قوم کے معماروں کے استاد لاجواب
پرانی ٹیچنگ کی روایات کے برخلاف نئے انداز سے پڑھانے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے
ابھی کچھ عرصہ قبل ہی کراچی کے ایک اسکول میں اردو بولنے پر بچے کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور اس کے بعد کیا کچھ ہوا ، یہ ایک لمبی تفصیل ہے۔
ملک بھر میں سرکاری اسکولوں کے علاوہ اسکولزکو انگریزی میڈیم ہی کہا جاتا ہے جو عام طور پر نجی ہی ہوتے ہیں ، ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے یا تعلیم مکمل کرلینے والے بچے اور بڑے کیا انگریزی زبان بولنے میں ماہر ہیں؟
ہم بہت سے صدمات میں گھرے ہیں خدشات اس کے اوپر لاتعداد مکھیوں کی صورت میں بھنبھنا رہے ہیں۔ ہم ان صدمات اور خدشات سے کیسے نجات حاصل کرسکتے ہیں، ہم اپنے قدموں پر کب اور کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں جب کہ ہم اپنی زبان سے ہی مکر رہے ہیں۔
یہ ایک دلچسپ پہلو ہے کہ بیک وقت ہم کئی کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش کرکے تہذیب یافتہ ہونے کے معیار تک پہنچ کر تمغے سجانا چاہتے ہیں۔
تسنیم ثنا ایک استاد ہیں جو امریکا میں ایلیمنٹری اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ ہم پاکستانی نصاب کے حوالے سے جو تعلیم یا ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔
بیرون ملک اس کے معیار کچھ الگ ہیں ، امریکا میں یہ تعلیم یونٹس کے حوالے سے ہے، تسنیم نے پاکستان سے جو تعلیم حاصل کی اس کے لیے انھیں امریکا میں دس یونٹس کا کریڈٹ ملا تھا۔ اس کے بعد ایک سو بیس یونٹس کی تعلیم انھوں نے امریکا کی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اس کے بعد امریکی یونیورسٹی نے انھیں بی اے کی امریکی ڈگری دی۔
اس کے بعد کیونکہ ان کو تدریس کے شعبے سے لگاؤ تھا تو انھوں نے دو سال کے ٹیچنگ کریڈیشنلز حاصل کیے۔ اپنی پڑھائی کو جلد ختم کرلینے اور اپنے مقصد کو پانے کے لیے انھوں نے ہر سیمسٹر میں پندرہ یونٹس لیے۔ انھوں نے اس دوران وہ مضامین بھی پڑھے جو وہ پہلے بھی پڑھ چکی تھیں لیکن اب کی بار وہ مضامین انھوں نے پڑھانے کے انداز میں پڑھے۔
پڑھائی کے اس مرحلے کے بعد پانچ سے سات پبلک ٹیچنگ سروس کمیشن کے امتحانات پاس کیے اس کے بعد انھیں ایلمنٹری اسکول جسے ہم پاکستان میں پرائمری اسکول کہتے ہیں نوکری ملی۔ سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا بلکہ نصاب اور ہدایات میں ماسٹرز کیا اور اب پی ایچ ڈی کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس تمام تفصیل کا ذکر دراصل ایک دکھ ہے۔
امریکا میں پڑھانے والی اس پاکستانی نژاد استانی کو فخر ہے کہ وہ چھوٹے بچوں کو پڑھاتی ہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے ہی وہ پاکستان تشریف لائیں تو انھیں ایک عجیب سے رویے کا سامنا کرنا پڑا۔
انھیں پرائمری اسکول ٹیچر یعنی چھوٹے بچوں کو پڑھانے والی معلمہ کا حوالہ دے کر تعارف کروایا جاتا جو ان کے لیے قابل فخر ہے لیکن دکھ اس بات کا تھا کہ اس تعارف میں کہیں تمسخر بھی ہوتا ، گویا انھوں نے اتنا پڑھ لکھ کر ایک پرائمری اسکول میں نوکری کی یا پڑھا رہی ہیں۔ انھیں دوسرے پاکستان میں پڑھانے والے کالجز یا یونیورسٹی میں پڑھانے والے لیکچررز اور پروفیسرز کا حوالہ دیا جاتا۔
ہم آج بھی بہت پیچھے کھڑے ہیں ، ہم نے تو سنا تھا کہ جاپان میں چھوٹے بچوں کو پڑھانے کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ استاد متعین کیے جاتے ہیں لیکن یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے بچوں کی پڑھائی کے معاملے میں اس قدر سنجیدہ کیوں ہیں۔
اس لیے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوم کے معمار تو آج کے یہی چھوٹے بچے ہیں کہ جن کے لیے کوئی چھوٹی سی خوب صورت گڑیا سی میٹرک انٹر پاس فر فر انگریزی بولنے والی ٹیچرز کافی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ ہی بہتر ہیں جو زندگی کے نشیب و فراز کو جانتے بوجھتے اپنے تجربات کی روشنی میں بچوں کے معصوم ذہنوں کی تربیت کریں گے۔
تسنیم ثنا کے مطابق ہر مہینے ڈیولپمنٹ ٹیچنگ کی ورکشاپس اساتذہ کے لیے کرائی جاتی ہیں تاکہ وہ نئی ریسرچ سے باخبر رہیں۔ آج کے گان کی ٹیچنگ اسٹریٹجیز پر زور دیا جا رہا ہے کہ گان کوآپریٹیو لرننگ اسٹرکچر کہا جاتا ہے۔
تسنیم کا کہنا ہے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان میں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ پرائمری اسکول کے بچوں کو تعلیم دیں۔ بچوں کے نفسیات دانوں کو اسکولوں میں تعینات کیا جائے اور وہ ہر بچے کی ذہنی کیفیت کو سمجھیں اور اساتذہ کو نصاب بنانے میں مدد دیں۔ پڑھائی کے ساتھ سوشل، اموشنل ڈیولپمنٹ کو بھی رکھا جائے۔
کراچی کے ایک بچے کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اسے سوشل میڈیا کی وجہ سے خاصی شہرت حاصل ہوئی جب کہ اس طرح کے لاتعداد واقعات آئے دن بچوں کے ساتھ پیش آتے ہی رہتے ہیں۔
یہاں یہ ذکر اردو اور انگریزی زبان کے حوالے سے نہیں بلکہ بچے کی نفسیات کے حوالے سے ہے۔ ایک بچہ جس نے ابھی دنیا کو سمجھنا بھی شروع نہ کیا ہو اسے دنیا میں مذاق بنا کر پیش کیا جائے یا کوشش کی جائے کہ وہ ڈر کر یا سہم کر اس حرکت یا غلطی سے باز آجائے جس کا وہ مرتکب ہو چکا ہے۔
ویسے تو یہ ایک عام پرانی جیسی عام اصطلاح میں پہلے اسکول کی روایت ہی کہا جاسکتا ہے، اس طرح بھی ہوا کرتا تھا کہ جس بچے نے سبق یاد نہ کیا اسے مرغا بنا دیا یا کلاس کے سارے بچے اس کے سرپر چپت لگا دیا کرتے تھے۔
اس طرح کے واقعات آپ کو پرانے مصنفین کے حالات زندگی پڑھنے سے مل سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے اسکول سرکاری ہوا کرتے تھے یا انگریز سرکار کے زمانے کے تھے بہرحال اس کے نتائج تو مثبت نظر آئے لیکن بدلتے رویوں اور حالات نے لوگوں کی شخصیات کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ چیزیں اچھائی اور برائی میں باہم کچھ اس طرح مدغم ہوگئی ہیں کہ شناخت مشکل ہے۔
پاکستان میں ایک نئے این ٹی ایس نظام کے تحت اساتذہ کے انتخاب کے لیے ٹیسٹ اور دیگر مراحل تو بظاہر مشکل اور دقت طلب نظر آتے ہیں۔
اب اس عرق ریزی کے بعد جس نئے انداز سے ان اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیچرز کے لیے جو ٹریننگ کورسز کروائے جا رہے ہیں اس کے بعد کیا مستقبل میں ہمیں اپنے سرکاری اسکولوں سے خاص کر پرائمری لیول سے ایسے بچے مل سکیں گے جو ہماری قوم کے لیے اعلیٰ معیار کا نشان بن سکیں۔
ہم پرامید ہیں کہ کچھ تو اچھا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پنجاب میں تعلیم کے حوالے سے پیش رفت دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہتر ہے لیکن اب سندھ میں خاص کر کراچی میں بظاہر تو اچھا نظر آ رہا ہے، پرانی ٹیچنگ کی روایات کے برخلاف نئے انداز سے پڑھانے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔
امید ہے کہ پاکستان میں پرائمری ٹیچرز کو قابل قدر نگاہوں سے دیکھا جائے اور انھیں کالجز اور یونیورسٹی کے اساتذہ کے مقابلے میں ایسے نہ برتا جائے جس کی شکایت پاکستانی امریکی نژاد اعلیٰ تعلیم یافتہ معلمہ نے کی تھی۔