انتخابات کے لیے اے پی سی
اعلیٰ عدالتیں مسلسل حکومتی فیصلوں کو مسترد کر رہی ہیں، یوں ایک ہی راستہ ہے کہ وفاقی حکومت پہل کرے
ملکی مسائل کا حل عوامی فیصلہ سے ہی ممکن ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کو دانستہ نامکمل رکھا گیا۔ پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے نیب کے قانون میں ترمیم کے خلاف عمران خان کی اپیل کی سماعت کے دوران آبزرویشن دے کر نئی بحث چھڑدی ہے۔
ادھر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن پر مشتمل سنگل بنچ نے الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت 90 دن میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کا حکم دیا، اس بات کا امکان ہے کہ پنجاب اور اسلام آباد کی حکومتیں اس فیصلے کو چیلنج کریں گی۔
وفاقی وزراء کااصرار ہے کہ ملک کا کمزور معاشی ڈھانچہ اور امن و امان کی صورتحال مسلسل انتخابات کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔
گزشتہ سال جب وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کے اتحادی علیحدہ ہوئے اور قومی اسمبلی میں متحدہ حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے پہلے تو تحریک عدم اعتماد کے پیچھے امریکی سازش کا الزام لگایا۔
بعد ازاں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو استعمال کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو ایوان میں ووٹنگ کے لیے پیش کرنے سے پہلے مسترد کرادیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حکم پر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی، یہ تحریک ایوان سے منظور ہوئی تو عمران خان نے اقتدار سے محروم ہوتے ہی فوری الیکشن کا مطالبہ کردیا۔
اس حکمت عملی کے تحت قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ تحریک انصاف کے بیشتر اراکین نے اسپیکر کو استعفے بھجوادیے تھے۔
عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اپنے استعفے منظور کرانے کی ایک نئی مہم شروع کی۔ حکومتی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کی منظوری کو التواء میں ڈالا مگر اچانک کچھ اراکین کے استعفے منظور کر لیے گئے۔ خالی ہونے والے ان حلقوں میں ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی سے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مرحلہ آیا تو عمران خان کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا خیال آگیا۔
کسی دانا شخص نے انھیں یہ سمجھایا کہ اگر تحریک انصاف کے اراکین اپنے استعفے واپس لے لیں تو پھر تحریک انصاف اپنا قائد حزب اختلاف لاسکتی ہے، یوں اگر قومی انتخابات ہوئے تو وزیر اعظم تحریک انصاف کے قائد حزب اختلاف سے عبوری وزیر اعظم کے تقرر کے لیے مشاورت پر مجبور ہوں گے۔
تحریک انصا ف کی اس حکمت عملی میں تبدیلی آئی، استعفے منظور کرنے کی تحریک داخل دفتر ہوئی اور اسپیکر سے استعفوں کی واپسی کا مطالبہ ہونے لگا۔ خیبر پختون خوا اور پنجاب کے گورنرز نے فوری طور پر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے سے انکارکر دیا۔ پنجاب کے گورنر کا مدعا ہے کہ انھوں نے صوبائی اسمبلی نہیں توڑی ، اس لیے وہ انتخابات کی نئی تاریخ نہیں دے سکتے۔
خیبر پختون خوا کے گورنر کا مدعا ہے کہ صوبہ میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوگئی ہے۔ پشاور پولیس لائنز خودکش حملہ کے بعد پولیس فورس کی تنظیم نو ہورہی ہے جب کہ معاشی بحران شدید ہے۔ اس صورتحال میں اسمبلی کی فوری تاریخ کا اعلان ممکن نہیں ہے۔
وزارت دفاع ، وزارت داخلہ کے حکام اور جی ایچ کیو کے حکام نے بھی انتخابات کی سیکیورٹی کے لیے مسلح دستوں کی فراہمی سے انکار کر دیا ہے۔
خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں میں عام انتخابات کے موقع پر دہشت گردی کی بڑی وارداتوں کا خدشہ ظاہر کیا۔ اس کے ساتھ عدلیہ نے بھی اپنے عملہ کو فوری طور پر انتخابی فرائض کے لیے فارغ کرنے سے منع کردیا۔
ابھی یہ بحث جاری تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے عہدہ کے تقدس کو نظرانداز کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو خط تحریرکیا کہ کمیشن فوری طور پر انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرے۔ نئی صورتحال میں مخلوط حکومت میں بھی پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کے بارے میں اتفاق رائے نظر نہیں آیا۔
عمران خان حکومت کی سابقہ معاشی پالیسیاں موجودہ مخلوط حکومت کو ورثے میں ملی ہیں۔ یوکرین اور روس کی جنگ سے پاکستان متاثر ہوا۔ سیلابوں نے ملکی معیشت کو تباہی کا شکار کیا۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے ملک میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود پاکستان آنے کا رسک نہیں لیا، وہ لندن سے اپنے بھائی کی حکومت کو ریگولیٹ کرنے میں مشغول ہیں۔
یوں لندن کی ڈاکٹرائن اور میاں شہباز شریف اور ان کے ہم نواؤں کی ڈاکٹرائن میں تضادات پیدا ہوئے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ماہرین کو ان کی شرائط پر معاہدہ پر تیار کیا ۔
یوں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ سے بنیادی اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ میاں نواز شریف مفتاح اسماعیل سے بدگمان ہوئے اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنے ، انھوں نے آئی ایم ایف کی شرائط کو نظرانداز کیا اور دوست ممالک سے مدد مانگی مگر مفتاح اسماعیل کی اس بات کی گہرائی تک نہ پہنچ سکے۔
اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے ، تمام ممالک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی منشا کے بغیر امداد نہیں دیں گے، یوں معاشی بحران شدید ہوا۔ موجودہ حکومت اس بحران کے خاتمہ اور بین الاقوامی منظرنامہ میں ہونے والی تبدیلیوں کو نہ سمجھ سکی یا اس بناء پر سمجھنے کی کوشش نہیں کی ، یوں ڈیپ اسٹیٹ کے مفادات متاثر ہوںگے اور ڈیپ اسٹیٹ کسی اور وزیر اعظم کے انتخاب میں لگ جائے گی۔ اس صورتحال کا فائدہ تحریک انصاف کے بھرپور طریقہ سے اٹھایا۔
حکمراں اتحاد میں شامل جماعتیں عمران خان کے بیانیہ سے مقابلہ میں دوسرے بیانیہ کو مقبول عام نہ بناسکیں۔ مریم نواز واپس آئیں، وہ گزشتہ دنوں بہاولپور اور ملتان ڈویژن کے دوروں پر تھیں۔ انھیں اندازہ ہوا ہوگا کہ ہواؤں کا رخ دوسری طرف ہے، یوں اب انتخابات کے التواء کے بارے میں سوچ بچار ہورہا ہے ۔ یہ حقیقت تو ہے کہ ملک مسلسل انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
بھارت میں راجہ سبھا کے انتخابات کے بعد ریاستوں میں انتخاب کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے لیکن بھارت کے سابق صدر پرتاب مکھرجی نے مسلسل انتخابات کو معیشت اور اچھی طرز حکومت کے لیے نقصان دہ قرار دیا تھا۔ موجودہ وزیر اعظم مودی بھی کئی بار مسلسل انتخابات کے انعقاد کے بارے میں تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔
بہرحال پاکستان میں بعض حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری شروع ہونے والی ہے، اس کے نتائج کے بعد حلقہ بندیاں ہونا ضروری ہیں، یوں اکتوبر ، نومبر سے پہلے عام انتخابات ممکن نہیں ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین حکومت ہے۔
اعلیٰ عدالتیں مسلسل حکومتی فیصلوں کو مسترد کر رہی ہیں، یوں ایک ہی راستہ ہے کہ وفاقی حکومت پہل کرے ، انتخابی تاریخ کے انعقاد کے لیے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرے۔ عمران خان اس کانفرنس میں شرکت کریں اور تمام جماعتیں وسیع تر مفاد میں انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کریں تاکہ کم از کم سیاسی بحران تو کم ہوجائے۔