سائنسی ایجادات یا تخریبی کارروائیاں

دنیا سوچ رہی ہے کہ طاقتوں کے کھلاڑی عام عوام کو اب کیا نیا کھیل دکھانے والے ہیں،کیا انسان کا مقدر صرف تباہی ہے؟


Shehla Aijaz February 19, 2023

دنیا ایک عجیب مخمصے میں گرفتار ہے، آلودگی کافی سر چڑھ کر بول رہی ہے، موسمی تغیرات کا بھی ایک آسیب ہے کہ حالیہ ترکیہ میں آنے والے زلزلے نے دل دہلا کر رکھ دیا ہے۔

منظر عام پر آنے والی تصاویر اور وڈیوز نہایت تکلیف دہ ہیں، لوگ پریشان ہیں۔ ایک سنسناہٹ سی ماحول میں طاری ہے کہ پاکستان میں بھی اس کے آثار ہیں یہ اس وقت کی ہی صدا تھی بہرحال اب خدا کے کرم سے حالات بہتر ہیں لیکن سائنسی تجربات و تحقیقات جو اب اس قدر بپھر چکے ہیں کہ خطہ ارض پر کسی جگہ بھی تباہی پھیلانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ سائنس کی ترقی اب بہت آگے تک جا چکی ہے۔ ابھی کچھ دن قبل ہی سنا تھا کہ چاند کی مٹی زمین پر پھینکنے کے عمل سے زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ خدا جانے اس مٹی میں ایسی کون سی جادوئی خاصیت ہے ، بہرحال یہ ایک الگ قصہ ہے۔

بات شروع ہوتی ہے اس صبح سے یعنی 6 فروری سے جب لوگ اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے کہ اچانک انھیں زلزلے کے جھٹکے اور ان سے ہونے والی تباہ کاریوں نے ایک آرام دہ ماحول سے اذیت ناک صورت حال میں پہنچا دیا جس سے اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، زیادہ تر افراد بلند عمارتوں کے ملبے تلے اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔

زلزلے کی شدت 7.8 تھی جس کی گہرائی 17.9 کلو میٹر تھی۔ اس زلزلے کو ترکیہ میں آنے والے بڑے زلزلوں میں شمار کیا جا رہا ہے ، جب کہ اس خطے میں غالباً اس سے پہلے کوئی زلزلہ گزشتہ تیس برسوں سے نہیں آیا تھا۔ایک عجیب سی داستان اس وقت گردش میں آئی جب نیدرلینڈ کے فرینک ہوگربئیس کی ایک ٹویٹ منظر عام پر آئی جس میں انھوں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ 7.5 شدت کا ایک زلزلہ اس خطے ترکیہ میں آ سکتا ہے جو تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

تین فروری کی اس ٹویٹ پر اس زلزلے کے بعد سوال اٹھ رہے ہیں کیونکہ اس کے بعد اس کی تین جنوری کی ٹویٹ جو پاکستان چین اور بنگلہ دیش سے متعلق تھی سراسیمگی پھیلا گئی۔ اس تمام صورت حال کے تانے بانے امریکا کے ہائپر ایکٹیو ایکوسٹک ریسرچ پروگرام سے جوڑے جا رہے ہیں۔ اس میں سچائی کا عنصر کس قدر ہے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ ایک بڑا تلخ سچ ہے کہ اس یعنی ہارپ ٹیکنالوجی کی برقی مقناطیسی لہروں کے ذریعے دنیا کے کسی بھی خطے کی موسمی سرگرمیوں کو متاثر کیا جاسکتا ہے۔

کیا یہ امر افسوس ناک نہیں ہے کہ انسان اپنی سائنسی ایجادات اور تحقیقات کو انسانی ترقی کے بجائے تنزلی کے لیے استعمال کر رہا ہے؟ کیا اس طرح قدرت کے کاموں میں عمل دخل کر کے انسان تکبر کے مرض میں مبتلا نہیں ہو رہا؟ کیا یہ عمل انفرادی ہے؟غالباً دوسری جنگ عظیم کی ہی بات ہے جب اتحادی فوج کے لیے آئن اسٹائن نے ایک بڑے بحری جہاز کو غائب یا آنکھوں سے اوجھل کردینے کا تجربہ کیا تھا۔

یہ ضرور تھا کہ وہ بحری جہاز جسے یقینا دشمنوں (یعنی جاپانیوں) کی نظروں سے جادوئی انداز میں اوجھل کر دینے کا تجربہ یوں کیا گیا تھا جسے انجام دینے کا مقصد جاپانیوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو توڑنا تھا۔ اس ناکام تجربے نے کچھ وقت کے لیے بحری جہاز کو نظروں سے اوجھل ضرور کردیا تھا لیکن اس جہاز پر موجود انسانوں کا کیا حشر ہوا تھا یہ بھی ایک اسرار تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اس بحری جہاز پر موجود عملے سمیت دوسرے لوگ بھی لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس ناکام تجربے کے بعد ایٹم بم کا خطرناک تجربہ انسانی تاریخ کے لیے ایک خوفناک کہانی رقم کرگیا۔ہارپ (HARP) کو 1993 میں امریکا کی ریاست الاسکا میں امریکی فضائیہ ، بحریہ اور اس سے متعلقہ اداروں کی مالی اعانت کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ اس کے مقاصد میں بہتر مواصلات، سیکیورٹی مقاصد، دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا وغیرہ شامل تھا۔

برقی مقناطیسی لہروں سے متعلق اب تک جتنی باتیں سننے اور پڑھنے میں آئی ہیں وہ خطرناک حد تک تباہی پھیلانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ سیلاب، زلزلے، خشک سالی اور موسم کی شدت میں اضافے کے علاوہ انسانی دماغ کو متاثر کرنے کی صلاحیت جیسے ٹینشن، ذہنی تناؤ، کنفیوژن اور بروقت فیصلوں میں رکاوٹ یا قاصر کردینے کی حالت میں پہنچا سکتی ہیں۔ یہ نہ صرف انسانی بلکہ جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی خطرناک اور ان کی قدرتی حرکات کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

تین فروری 2023 میں اس زلزلے کے متعلق کی گئی پیش گوئی کیا واقعی اس حد تک قابل عمل تھی کہ ممکنات کے تحت مخصوص دفاتر بند اور ملازمین چھٹی پر بھیج دیے جائیں۔ اس شدید بحث میں الجھنے سے پیشتر ہی ایک اور سائنس اور اس سے متعلق کہانی کا آغاز ہوا، جسکی بازگشت اب بھی ایوانوں میں گونج رہی ہے۔

جنوبی کیرولینا امریکا کا ساحلی علاقہ جس پر ایک مشتبہ جاسوسی غبارے کو مار گرایا گیا۔ یہ عام جاسوسی غبارے کے مقابلے میں سائز میں چھوٹا، شکل کچھ مختلف اور کم اونچائی پر پرواز کر رہا تھا۔یہ جاسوس غبارہ تھا یا موسمی تغیرات کا جائزہ لینے والا عام موسمی غبارہ، لیکن اس حوالے سے امریکا اور چین کے درمیان ایک تناؤ پھیل گیا ہے۔یہ ایک یقینا تشویشناک بات تھی کہ امریکا جیسے ملک جہاں طاقتور ترین ریڈار کام کرتے ہیں ایک غبارہ ٹہلتا ہوا دکھائی دیتا ہے، جو کم رفتار سے گھومتا پھرتا ہے۔ آخر یہ کیا ہے اور کیوں گردش کر رہا ہے؟

کیا یہ جاسوسی کے لیے بھیجا گیا ہے؟ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر کھلے عام۔چین کے اس غبارے کو کئی روز تک دیکھنے کے بعد غالباً 48 گھنٹوں کے بعد لڑاکا طیاروں کے ذریعے مار گرایا گیا، اس واقعے کو لائیو اسٹریم کیا گیا جسے کئی ملکوں میں بھی دکھایا گیا۔ پینٹاگون حکام کا کہنا ہے کہ دوران امن امریکی فضائی حدود میں ہونے والے ان غیر معمولی واقعات کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

چین اس غبارے کو موسمی جائزے کے استعمال میں آنیوالا ایک عام سا فضائی غبارہ قرار دے رہا ہے جو اپنے محور سے بھٹک گیا تھا۔ اسے ڈھونڈنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں لیکن وہ امریکی فضائی حدود میں مار گرایا گیا۔ بات اس حد تک تشویش ناک سمجھی جا رہی ہے کہ امریکی حکام اس غبارے کے مار گرائے جانے کے باوجود اس کا تباہ شدہ حصہ بھی چین کو واپس دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔

سائنس نے یقینا بہت ترقی کرلی ہے، موسمی تغیرات بھی دنیا کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے چین سمیت دیگر ممالک اس کے حل کی کھوج میں لگے ہیں۔ یہ بھی ایک پہلو ہے کہ فضائی آلودگی موسمی تغیرات کا باعث بن رہی ہے۔ امریکا، چین سمیت ایسے ہی بڑے ممالک اس آلودگی کو بڑھانے میں پیش پیش ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانی دماغ سائنسی تحقیق ایجادات صرف ایک دوسرے کو اونچا نیچا کرنے اور تسخیر کرنے کی ترکیبیں ہی ثابت ہوں گی یا پھر یہ کوئی فلاح کے کام انجام دیں گی؟ یہ کیا راز ہے، دنیا سوچ رہی ہے کہ طاقتوں کے کھلاڑی عام عوام کو اب کیا نیا کھیل دکھانے والے ہیں،کیا انسان کا مقدر صرف تباہی ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں