جی ایم سید کی غیرمعمولی تخلیقی و سیاسی بصیرت
پاکستان بننے کے فوراًبعدسے ہم نے ان بہت سے لوگوں کو’’غدار‘‘ کے القاب سے نوازنااور سیاسی انتقام کانشانہ بناناشروع کردیا
برصغیر کے عظیم سیاسی رہنما اور دانشور جی ایم سید سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر سن میں1904 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا انتقال 25 اپریل 1995 کو ہوا۔
انھوں نے بمبئی سے سندھ کی علیحدگی اور صوبہ سندھ کی پاکستان میں شمولیت کے لیے ایک بے مثال کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے 3 مارچ 1943 کو سندھ اسمبلی میں پاکستان کی تخلیق کے حق میں نہ صرف ایک قرارداد پیش کی بلکہ اسے بھاری اکثریت سے منظور بھی کرایا۔
اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ان کی جدوجہد کی بدولت سندھ، پاکستان میں شامل ہوا تھا۔ سائیں جی ایم سید ان چند ہیروز میں سے ایک تھے جن کی بدولت پاکستان کا قیام ممکن ہوسکا تھا۔ انھوں نے متعدد کتابیں لکھیں جنھیں غیرمعمولی پذیرائی اور شہرت حاصل ہوئی۔ ان کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے 1943 میں پاکستان کے قیام کے لیے سندھ اسمبلی سے اس وقت ایک قرارداد منظور کرائی تھی کہ جب کم لوگوں کو یہ گمان تھا کہ اس نام کی ایک آزاد ریاست وجود میں آسکے گی۔
جی ایم سید کی غیرمعمولی سیاسی و تخلیقی بصیرت ان کی اس تقریر میں نظر آتی ہے جو انھوں نے قیام پاکستان کے پانچ سال بعد اور آج سے 70 سال قبل ایک عالمی کانفرنس میں کی تھی۔ پیپلز کانگریس برائے امن 12 دسمبر سے 19 دسمبر 1952کے دوران آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایک ایسے وقت منعقد ہوئی تھی جب دنیا دوسری جنگ عظیم کے زخموں سے نڈھال تھی۔ انسانیت کراہ رہی تھی، علم و ادب اور فنون لطیفہ پر کڑا وقت پڑا تھا۔
سائیں سید نے یورپ کے تاریخی شہر ویانا کی عظمت کو سلام کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں ایک طرف ہولناک جنگ کے لگائے ہوئے زخموں کے نشان نظر آرہے ہیں تو دوسری طرف دنیا بھر سے سیکڑوں لوگ امن جیسے عظیم مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ سائیں سید نے جب اس کانفرنس میں شرکت کی، ان کی عمر 48 برس تھی۔ انھوں نے 1947 میں آزادی کے نام پر وحشت اور فسطائیت کا رقص دیکھا تھا۔
سندھ جسے وہ امن کا گہوارہ دیکھنے کے خواہاں تھے، وہ فرقہ واریت کے خنجر سے ذبح ہوگیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ان کا دل غم سے نڈھال تھا۔ انھوں نے سندھ سے جانے والوں کے دل زدہ قافلے دیکھے تھے اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آنے والے خانماں بربادوں کو دیکھا تھا۔ ان کے دل میں یہ درد بھی تھا کہ جس سیاسی جماعت سے ان کی طویل مخلصانہ وابستگی رہی تھی اس نے ان کے مشوروں پر کان نہیںد ھرا تھا۔
اس ویانا کانگریس میں 83ء ملکوں کے 1700 مبصرین شریک ہوئے تھے۔ اس کا افتتاح عالمی شہرت یافتہ ترک شاعر ناظم حکمت نے کیا تھا۔ اس میں لوئی آرا گون، ژاں پال سارتر، ملک راج آنند، ڈاکٹر سیف الدین کچلو جیسے نامی گرامی شریک ہوئے تھے اور اس کا اعلان نامہ چلی کے مشہور شاعر پابلو نرودا نے لکھا تھا۔ اس اعلان نامے کا آغاز ان الفاظ سے ہوا تھا کہ ''ہم لکھے ہوئے لفظوں کی طاقت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس جنگ زدہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ہم اپنی تحریروں سے مذہبی، سیاسی، ادبی اور دوسرے اختلافات کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ ''
سید صاحب کی سیاسی بصیرت کا اندازہ 1952 کی تقریر سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس میں انھوں نے کہا تھا ''استعماریت ایک نئی شکل میںنمودار ہورہی ہے۔ اسے امریکی استعماریت کہا جاسکتا ہے۔ اس کی اثر انگیزی کی سرحدیں آپ نقشے پر تلاش نہیںکرسکتے۔ یہ نادیدہ اور غیر مرئی لیکن فولاد کی طرح مضبوط ہے۔ اسے ڈالر کی طاقت کے ذریعے نافذ کیا جارہا ہے۔ ڈالر کا سایہ ہمارے ملک پر بھی پڑنے لگا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا ماحول بدبودار اور حبس زدہ ہورہا ہے۔
گورکی نے غلط نہیں کہا تھا کہ دھات کی بُو نہیں ہوتی مگر سونا ایک ایسی دھات ہے جس کی بُو محسوس ہوتی ہے اور یہ خون کی بُو ہے۔ امریکی طرزِ زندگی کا بڑھتا ہوا اثر ایک طرف ہماری قومی ترقی کے راستے میں حائل ہورہا ہے اور دوسری طرف اس کے باعث ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مسلسل تنائو کی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔
اس موقع پر میں آپ کے سامنے اپنی قومی تاریخ کے ورق پلٹنا چاہوں گا تاکہ یہ بتا سکوں کہ کس طرح برطانیہ نے ہمیں ایک ایسی صورتحال میں دھکیل دیا جس میں ہندو اور مسلمان ہر دو مذاہب کے لوگوں کو خوں بار تباہی کے بغیر آزادی اور سکھ کا سانس نصیب نہیں ہوسکا۔''
ان کا کہنا تھا کہ آج استعماری طاقتیں ہمارے لوگوں میں توہم پرستی کو بڑھاوا دینا چاہتی ہیں اور بنیاد پرست اسلامی اتحاد جیسے انتہا پسند نظریات کو فروغ دے کر ہمارے مسائل میں مستقل اضافہ کرنا چاہتی ہیں، وہ تمام عالمی اقدامات اور پالیسیاں جوکہ اس بنیاد پرست اسلامی اتحاد کو فروغ دے رہی ہیں وہ اسلامی ممالک کے اتحاد کی آڑ میں ان ملکوں میں موجود انتہا پسند جنونی گروہوں کے ہاتھ مضبوط کررہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قومیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
ہم سب یہ جانتے ہیں کہ بہت سی عالمی طاقتیں استعماریت کی جنگ میں مسلمانوں کو محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ ان کے استعماری مقاصدکے حصول کے لیے بے حد ضروری ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے رنج محسوس ہورہا ہے کہ ہمارا ملک بھی مسلم دنیا کی عالمی حکومت جیسے سنہری وعدوں سے متاثر ہوکر بیرونی طاقتوں کا ہتھیار بنتا جارہا ہے۔
آج پاکستان اسلام کے نام پر دہشت گردی کے جس چنگل میں پھنسا پھڑپھڑاتا ہے۔ اس کا اندازہ آج سے 71 برس پہلے ایک عظیم دانشور اور پیش بیں ہی کرسکتا تھا۔
سائیں سید صوفیا کے اس سلسلے سے تعلق رکھتے تھے جو دنیا ترک نہیں کرتا بلکہ اپنے پیروکاروں کو دنیا کے نئے پھندوں سے بچ نکلنے کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ پاکستان ان کے لیے زنداں ثابت ہوا۔ وہ غدار کہے گئے، کبھی جیل میں رکھے گئے اور کبھی ان کا گھر ان کے لیے جیل قرار دیا گیا۔ یوں تو انھوں نے بہت سی کتابیں لکھیں۔
لیکن ''سندھ کی آواز'' جو دراصل غداری کے مقدمے میں ان کا ایک عدالتی بیان ہے، تاریخ، سیاست اور ادبی خیالات کا ایک شاہ کار ہے۔ برصغیر کی تحریک آزادی اور سندھ کے دکھوں کی اس سے زیادہ سچی دستاویزشاید ہی کسی اورنے مرتب کی ہو۔ اس کتاب کے صفحوں پر کیسے کیسے عظیم الشان بتوں کے گرنے کی عبرت ناک کہانی ہے۔
اسی طرح تاریخ، مذہب اور تصوف کے حوالے سے ان کی کتاب ''جیسا میں نے دیکھا۔'' ایک بڑے دانشور کی تحقیق اور اس کے نتائج کی عکاس ہے۔ اپنی اس کتاب کے اختتام پر وہ کہتے ہیں کہ ''صوفی، حق و صداقت پرکسی مخصوص گروہ کی اجارہ داری تصور نہیں کرتا۔ وہ Non-aligned ہے۔ کسی بھی مذہبی، اقتصادی اور سیاسی نظریے کو حرف آخر جان کر اس کی اندھی تقلید سے گریز کرتا ہے۔ ''
ان کی یہ سطریں پڑھ کر مجھے ویانا سے گزرنے والا دریائے ڈینوب اور اس کے کنارے تاکستانوں، درگاہوں،خانقاہوں اور تکیوںمیں سربہ زانو ازبک اور تاجیک بیکتاشی درویش یاد آئے۔ سائیں سید ہم سے رخصت ہوچکے، ورنہ میں ان سے یہ پوچھنے کی جسارت ضرور کرتی کہ حضور ویانا کی امن کانگریس سے نمٹ کر کیا آپ ان بیکتاشی درویشوں کی تلاش میں نکلے تھے؟ کیا ان سے ملاقات میں آپ نے سندھ کے مقدر پر گفتگو کی تھی؟
کیا انھوں نے آپ کو بتایا تھا کہ صوفیا کی اس سرزمین کو فتنہ وفساد سے کب نجات ملے گی اور کب یہاں امن اور آشتی کے دن آئیں گے؟ سائیں موجود نہیں ہیں لیکن سُرکلیان سے شاہ کی یہ بیت ہمیں راستہ دکھاتی ہے کہ''اے شخص اگر تُو اپنا سر قلم کروانے کے لیے تیار ہے تو یہاں بیٹھ جا، ورنہ اپنا راستہ لے اور چلا جا۔''
اس سے زیادہ الم ناک بات اور کیا ہوگی کہ پاکستان بننے کے فوراً بعدسے ہم نے ان بہت سے لوگوں کو ''غدار'' کے القاب سے نوازنا اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا شروع کردیا جن کی جدوجہد، قربانیوں اور بصیرت کے نتیجے میں ہمارا ملک وجود میں آیا تھا۔ اس طرز عمل کا بھیانک نتیجہ ملک کے ٹوٹنے کی صورت میں نکل چکا ہے لیکن اس کے باوجود یہ رویہ کسی نہ کسی عنوان سے آج بھی جاری ہے۔