کہیں تو رک جائیے
عمران خان کے بیانیے کے ساتھ ان کا موقف بھی کبھی ایک جیسا نہیں رہتا
16 دسمبر1971کو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بقیہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالتے ہی کوشش شروع کر دی کہ پاکستانی عوام بنگلہ دیش کے قیام کو منظور کر لیں۔ 1973میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو دنیائے اسلام کی تمام قیادت لاہور اُمڈ آئی۔اس وقت تک پاکستان نے سرکاری طور پر بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
پاکستان بھر میں طلبائ،وکلاء اور زندگی کے اکثر شعبوں سے افراد نے ایک زبردست تحریک چلائی۔اس تحریک کا صرف ایک نعرہ تھا، بنگلہ دیش نامنظور۔اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقعے پر بھٹو صاحب کو موقع ہاتھ آ گیا اور بنگلہ دیش کو سرکاری طور پر تسلیم کرتے ہوئے نوزائیدہ بنگلہ دیش کے صدر جناب شیخ مجیب الرحمٰن کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دے دی۔
شیخ صاحب نے دعوت نامے کو قبول کیا اور کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور پہنچ گئے۔لاہور کے ہوائی اڈے پر صحافیوں نے جناب شیخ مجیب صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔
انھوں نے اس کا جواب اثبات میں دیا تو صحافیوں نے مزید پوچھا کہ آپ کے ملک کے عوام پاکستان کے خلاف گہری مخاصمت رکھتے ہیں،کیا وہ اچھے تعلقات بنانے کی وجہ سے آپ سے ناراض نہیں ہو جائیں گے۔اس پر شیخ مجیب الرحٰمٰن نے بڑی پتے کی بات کی کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہوتا ہے۔
اتوار 12فروری 2023کو جناب عمران خان نے بھی عوام کے حافظے سے کھیلتے ہوئے اپنے ایک بیان میں پچھلے تمام بیانات سے پہلو تہی کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت گرانے میں امریکا کا کوئی ہاتھ نہیں۔یہ سب کچھ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کا کیا دھرا ہے۔
یہ تو اب کوئی راز نہیں رہا کہ جناب عمران خان کو سائفر کا پتہ تھا اور یہ بھی پتہ تھا کہ اس سائفر میں وہ چیز موجود نہیں ہے ، جس کا وہ پرچار کرنا چاہتے تھے لیکن جب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سودے بازی کا آپشن فیل ہوگیا تو انھوں نے سائفر پر سیاسی کھیل کا آغاز کر دیا، ایسا نہیں ہوسکتا کہ جناب عمران خان نے تنہا اس کا فیصلہ لیا ہو،ان کے انتہائی قریبی ساتھی بھی اس کھیل میں شریک تھے ۔
انھوں نے اسلام آباد کے ایک جلسے میں دورانِ تقریر بھٹو صاحب کے انداز میں جیب سے سائفر کی کاپی نکال کر کہا کہ ان کی حکومت گرانے کے لیے واشنگٹن امریکا میں سازش ہوئی۔
تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور جناب عمران خان کی حکومت رخصت ہو گئی۔حکومت سے نکلنے کے بعد جناب عمران خان نے کئی جلسے کیے۔دو دفعہ لانگ مارچ کے ذریعے شرکاء کو اسلام آباد لانے کی کوشش بھی کی جس میں وہ کامیاب نہ ہوئے۔
لانگ مارچ کے اہداف تو حاصل نہ ہو سکے لیکن جناب عمران خان یہ بیانیہ فروخت کرنے میں کامیاب ہوئے کہ ان کی حکومت کو امریکی سازش کے تحت گرایا گیا۔پی ٹی آئی میڈیا ونگ نے سوشل میڈیا پر رجیم چینج اور امپورٹڈ حکومت کا ٹرینڈ چلایا۔یہ بیانیہ بہت زور شور اور تسلسل اور کامیابی سے پھیلایا گیا۔
جناب عمران خان حکومت میں رہتے تو پی ٹی آئی کی نا اہل ٹیم اور اس کی خارجہ اور داخلہ پالیسی پاکستان کو شدید نقصان پہنچا سکتی تھی ۔آج تک ایسا نہیں ہوا کہ حکومت کے دوران کسی وزیرِ اعظم کی اپنی پارٹی کے بیس سے زائد قومی اسمبلی کے ارکان نے ان کے خلاف بغاوت کی ہو لیکن یہ امرِ واقعہ ہے کہ مشکل وقت میں جناب عمران خان کی اپنی پارٹی کے بیس سے زائد ارکان انھیں چھوڑ گئے۔
جو کچھ بھی ہوا قوائد و ضوابط کے تحت ہوا لیکن جناب عمران خان کے امریکی سازش کے بیانیے نے انھیں ایک دفعہ پھر مقبول لیڈر بنا دیا۔حکومت میں رہتے ہوئے پی ٹی آئی زیادہ تر ضمنی الیکشن ہار گئی تھی لیکن اس بیانیے کی قبولیت کے بعد پی ٹی آئی اکثر ضمنی الیکشن جیت گئی۔
حکومت میں رہتے ہوئے جناب عمران خان اور پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنماء یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں،گویا جناب عمران خان کو افواج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے یہ بھی کہا کہ جنرل باجوہ نے ہماری بڑی مدد کی،کہ پاکستان کی فوج اور جنرل باجوہ میرے ساتھ کھڑے ہیں،کہ جنرل باجوہ سے زیادہ پرو ڈیموکریٹک جنرل نہیں دیکھا۔ایک مرتبہ کہا کہ جنرل باجوہ نہایت سلجھے ہوئے،ٹھہراؤ والے اور جمہوریت پر پختہ یقین رکھنے والے جنرل ہیں۔ حکومت سے نکلنے کے بعد جناب عمران خان نے امریکی سازش کا اتنی تسلسل سے ذکر کیا کہ ان کے چاہنے والوں نے گاڑیوں کے پیچھے امریکی غلامی سے نجات،امپورٹڈ حکومت اور آزادی کے حق میں نعرے لکھنے شروع کر دیے حتیٰ کہ ایک لانگ مارچ کا نام ہی آزادی مارچ رکھا گیا۔
گویا امریکی غلامی سے نجات ضروری ہے۔وہ مسلسل آٹھ نو ماہ اپنے فالورز کو یہ بتاتے رہے کہ دراصل پاکستان میں تمام برائیوں کی جڑ امریکا ہے لیکن بارہ فروری کو امریکی ٹی وی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے امریکی سازش اور امریکی غلامی کے سارے بیانیے سے پہلو تہی کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے ان کی حکومت نہیں گرائی اور یہ کہ وہ تو امریکا سے بہت اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔
اقتدار میں آنے سے چند دن پہلے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف کی گورنمنٹ بن گئی تو میں کبھی یہ بہانہ نہیں بناؤں گا کہ میں بے بس ہوں،فوج کچھ کرنے نہیں دیتی،انھوں نے کہا کہ یہ تو کوئی بہانہ نہیں۔اگر میں ایسا کہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں نا اہل Incompetent ہوں،کہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں Deserveہی نہیں کرتا کہ وزیرِ اعظم بنوں۔جناب عمران خاں صاحب نے اپنے موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے واشنگٹن کے ساتھ مل کر سازش کی۔ پھر فرمایا کہ جناب آصف علی زرداری نے سازش کی۔
یہ بھی کہا کہ میری حکومت گرانے میں سب سے زیادہ زور محسن نقوی نے لگایا۔ ان کا بیانیہ تبدیل ہی ہوتا رہا۔ اس میں بالکل دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ وہ ایک پاپولسٹ لیڈر ہیں، اس لیے وہ موقف تبدیل کرنے میں ذرہ برابر جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ بہت ادب سے دست بستہ درخواست ہے کہ اپنے کسی موقف پر رک جائیں ۔ کہیں وہ بھی جناب شیخ مجیب الرحٰمن کی طرح عوام کے حافظے کو بہت کمزور تو نہیں سمجھتے۔