تازہ ہوا کا جھونکا اور مسائل
ان متنازع انتخابات کو رد کرکے پھر نئے سرے سے بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں
پہلے والی ایم کیو ایم اور آج کی ایم کیو ایم میں فرق صاف ظاہر ہے۔ پہلے پاکستان اور خاص طور پر پاکستان کے معاشی انجن کراچی کے امن کو خاطر میں لائے بغیر جابجا ہڑتالیں دھرنے اور مظاہرے کیے جاتے تھے مگر آج کی ایم کیو ایم کے لیے پاکستان اور خاص طور پر کراچی کا امن ترقی اور خوشحالی سب سے اہم ہے۔
اس کی مثال اس طرح پیش کی جاسکتی ہے کہ جب گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم کی قیادت کو آگاہ کیا کہ جس تاریخ کو وہ دھرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں ان ہی دنوں کراچی کے قریب سمندر میں دنیا کے کئی ممالک کی نیوی پاکستان نیوی کے ساتھ بحری مشقیں کرنے والی ہے ، ایسے موقع پر کراچی میں امن کی سخت ضرورت ہے۔
ایم کیو ایم کے مجوزہ دھرنے کی وجہ سے شہر میں بدامنی کا ماحول پیدا ہونے کا احتمال ہے تو اس بات پر ایم کیو ایم کے قائد خالد مقبول صدیقی نے فوراً جواب دیا کہ '' ہمارے لیے پاکستان سب سے پہلے ہے اگر ایسا ہے تو ایم کیو ایم اپنا دھرنا ملتوی کردیتی ہے وہ آیندہ دنوں میں پھر دھرنا دے لے گی۔''
حیرت ہے ایم کیو ایم میں وطن کی محبت کا جادو کیسے سر چڑھ کر بول رہا ہے؟ پہلے تو ہر محفل میں یہ ترانہ پڑھا جاتا تھا '' سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا'' مگر اب تو یہ ہو گیا ہے کہ '' سارے جہاں سے اچھا پاکستاں ہمارا '' یہ سارا کمال دراصل قیادت کی تبدیلی کا نہیں ہے تو پھرکیا ہے۔
اس وقت مہنگائی نے تو ضرور لوگوں کو فکرمند کردیا ہے مگر اب کراچی کے لوگوں کے چہروں پر وہ پہلے جیسی پریشانی، خوف اور تشویش نظر نہیں آتی کیونکہ اب کراچی میں بوری بند لاشیں نہیں ملتیں۔ اب روز بیس سے پچیس آدمی نہیں مارے جاتے، جن کے مارے جانے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی، کتنے گھر اجڑ گئے اور کتنی دکانیں، فیکٹریاں اور کارخانے بند ہوگئے کوئی حساب نہیں۔ یہ سب کچھ ''را'' کے اشارے پر ہو رہا تھا اور اس کے سہولت کار ہمارے اپنے ہی لوگ تھے۔
ہمارے دشمن کی خفیہ ایجنسی کی تعریف کی جاتی اور ہماری اپنی ایجنسی کو برا بھلا کہا جاتا پھر ایک دن وہ آیا کہ جب کھلم کھلا '' پاکستان مردہ باد '' کا نعرہ بلند کیا گیا تب تو صاف ہو گیا کہ ایسا نعرہ لگانے والا ہرگز پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا۔
اس زہریلے نعرے کو ایم کیو ایم کے غیور نوجوان برداشت نہ کرسکے وہ تو وطن عزیز کے لیے جان تک دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں انھیں اپنے بزرگوں کی محنت کا احساس ہے وہ اپنے بزرگوں کی محنت کے پھل پاکستان کو کسی طرح بھی ضایع ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ دن تھا کہ ایم کیو ایم کے نوجوانوں نے پارٹی کی کمان خود اپنے ہاتھوں میں تھام لی اور ''را'' کے دوست کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔
تاہم برسوں تک پارٹی کے قائد رہنے والے کو خیرباد کہنا کوئی آسان بات نہ تھی مگر پاکستان اور صرف پاکستان کی خاطر اسے چھوڑ دیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا پھر اس کی لاکھ اپیلوں کے بعد بھی اس سے رجوع نہیں کیا۔ پاکستان اور کراچی کو تباہ و برباد کرنے کے ''را'' کے منصوبے کو ناکام بنانے کا سب سے پہلے کریڈٹ مصطفیٰ کمال کو ہی جاتا ہے۔
انھوں نے اور ان کے ساتھی انیس قائم خانی نے دبئی سے کراچی آ کر ایک پریس کانفرنس کی جس میں ''را'' کے اس گھناؤنے منصوبے کو بے نقاب کردیا۔
انھوں نے یہ کام تو کر دیا مگر یہ وہ وقت تھا جب اس وقت کی ایم کیو ایم کی قیادت کے خلاف بولنے والے کی کم سے کم سزا موت تھی۔
اس دن کے بعد سے حالات تبدیل ہونا شروع ہوگئے اور پھر تاریخ ساز 21 اگست کے دن قائد سے بے زار سرکردہ رہنماؤں نے بھی اس سے دوری اختیار کرلی۔ اس کے بعد نئی قیادت نے پارٹی کے منفی رویے کو مثبت سمت میں پھیر دیا۔ آج ایم کیو ایم آگے کی جانب بڑھ رہی ہے۔
اس کا منشور پاکستان کی تمام قومیتوں سے محبت، یگانگت اور پیار ہے۔ وہ تعصب اور صوبہ پرستی کی لعنت سے دور ہے۔ اس کے جواب میں پورے پاکستان سے اسے پیار، محبت اور خلوص کا پیغام ملا ہے۔ پرانی قیادت کا پارٹی سے سایہ ہٹنے کے بعد مصطفیٰ کمال ہی کیا ایم کیو ایم سے ٹوٹے تمام دھڑوں کے لیے اپنے مرکز یعنی ایم کیو ایم سے ملنا مقدر بن چکا تھا اور پھر مصطفیٰ کمال اپنی پاک سرزمین پارٹی کو چھوڑ کر مرکز سے آ ملے ادھر فاروق ستار بھی پھر سے بہادر آباد کے مکین بن گئے۔
اتحاد تو ہو گیا ہے جو نہ صرف کراچی، حیدرآباد کے لیے خوش آیند ہے بلکہ یہ پاکستان کے لیے بھی ہمت افزا پیغام ہے۔ اس وقت ایم کیو ایم کے لیے کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ ان سے نمٹنا جوئے شیر لانے کے مترادف ضرور ہے مگر عوام کو ایم کیو ایم کی قیادت پر بھرپور اعتماد ہے کہ وہ تمام چیلنجز کا مقابلہ کرے گی اور عوامی مفاد میں حل کرے گی۔
جہاں تک کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات کا تعلق ہے اس سے ایم کیو ایم کو شکایت ہے اور وہ بے جا ہرگز نہیں ہے۔ حلقہ بندیوں کا مسئلہ سب سے اہم ہے اسے یکسر نظرانداز کرنا عوامی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ انتخابات آخر عجلت میں کرانے کی کیا وجہ تھی جب پہلے ہی دیر ہو چکی تھی تو تھوڑی دیر اور ہو جاتی تو کیا ہو جاتا۔ کم سے کم اتنا تو ہوتا کہ تمام سیاسی پارٹیاں الیکشن میں حصہ لے سکتیں اور کسی جانب سے بائیکاٹ کا ارتکاب نہ ہوتا۔
اب ہوا یہ ہے کہ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے انتخابات سے دور رہنے کی وجہ سے انتخابات ادھورے ہی رہ گئے ہیں۔ پھر جن پارٹیوں نے حصہ لیا ہے ان میں انتخابات کے نتائج کے سلسلے میں بے یقینی پائی جاتی ہے۔ کوئی بھی پارٹی نتائج کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سب ہی دھاندلی کی شکایت کر رہے ہیں۔
پھر تیرہ حلقوں کے انتخابات کے کرانے میں دیری سمجھ سے باہر ہے۔ جماعت اسلامی ان حلقوں کے انتخابات کرانے کے لیے پرزور مطالبہ کر رہی ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ ان حلقوں کے انتخابات کے نتائج اس کے حق میں آئیں گے اور اس طرح اس کے منتخب اراکین کی تعداد پیپلز پارٹی سے بڑھ جائے گی اور اسے اپنا میئر بنانا آسان ہو جائے گا مگر یقین کیساتھ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان حلقوں کے نتائج کس پارٹی کے حق میں جائیں گے۔
پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں اور اس کا گمان ہے کہ ان کی نشستوں میں مزید اضافہ ہوگا چنانچہ وہ اپنے میئر کو بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے جان بوجھ کر اس کے نمایندوں کو ہرانے کی سازش کی گئی ہے چنانچہ کراچی کا میئر بہر صورت اس کا ہی ہونا چاہیے۔
اس سلسلے میں پی ٹی آئی جماعت اسلامی کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے مگر جماعت اسلامی کسی پارٹی کی مدد لینا نہیں چاہتی۔ اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس چپقلش کی وجہ سے کراچی کے مسائل میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
کراچی کے نئے انتخابات سے یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ اب نیا میئر ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گا مگر یہ بات ضرور سامنے رکھنا چاہیے کہ میئر کے اختیارات کے سلسلے میں پہلے ہی پیچیدگیاں موجود ہیں اسے مکمل اختیارات حاصل نہ ہونے کی وجہ سے وہ مسائل کو حل کرنے سے لاچار و مجبور دکھائی دیتا ہے چنانچہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی میئر بنانے کی جدوجہد کرنے سے پہلے میئر کو بااختیار بنانے کے لیے جدوجہد کریں۔
تاہم اس کی کنجی پیپلز پارٹی کے پاس ہے اسے اس سلسلے میں فراخ دلی دکھانا چاہیے۔ بہتر تو یہ کہ ان متنازع انتخابات کو رد کرکے پھر نئے سرے سے بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔