ضمانت کیس اور نظام عدل

جب اہم لوگ قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہوں، قانون کے سامنے سرنگوں ہوں گے تو لوگوں کا قانون اور نظام عدل پر اعتماد بڑھے گا


مزمل سہروردی February 17, 2023
[email protected]

عمران خان کی ضمانت کے مقدمات ہمیشہ ہی نظام عدل کے لیے اہم بن جاتے ہیں۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی معزز عدالت عمران خان کو ضمانت دینے کے لیے رات دیر تک سماعت کرتی رہی ہے۔

اس سے پہلے عمران خان کو ضمانت دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ چھٹی والے دن بھی کھلتی رہی ہے اور معززجج صاحب گھر سے سماعت کے لیے آتے رہے ہیں، یوں دیکھا جائے تو عمران خان کی ضمانت کے مقدمات نے عدلیہ سے امتحان میں ہی ڈالا ہے۔

میں رات کو عدالتیں کھلنے کے خلاف نہیں ہوں بلکہ میری تو رائے یہ ہے کہ پاکستان میں مقدمات اس قدر بڑی تعداد میں زیر التوا ہیںکہ ان کو ختم کرنے کے لیے شام کی عدالتیں شروع کرنا ہوںگی تاکہ عدالتوں پر سے مقدمات کا بوجھ ختم ہو سکے۔

زیرالتوا مقدمات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ دن کی عدالتیں بروقت کیس نمٹانے میںکامیاب نہیں ہو رہیں، اس لیے ان کی مدد کے لیے شام کی عدالتیں بھی کھولنی ہوںگی تا کہ مقدمات جلد نبٹائے جا سکیں۔ پاکستان کے اس قدر مالی وسائل نہیں ہیں کہ نئی عدالتیں بنائی جائیں،اس لیے موجودہ عدالتوں میں ہی نائٹ شفٹ شرو ع کرنی چاہیے، تاکہ تاریخ پر تاریخ کا کلچر ختم ہو سکے۔

پنجابی فلم کا ایک مشہور ڈائیلاگ ہے کہ جرم ساری رات اور انصاف صرف آٹھ گھنٹے، بہرحال یہ فلمی ڈائیلاگ ہے لیکن اس میں چھپے طنز کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ عدالتیں سہ پہر چار بجے بند ہو جاتی ہیں، ان کا رات کو کھلنا غیر معمولی بات ہوتی ہے، اور صرف غیر معمولی مقدمات کے لیے ہی عدالتیں رات کو کھلتی ہیں۔

اب کیا عمران خان کی ضمانت کے معاملات بھی اہم مقدمات میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں، یہ ایک الگ سوال ہے۔ ملک میں غیر آئینی طور پر اسمبلیاں توڑ دی جائیں، جمہوریت پر شب خون مار دیا جائے تو عدالتوں کا رات کو کھلنا سمجھ آتا ہے لیکن صرف فرد واحد کی ضمانت کے مقدمہ کے لیے عدالتوں کا رات کو کھولنا اور ریلیف دینا یہی ظاہر کرتا کہ عمران خان کی ضمانت کا کیس غیرمعمولی اہمیت کی فہرست میں شامل ہے۔

پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں نظام عدل یکساں انصاف کے سنہری اصول پر استوار ہے۔ اسلام کا نظام انصاف کی بنیاد ہی یکساں نظام انصاف پر رکھ گئی ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پوری دنیا نے اسلام کے یکساں انصاف کے تصور کو ہی قبول کیا ہے۔

عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے پر، امیر کو غریب پر کوئی برتری نہیں ہے۔ اسی طرح اہم کو غیر اہم پر کوئی برتری نہیں ہے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔

قانون کی کتابوں میں وی آئی پی انصاف کی نہ تو کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی اس کا کوئی تصور موجود ہے۔ قانون کی نظر میں کوئی اہم ہوتا ہے نہ کوئی غیر اہم۔ اس لیے اگر کسی اہم کی درخواست ضمانت کے لیے رات کو عدالت کھلے گی تو یہ تصور یکساں انصاف کی نفی ہوگا۔

نظام انصاف میں مقبول اور غیر مقبول کا بھی کوئی فرق نہیں ہوتا۔ کیا عوامی مقبولیت یا شہرت عدلیہ کو مجبو رکر سکتی ہے کہ کسی کو غیر معمولی انصاف دیا جائے۔

آجکل اکثر عدالتوں میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ بہت مقبول ہیں، اس لیے ہم ان کے کیس کو اہمیت دے رہے ہیں، کیا کسی غیر مقبول کے کیس کم اہمیت کے حامل ہیں؟ کیا ووٹوں کی تعداد کسی کو قانون کی نظر میں اہم بنا دیتی ہے؟

کیا عدالت میں پیش ہوئے بغیر ضمانت مل سکتی ہے؟ا س بارے میں قانون واضح ہے، قانون میں کوئی رعایت موجود نہیں ہے۔ اگر ملزم عدالت میں موجود نہیں ہے توا س کا ضمانت کا کیس سنا ہی نہیں جاتا، درخواست اسی لمحے خارج ہو جاتی ہے۔ ملک میں عا م شہریوں کے ساتھ روزانہ عدالتوں میں یہی سلوک ہوتا ہے۔

کتنی عدالتوں میں جج صاحبان ملزمان کو پیش ہونے کی مہلت دیتے ہیں؟ ملزم دس منٹ لیٹ ہو جائے تو ضمانت منسوخ ہو جاتی ہے، ضمانت کی درخواست مسترد کر دی جاتی ہے۔

اس لیے جب عام شہریوں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے تو اہم لوگوں کے ساتھ بھی قانون کے مطابق ہی سلوک ہو نا چاہیے۔ جب دوپہردو بجے کے بعد عدالتوں میں ضما نت کی درخواستیں نہیں سنی جاتیںاور اگلے دن کی تاریخ دے دی جاتی ہے تو کسی'' اہم'' کا ضمانت کا کیس سہ پہر یا شام کیوں سنا جائے۔

کیا ملک کے عام شہری کو بیماری کی بنیاد پر ضمانت کیس میں عدالت میں پیش ہونے سے استثنا حاصل ہے؟ کیا آصف زرداری کو بیماری میں ضمانت کے مقدمے میں عدالت میں پیش ہونے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔

پھر بیماری کی بنیاد پر کسی ''خاص'' کو ریلیف کیسے دیا جا سکتا ہے۔ آپ گرفتار ہو کر اسپتال داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن بیماری کی بنیاد پر قانون سے بھاگ نہیں سکتے۔ بعد از گرفتاری بیماری اور خرابی صحت کی بنیاد پر ضمانت مل سکتی ہے، عدالتیں روز دیتی بھی ہیں۔ بیماری کی بنیاد پر ضمانت قبل از گرفتاری بھی مل سکتی ہے۔

لیکن اس کے لیے بیماری کی تصدیق سرکاری اسپتال سے ہونا ضروری ہے۔ اپنے پرائیویٹ اسپتال کی رپورٹ کو عدالتیں نہیں مانتیں، عام شہریوں کے مقدمات میں یہی اصول لاگو ہیں، اس لیے اہم اور غیر اہم سب پر یہی اصول لاگو ہوگا، یہی انصاف کا تصور ہے۔

کسی ایک کا لاڈلا ہونے کا تاثر نظام عدل کی ساکھ کے لیے کوئی اچھا نہیں۔ کسی ایک مقدمے میں خصوصی دلچسپی اور کسی کے لیے روٹین کا معاملہ انصاف کے منافی ہے۔

کوئی رعایت کسی عام شہری کے لیے تو پھر بھی قابل قبول سکتی ہے لیکن کسی خاص کے لیے تو بالکل قابل قبول نہیں ہونی چاہیے۔اس سے میڈیا میں بھی کوئی اچھا تاثر نہیں جاتا۔نظام انصاف کے بارے میں عام آدمی کی پہلے ہی کوئی اچھی رائے نہیں۔ لوگ مقدمات میں تاخیر کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔

تاریخ پر تاریخ کے بارے میں لوگوں کی رائے کا مجھے اندازہ ہے کہ عدلیہ کے ذمے داروں کو بھی اس کا علم ہے۔ لہٰذا حالات کو سمجھنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔

جب اہم لوگ قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہوںگے۔ قانون کے سامنے سرنگوں ہوںگے تو لوگوں کا قانون اور نظام عدل پر اعتماد بڑھے گا۔ میں اہم لوگوں کو انصاف ملنے کے خلاف نہیں ہوں۔ انصاف پر ان کا ابھی اتنا ہی حق ہے جتنا عام شہری کا ہے۔ لیکن عام شہری کو یہ نظرآنا چاہیے کہ جو سلوک اس کے ساتھ ہوتا ہے، وہی اہم کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔

اگر اس کی ضمانت رات کو نہیں سنی جا سکتی تو کسی اہم کی بھی رات کو نہیں سنی جا سکتی۔ اگر اس کے لیے عدالتیں چھٹی والے دن بند ہوتی ہیں تو اہم لوگوں کے لیے بھی چھٹی والے دن بند ہوتی ہیں۔ اگر وہ عدالت میں پیش ہونے پر مجبور ہے تو اہم لوگ بھی پیش ہونے کے لیے ایسے ہی کھڑے نظر آنے چاہیے، ان کا کیس بھی باری سے سننا چاہیے، انھیں انتظار میں کھڑے ہوتا نظر آنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں