، زندگی کے بارے میں نئے فلسفیانہ زاویہ نظر خصوصاً جدیدیت کی تحریکوں کے زیر اثر عدم تحفظ ، تنہائی ، بے بسی ، بے یقینی ، ذات کی گمشدگی اور بھری دنیا میں بے یار و مددگار ہونے کا خوف و ہراس اور ادراک و احساس پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہو گیا ہے۔ اس شدت احساس نے موضوعات کے ساتھ موضوعات کے برتنے کے ڈھب کو بھی خاصا بدل دیا ہے۔''
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تحریر کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگاروں نے دنیا بھر کے تلخ حقائق کو بہت خوب صورتی کے ساتھ افسانوں کا روپ عطا کیا ہے۔ منیر الدین احمد نے جرمنی میں ہونے والی دہشت گردی کو اپنے افسانوی مجموعے ''زرد ستارہ، فاطمہ'' کو خاص موضوع بنایا ہے۔جیسے جیسے ہماری دنیا میں جبر و تشدد کی صورتیں مختلف طریقوں اور منفی سوچ کی بدولت بڑھ رہی ہیں مزاحمت کے اس فریضے کی ادائیگی کا تقاضا بھی تخلیق کاروں میں شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ بے شک ادب اپنے اندر سماجی اور معاشرتی پہلوؤں کی نمایندگی کرتا ہے۔
مختلف ادوار میں تشدد اور بربریت کے قصے منظر عام پر آئے۔ بیسویں صدی میں تخلیق کیے جانے والے ادب میں انسانی زندگی کی تلخیاں، عصری رجحانات اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہونے والی ہلاکت خیزیاں منظرنامے پر طلوع ہوئیں۔
اس صدی کا دہشت ناک پہلو پہلی جنگ عظیم تھی جس کے ذریعے تشدد پسندی کی نئی روایت کی ابتدا ہوئی جو گزشتہ جنگوں کے مقابلے میں زیادہ خوفناک تھی پہلی جنگ عظیم کی تباہی اور انسانی اموات نے تخلیق کاروں پر دوررس اثرات مرتب کیے جس کی عکاسی مغربی ادب میں نمایاں ہوئی، یہ عرصہ 1920 سے 1930 کے دوران کا ہے۔
دوسری جنگ عظیم اس سے بھی زیادہ ہولناک اس لحاظ سے تھی کہ اس میں شہریوں اور فوجیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، دوسری عالمی جنگ کے بعد جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں وہ ہمسایہ ممالک کے درمیان یا پھر عالمی طاقتوں کی تیسری دنیا کے ممالک پر قبضے کی صورت میں سامنے آئیں۔ ان میں روس افغان جنگ، عرب اسرائیل، ایران عراق جنگ یا امریکا کی عراق و افغانستان پر جارحیت و قبضے کی جنگ تھی ، ان تمام جنگوں کے اثرات ہر ملک کے ادب میں نمایاں ہوئے۔
سترہویں صدی میں جو ادب تخلیق ہوا اس کے مطالعے کے بعد اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ اس دور کے سیاسی و سماجی واقعات اس عہد کی دہشت کو اور خوف کو نمایاں کرتے ہیں۔ سترہویں صدی کے اوائل میں ایسے ادب کی ترویج ہوئی جو خوف اور وحشت کو بے دار کرنے کا باعث تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی ابتدا ہو چکی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ عقلیت، فلسفہ اور مذہب کا ٹکراؤ نئے خیالات کو جنم دے رہا تھا۔ تخلیقی ادب میں بھی یہ تبدیلی رونما ہوئی کہ حقیقت اور علامت سے نئے رجحانات کا ظہور ہوا۔
1857 کا پرآشوب زمانہ مسلمانوں کے لیے خصوصی طور پر تباہی، بربادی اپنے ساتھ لایا۔ اس کے ساتھ ہی فرسودہ نظام کی کھوکھلی عمارت کو گرانے کا باعث بنا۔ سیاسی، معاشرتی، معاشی اور تہذیبی مسائل نے مایوسی اور امید کی ایک نئی راہ پیدا کی۔ نیا ابھرتا ہوا عہد ان مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے تازہ خیال و افکار اور قوت فکر چاہتا تھا۔
سرسید تحریک نے علمی اور عملی طور پر راہ ہموار کردی اس کے اثرات ادب پر بھی ظاہر ہوئے۔ داستان نے ناول اور افسانے کا روپ دھار لیا، مصنفین نے بدلتے حالات کو دردمندی سے محسوس کیا اور اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔ (جاری ہے۔)