چین دوست یا کچھ اور

ہم سب کو بتایا جاتا ہے کہ چین ہمارا سب سے قریبی دوست ہے


مزمل سہروردی February 16, 2023
[email protected]

آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان آرہا ہے۔ یہ حقیقت سب کے سامنے ہے، لیکن میں ایک اور پہلو کی طرف سب کی توجہ چاہتا ہوں۔ ہم سب کو بتایا جاتا ہے کہ چین ہمارا سب سے قریبی دوست ہے۔

پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری ہے۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ چین کی دوستی کسی شک و وشبہ سے بالاتر ہے۔

چین ہمارا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ اب کشمیر کے بعد سی پیک کو پاکستان کی معاشی شہ رگ بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے اندر عام آدمی بھی امریکا سے نفرت اور چین سے محبت کرتا ہے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج پاکستان جن معاشی مسائل کا شکار ہے، اس کا حل آئی ایم ایف کے پاس ہے نہ ورلڈ بینک کے پاس ہے اور نہ ہی امریکا کے پاس ہے۔ پاکستان نے اس وقت سب سے زیادہ قرضہ چین سے لیا ہوا ہے۔

ان قرضوں کی واپسی کے لیے پاکستان پر ہر وقت دباؤ رہتا ہے،ہم ہر ماہ قرضوں کی جو قسطیں ادا کرتے ہیں، ان کا بڑا حصہ ہم نے چین کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ پاکستانی معیشت پر سب سے زیادہ بوجھ چینی قرضوں کا ہے۔

یہ درست ہے کہ جب پاکستان اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ تھی، تب ہم نے توانائی کے منصوبے لگانے کے لیے یہ قرضے حاصل کیے تھے لیکن ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث مالی معاملات خراب ہو گئے۔

ہم اب یہ قرضے واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ان کی ادائیگی نے پاکستانی معیشت کو گلے سے جکڑ لیا ہے۔

امریکا اور عالمی مالیاتی اداروں کا یہی موقف ہے کہ ہم آپ کو چین کا قرضہ واپس کرنے کے لیے قرضہ یا گرانٹس نہیں دے سکتے۔ یہ صورتحال آج کی نہیں ہے،عمران خان کے دور وزارت عظمیٰ میں جب وہ آئی ایم ایف کے پاس جا رہے تھے تو اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح بیان دیا تھا کہ ہم چین کو قسطیں دینے کے لیے پاکستان کو قرضہ نہیں دے سکتے۔

اس وقت آئی ایم ایف نے پاکستان سے سی پیک کے تمام معاہدے بھی مانگ لیے تھے اور کہا تھا کہ پاکستان نے چین سے جو بھی قرضے لیے ہوئے ہیں، ان کو سامنے لایا جائے، اس لیے امریکا اور مغرب کا یہ آج کا موقف نہیں ہے کہ آپ ہم سے پیسے لے کر چین کو نہیں دے سکتے۔

نائن الیون کے بعد جب ہم مغرب کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسٹرٹیجک پارٹنر بنے تھے، مغرب نے پیرس کلب سے پاکستان کے قرضے نہایت آسان شرائط پر ری شیڈول کر دیے تھے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی اسی ری شیڈیول کی وجہ سے پاکستان پر ان قرضوں کا بوجھ نہیں ہے، اس کے علاوہ جب بھی ہم مغرب کے ساتھ گئے ہیں۔

اس نے نہایت آسان شرائط پر قرضے اور گرانٹس دی ہیں بلکہ امداد بھی ملی ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ عرصہ مغرب کے ساتھ رہنے کے باوجود ہم مغرب کے قرضوں کے دباؤ میں نہیں ہیں، جب کہ چین کے ساتھ صورتحال میں فرق ہے۔

پاکستان نے بجلی کے پلانٹ لگانے کے لیے چین سے مہنگے قرضے لیے ہیں۔ آج ملک میں روپے کی قدر گرنے کی وجہ سے یہ قرضے مزید مہنگے ہو گئے ہیں۔

چینی بینکوں نے بلند شرح سود پر پاکستان کو قرضے دیے جو آج ہمارے لیے بہت مشکل بن گئے ہیں، اس لیے آج پاکستان کو چین سے باہمی قرضوں میں ریلیف درکار ہے ، جو ابھی تک چین دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

چین کو پاکستان کے قرضے پیرس کلب کی طرح آسان شرائط پر ری شیڈول کر نے چاہیے، چین کو سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ قرضے ری شیڈول نہیں کرے گا تو پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ہے۔ پاکستان آج ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا نظر آرہا ہے، اور امریکا یا یورپ، سعودی عرب ، نہیں بلکہ صرف چین ہی ہم کو اس مشکل سے نکال سکتا ہے۔

اگر آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے چین ہمارے قرضے ری شیڈول کر دیتا تو پاکستان کو اس طرح آئی ایم ایف کے سامنے سرنگوں نہ ہونا پڑتا، ناک سے لکیریں نکالنی نہ پڑتیں۔ چین نے تو جو قرضے رول اوور کرنے تھے وہ بھی نہیں کیے ، ایسا کرنے کے لیے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کی شرط عائد کی جاتی رہی ۔

حالانکہ باہمی قرضوں کے لیے یہ کوئی لازمی نہیں، چین چاہتا تو یہ کر سکتا تھا بلکہ اگر چین آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے پاکستان کو ری شیڈول کر دیتا تو منظر نامہ ہی بدل جاتا۔ ہماری ضروریات کم ہو جاتیں۔ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ بہتر بات کرنے کی پوزیشن میں آجاتے۔

شاید آپ کو یاد ہو سیلاب کے موقعے پر جب پاکستان کے وزیر خارجہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کو مل رہے تھے تو امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے کہاتھا کہ چین کو پاکستان کو قرضوں میں رعایت دینی چاہیے۔

اس لیے دنیا ہمیں بار بار کہہ رہی ہے کہ ایک طرف تو عالمی صف بندی میں آپ خود کو چینی لابی میں کہتے ہیں۔ دوسری طرف اس مشکل وقت میں چین آپ کو کوئی ریلیف دینے کے لیے بھی تیار نہیں، جائیں جا کر پہلے چین سے ریلیف لیں۔

اس لیے آج یہ سوال اہم ہے کہ کیا چین پاکستان کو ڈیفالٹ کروانا چاہتا ہے؟ کیا چین پاکستان کو ڈیفالٹ کروانے کی کسی بڑی گیم کا حصہ بن گیا ہے یا پاکستان کی حکومت کی پالیسی میں استحکام نہ ہونے کی وجہ سے چین کی حکومت کا رویہ سخت ہو گیا ہے۔

پاکستان اور چین کے باہمی قرضے اتنے بڑے نہیں ہیں کہ ان کو ری شیڈول کرنے سے چینی معیشت پر کوئی خاص اثر پڑے گا۔ چین کی معیشت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بہت معمولی ہیں، پاکستان کے لیے بہت بڑے ہیں۔ جو لوگ سری لنکا کے ڈیفالٹ کی مثال دیتے ہیں۔

ان کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ سری لنکا بھی چین کے قرضوں کی وجہ سے ڈیفالٹ ہوا تھا۔ تب بھی مغرب کا یہی موقف تھا کہ چین کے قرضوں کی واپسی کے لیے سری لنکا کی مدد نہیں کی جا سکتی لیکن مشکل حالات کے باوجود چین نے سری لنکا کو بھی کوئی ریلیف نہیں دیا۔

اگر یہی صورتحال پاکستان کی امریکا کے ساتھ ہوتی تو پورے ملک میں امریکا کے خلاف ایک طوفان آگیا ہوتا۔ امریکا مردہ باد کے نعرے لگ جاتے۔ لیکن عجیب بات ہے کوئی چین کے قرضوں کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔

یہ بھی چین کی کامیابی ہے، وہ اپنے بارے میں بات ہی نہیں ہونے دیتا۔ لیکن آج وقت آگیا ہے کہ چینی قرضوں اور چین سے دوستی کے بارے میں بات کی جائے۔آج چین بھی پاکستان کو قرضوں کی مد میں ریلیف نہیں دے گا تو پھر کیا ہوگا؟ پاکستان کا ڈیفالٹ کس کے مفاد میں ہے؟

اس صورتحال میں یہ طے کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ چین ہمارا دوست ہے بھی یا نہیں۔ ویسے تو چین اور امریکا کی لڑائی نظر آتی ہے لیکن کہیں پاکستان کے معاملے میں دونوں ایک پیج پر تو نہیں ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ اس پہلو کو سامنے رکھ کر چین کی پالیسی اور مفادات کی حرکیات پر کھل کر بات کی جائے ورنہ دیر ہو جائے گی۔

اگر پاکستان کی حکومتوں کی پالیسیوں نے چین کو ناراض کیا ہے تو اس کی حقیقت بھی سامنے آنی چاہیے اور چین کو ناراض کرنے والے حکمرانوں کا کردار بھی سامنے آنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں