قربانی
سیاسی جماعتیں افہام و تفہیم سے کام لیتے ہوئے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کی قربانی دیں
نپولین بوناپارٹ جب اپنی پہلی قید کے بعد جزیرہ البا سے نکلا تو اس کے ساتھ اس کے وفادار سپاہیوں کی صرف ایک مختصر جماعت تھی۔
فرانس کے اس معزول حکمراں کے عزائم یہ تھے کہ وہ فرانس کے تخت پر دوبارہ قبضہ کرے ، مگر اسے اپنے پہلے ہی معرکے میں فرانس کی سرکار کے بیس ہزار جوانوں کا سامنا کرنا پڑا ، اگرچہ نپولین دنیا کے انتہائی بہادر انسانوں میں شمار کیا جاتا ہے مگر اس نے اپنی بہادری اور طاقت کے زعم میں ایسا نہیں کیا کہ اپنی فوجی قوت کی کمی کا لحاظ نہ کرتے ہوئے حریف سے ٹکرا جائے۔
جب میدان میں دونوں فریق آمنے سامنے ہوئے تو حیران کن طور پر وہ اکیلا بالکل غیر مسلح حالت میں اپنی جماعت سے نکلا اور نہایت اطمینان کیساتھ مخالف فریق کی صفوں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
اس نے اپنے کوٹ کے بٹن کھولے اور اپنے سینے کو برہنہ کردیا۔ اس کے بعد بڑے جذباتی انداز میں اپنے مخالف سپاہیوں سے جن میں سے اکثر اس کے ماتحت رہ چکے تھے خطاب کرتے ہوئے بولا:'' تم میں سے کون وہ سپاہی ہے جو اپنے باپ کے ننگے سینے پر فائر کرنے پر تیار ہو؟''
نپولین کی اس جذباتی تقریر کا یہ اثر ہوا کہ ہر طرف سے ''کوئی نہیں، کوئی نہیں'' کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ تقریباً تمام سپاہی اپنی جماعت کو چھوڑ کر نپولین کی جماعت میں شامل ہوگئے اور نپولین بے سروسامانی کے باوجود مخالف پر حاوی اور فاتح ہوا۔
اس نے ملک فرانس کے تخت پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ حالاں کہ اس وقت وہ جس بے سروسامانی کی حالت میں تھا ، اس کے ساتھ اگر وہ فرانس کی فوجوں کے ساتھ لڑ جاتا تو شاید میدان جنگ میں اس کی لاش پڑی ہوئی نظر آتی ، لیکن اس نے اپنے جذبات پر قابو پایا حکمت و بصیرت سے کام لے کر فتح حاصل کی۔
آرمی کے پاس کتنا ہی ساز و سامان ہو لیکن خطرہ پیش آنے کی صورت میں اگر وہ گھبرا اٹھے تو اس کے اعصاب جواب دے جائیں گے اور وہ اس قابل نہیں رہے گی کہ صورت حال کے بارے میں سوچ بچار کرے اور حریف سے مقابلے کے لیے کوئی قابل اطمینان منصوبہ بندی کرسکے۔
اس کے برعکس اگر وہ خطرے کے وقت اپنے ذہن کو حاضر رکھے تو بہت جلد ایسا ہوگا کہ وہ خطرے کی اصل نوعیت کو سمجھ لے اور اپنے ممکنا ذرائع اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر وقت ان کے استعمال سے کامیابی حاصل کرلے۔تاریخ میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ کم تعداد اور کم طاقت والوں نے زیادہ تعداد اور زیادہ طاقت والوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دشمن ہمیشہ اس سے بہت کم طاقتور ہوتا ہے جتنا کہ وہ بظاہر دکھائی دیتا ہے۔ اس کائنات کا نظام کچھ اس ڈھب پر بنا ہوا ہے کہ کوئی شخص یا گروہ خواہ کتنا ہی طاقتور ہو جائے اس کے اندر کوئی نہ کوئی کمزوری ضرور موجود رہتی ہے۔
اسی کمزوری کو سمجھنے اور اسے استعمال کرکے دشمن پر حاوی ہونے کا نام ہی تو فتح ہے۔ کسی فریق کی واحد طاقت اس کے مخالف فریق کی کمزوری ہے، واضح رہے یہ طاقت ہمیشہ ہر ایک کو حاصل رہتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اپنی ذہانت ، صلاحیت اور ہنر کو استعمال کرنے کا فن جانتا ہو اور اپنے دشمن اسے کمال ہوشیاری سے آزماتے فتح حاصل کرے۔
اس پس منظر میں اگر وطن عزیز کے مجموعی حالات بالخصوص سیاسی و معاشی معاملات کا جائزہ لیں تو یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ سیاسی میدان میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی کمزوریوں کو بار بار اجاگر کرکے اور عوام الناس میں اس کا تواتر سے تذکرہ کرکے ایک دوسرے پر حاوی ہونے اور فتح پانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
حکمرانوں سے لے کر ان کے وزرا ، مشیر اور معاونین اپنے بیانوں، تقریروں اور انٹرویوز میں اپنے سب سے بڑے مخالف عمران خان کی کمزوریوں کے ایک ایک پہلو کو نمایاں کرکے انھیں عوام الناس کی نظروں میں گرانے کے لیے کوشاں میں تاکہ آیندہ انتخابات میں لوگ انھیں مسترد کردیں اور پی ڈی ایم کی جماعتیں دوبارہ اقتدار میں آ سکیں۔
بعینہ عمران خان بھی اپنے مخالف سیاسی رہنماؤں کی ہر ایک کمزوری و خامی کو پورے شد و مد کیساتھ طشت ازبام کرکے انھیں عوام الناس میں بدعنوان ، خائن اور دھوکے باز ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں تاکہ لوگوں میں ان کے مخالف سیاسی رہنماؤں کا وقار و اعتماد ختم کردیا جائے۔
خان صاحب نے پہلے پنجاب و کے پی کے کی اسمبلیاں توڑیں اس امید پر کہ وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالا جاسکے کہ وہ ملک میں عام انتخابات کا اعلان کردیں لیکن دونوں صوبوں کے گورنر آئین کے تحت انتخابات کی تاریخ دینے سے گریزاں ہیں اور انھوں نے ملک کے بگڑتے ہوئے معاشی حالات اور امن و امان کی خراب صورتحال کے پیش نظر الیکشن کمیشن کو خطوط لکھ کر چیف الیکشن کمیشن سے استدعا کی ہے کہ وہ اپنے طور پر حالات کا جائزہ لے کر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔
عمران خان نے شہباز حکومت پر دباؤ کو مزید بڑھانے کے لیے جیل بھرو تحریک کا اعلان کردیا ہے جس سے سیاسی کشمکش اور بحران میں اضافے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
ادھر پاکستان کی معاشی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئی ایم ایف نے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے، پٹرولیم مصنوعات پر 18 فی صد جی ایس ٹی لگانے، ٹیکس دائرے کو وسیع کرنے سمیت متعدد ایسی کڑی شرائط حکومت پاکستان کے سامنے رکھی ہیں کہ جن کے نفاذ سے گرانی کا ایک غیر معمولی طوفان اٹھے گا اور غریب آدمی، جو پہلے ہی غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے، کے لیے زندہ رہنا ناممکن ہوتا جائے گا، غربت بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر آجائے گی۔
معاشی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق حکمرانوں نے صورت حال کی نزاکت کو نہ سمجھا تو ملک معاشی دیوالیہ پن سے دوچار ہو سکتا ہے۔
حالات کی سنگینی کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوں کو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے استعمال کرنے کی بجائے پیش آمدہ خطرات کا ادراک کریں اور افہام و تفہیم سے کام لیتے ہوئے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کی قربانی دیں اور ملکی مفاد میں مل جل کر ٹھوس جامع اور دوررس نتائج کے حامل فیصلے کریں۔