صرف و نحو اور تیرنا
دانائی کا پہلا اور قدیم مرکز یونان تو دیوالیہ ہوچکا ہے اور دوسرے مرکزکا انتظار ہے
ہم نے جب زنجیر پہن کر رقص کا آغاز کیا تو
سو تیر تھے، پیوست گلو
سو تیر ترازو تھے دل میں
اس وقت پشاور میں تین قابل ذکر اخبار تھے، بانگ حرم، شھباز اور انجام، تینوں میں ایک صفحہ پشتو کا ہوا کرتا تھا، شھباز کے پشتو صفحہ کے ایڈیٹر راحت زاخیلی تھے جو پشتو ادب کے نابغہ روزگار شخصیت اور بہت سے فنون کے بانیوں میں تھے چونکہ اس وقت پشتو میں شاعری عروج پر تھی، اب بھی ہے لیکن اس وقت شاعری کے سوا اورکچھ تھا ہی نہیں چنانچہ راحت صاحب نے اپنے پشتو صفحہ پر ایک مستقل شعر جلی حروف میں لکھوایا ہوا تھا ۔
چہ شاعری پہ ختو شی نو قام پہ پریوتو
(جب شاعری عروج پر ہوتی ہے تو قوم گرنے لگتی ہے) کبھی کبھی اس شعرکو الٹا بھی درج کیاجاتا تھا کہ جب کوئی قوم گرنے لگتی ہے تو شاعری چڑھنے لگتی ہے۔کچھ ایسی ہی صورت حال آج کل پاکستان کی بھی ہے، شاعری بھی عروج پر ہے لیکن دانائی اوردانشوری بھی عروج پر ہے۔ اخباری کالموں میں اور ٹی وی چینلوں پر تو دانشوری کے میلے لگے ہوئے ہیں، وہ الگ بات ہے لیکن اگر آپ عوامی اور مجلسی سطح پر دیکھیں تو ہر جگہ دانش ہی دانش اور دانشور ہی دانشوردکھائی دیں گے، گویا ہر طرف، ہر جگہ دانش اور دانشوری کے دریا بہائے جارہے ہیں، دریائوں میں طغیانی ہی طغیانی ہے، سمندروں میں کوزے ہی کوزے اورکوزوں میں سمندر ہی سمندر ہیں۔
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائی کا شکار آدمی
آپ آدمی کی جگہ دانا دانشور لگا دیئجے کیوںکہ ویسے بھی آدمی مفقود ہوتے جارہے ہیں اور دانشور بڑھتے جارہے ہیں، پہلے کہا جاتا کہ پتھر اٹھائو تو نیچے سے دانش بگھارتا ہوا دانشور نکل پڑے گا لیکن اب کوئی بھی کنکر پتھر اٹھائو تو نیچے سے باقاعدہ دانشوروں کا ایک جمگھٹا مذاکرے میں مصروف برآمد ہو جاتا ہے۔پشتو میں ایسی صورت حال کے لیے ایک کہاوت ہے کہ بہت سارے قصائیوں میں گائے مردار ہو جاتی ہے اور''گائے'' کا تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ کون ہے، کہاں ہے اور کیوں ہے؟مرزا یاس یگانہ چنگیزی نے کہا ہے۔
پکارتا رہا کس کس کو ڈوبنے والا
ناخدا تھے اتنے مگرکوئی آڑے آنہ گیا
پشتو میں اس مضمون کابھی ایک ٹپہ ہے کہ
پریگدہ چہ خڑ سیلاب مے یوسی
پہ لامبوزن اشنا بہ ڈیرہ نازیدہ مہ
ترجمہ۔ مجھے سیلاب میں غرق ہونے دو کہ مجھے اپنے ''تیراک'' پر بہت مان تھا۔
ہم جب کوئی اخبار پڑھتے ہیں یاچینلآن ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ اتنے زیادہ تیراک اور ناخدا ہوتے ہوئے بھی ہم ڈوب رہے ہیں، غرق ہورہے ہیں ۔
ایسے تیراک بھی دیکھے ہیں مظفر ہم نے
غرق ہونے کے لیے بھی جو سہارا چاہیں
دیکھئے تو کوئی ماہرتعلیم ہے، کوئی ماہرصحت ،تو کوئی ماہرسیاست، معیشت، دفاع، تعمیرات، سائنس، امن اوامان ،امور یہ امور وہ ۔امور سب کچھ ، امورکچھ نا۔
ہرطرف چھائے تھے بادل اورکوئی سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
صرف خوشبوکی کمی ہے موسم گل میں قتیل
ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا
ایک حکایت دم ہلانے لگی ہے، کہتے ہیں ایک غیردانشور،اجڈ، جاہل شخص پسوانے کے لیے دانے لے جانے لگا تو اس نے ایک بوری میں وہ اناج بھر کرگدھے پر بارکرناچاہا تو ایک طرف بوری رکھی اور دوسری طرف گدھے کے بار میں بوری کاہم وزن ایک بڑا ساپتھر رکھا، راستے میں اسے ایک دانا دانشور آدمی ملا ،اس نے گدھے والے کا خوب مذاق اڑا کرکہا ، تم بھی کتنے احمق اور جاہل ہو ،خوامخواہ گدھے پر دوہرا بوجھ لادے ہوئے ہو ۔اس اناج کو آدھا آدھا کر کے بار کردو تو پتھر ڈھونے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
غیردانشور، احمق، اجڈ، جاہل نے سنا تو اس دانا دانشورکی دانش پر عش عش کرتے ہوئے فوراً اس کا مشورہ قبول کرلیا، بوجھ کو آدھا آدھا کرتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ دانا دانشورکا شکریہ بھی اداکرتارہا اوردل میں بھی سوچتا رہا کہ یہ شخص اتنا دانا دانشور ہے تو بہت زیادہ مالدار بھی ہوگا، نہ جانے کتنے اناج کامالک ہوگا، دانادانشورکے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اس نے گدھے پر بار کیا، پھر اس سے رخصت ہوکر تھوڑی دور جانے کے بعد اس نے اپنے دل میں آئے ہوئے سوال کا جو اب چاہا اور دانشورکو آواز دے کر پوچھ ہی لیا کہ آپ اتنے دانشور ہیں تو یقیناً بہت مالدار اور دولت مند بھی ہوں گے۔
دانادانشور نے کہا، مالدار تو کیا میرے پاس اتنا اناج بھی نہیں ہے جتنا تمہارے پاس ہے ۔جاہل اجڈ شخص نے دوڑ کر گدھے کو روک لیا، بار اتارا اور پہلے کی طرح ایک طرف غلہ اور دوسری طرف بار کرتے ہوئے کہا،ایسی غربت زدہ دانائی سے میری جہالت اچھی۔
دانائی کا پہلا اور قدیم مرکز یونان تو دیوالیہ ہوچکا ہے اور دوسرے مرکزکا انتظار ہے ۔
وہ ایک ملاح کی کشتی میں دو عالم سوار تھے، دونوں علما نے ملاح سے پوچھا، تم ''صرف ونحو'' جانتے ہو۔ ملاح نے کہا ، نہیں، یہ کیا ہوتا ہے۔ علما نے کہا ''صرف ونحو'' انتہائی اہم چیزہے ،صرف ونحو نہ مان کر تم نے گویا اپنی آدھی زندگی ضایع کردی ہے۔کشتی آگے چلی تو طوفان نے اسے گھیر لیا۔اس نے دونوں ''نحویوں'' سے پوچھا، آپ تیرنا جانتے ہیں ۔انھوں نے کہا نہیں، ہمیں تیرنا بالکل نہیں آتا ۔اس پر ملاح نے کہا، پھر تو یوں سمجھو تمہاری ساری زندگی ضایع ہوئی۔