آہ ضیا محی الدین

ضیا محی الدین اتنی حوصلہ افزائی کرتے کہ آنکھوں میں نمی آجاتی تھی وہ سرتاپا عظیم فنکار تھے


م ش خ February 19, 2023
[email protected]

امن اور محبت کا درس دینے والے ضیا محی الدین دنیا سے اس پار چلے گئے جہاں سب کو جانا ہے ۔ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ ضیا محی الدین ایک اچھے کمپیئر اور اداکار تھے۔ روایات کی پاسداری کو خوب نبھایا ، خوش گفتاری کا نمونہ تھے۔

ضیا محی الدین کی مادری زبان پنجابی تھی مگر وہ اردو کے شہ سوار تھے۔ ہالی ووڈ کی سپرہٹ فلم ''لارنس آف عریبیہ'' ان کی پہلی فلم تھی جو ہالی ووڈ میں بنی اس میں انھوں نے ایک عربی بدو کے کردار میں لاجواب اداکاری کی تھی اور وہ پہلے پاکستانی تھے جس نے ہالی ووڈ کی فلم میں لازوال کردار ادا کیا، 1962 میں ریلیز ہونے والی فلم نے پاکستانیوں کو حیرت زدہ کردیا تھا کہ یہ پاکستان کے سپوت ہیں۔

اس کردار کو کرنے کے بعد انھوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی ۔ہالی ووڈ کے معروف آنجہانی فنکار رچرڈ برٹن نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا ''ضیا محی الدین بڑا اداکار ہے میں دل سے اس کی قدر کرتا ہوں۔''

مصنف رابرٹ کی کتاب ''ہالی ووڈ'' میں انھوں نے ضیا محی الدین کے بارے میں کہا تھا کہ'' ابھی یہ نوجوان ہے جب جوان ہوگا تو ہالی ووڈ کا بڑا اداکار بنے گا'' گیگری پیک نے فلم ''لارنس آف عریبیہ'' دیکھنے کے بعد کہا تھا کہ ''ضیا محی الدین پاکستانی ہے مگر اس کی انگلش نے مجھے ذاتی طور پر بہت متاثر کیا'' انتھونی کوئین نے مزیدکہا'' مستقبل میں بالی ووڈ کا بادشاہ بنے گا ۔''

ان کے والدین کا تعلق بھارت کے شہر ہریانہ سے تھا وہ 20 جون 1931کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے کتنے خوش نصیب تھے وہ والدین جن کے ہاں ایک ہونہار بچے نے جنم لیا ۔انگریزی، اردو اور پنجابی زبان کے بادشاہ تھے یہ واحد پاکستانی اداکار تھے جنھیں عالمی شہرت ملی،ضیا کی والدہ صاحبہ 1989 میں رب کی طرف لوٹ گئیں ان کی 5 بہنیں ہیں ۔

نوجوان نسل کو بتا رہے ہیں کہ رچرڈ برٹن، گیگری پیک، انتھونی کوئین کی لازوال فلمیں سپرہٹ ہوئیں، انھوں نے ضیا محی الدین کی انگریزی کو سراہا تھا۔ انتھونی کوئین نے ہالی ووڈ کی ایک شام جو رچرڈ برٹن کے لیے منعقد ہوئی تھی ،جس کے کمپیئر ضیا محی الدین تھے کے بارے میں اسٹیج پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''ہمارے بچوں کو انگریزی ضیا سے سیکھنی چاہیے'' یہ اعزاز تھا ان کے لیے۔

مصنف رابرٹ نے اپنی کتاب ''ہالی ووڈ'' میں اس بات کا تذکرہ بھی کیا تھا ۔رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک کلب سے اداکاری کی سند لی تھی ،ان کے بے شمار اسٹیج ڈرامے انگریزی زبان میں تھے۔ ان کا سپرہٹ اسٹیج ڈرامہ ''لونگ ڈے جرنی ان ٹونائٹ'' اپنے وقت کا سپرہٹ ڈرامہ تھا جس میں کہانی کے ہیرو ضیا محی الدین تھے۔

1960 میں وہ پاکستان آگئے وہ بہت اچھے لکھاری تھے پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' کے مکالمہ نگار ان کے والد تھے اگر ہم ان کی زندگی پر روشنی ڈالیں تو کالم 3 قسطوں پر چلا جائے گا ادب اور فن اداکاری، کمپیئرنگ کے ایوانوں کے شہزادے تھے۔ داؤد رہبر کی کتاب ''تسلیمات'' میں جو ان کے بارے میں لکھا گیا کہ ''منگنی'' وہ ڈرامہ تھا جس میں انھوں نے شیروانی زیب تن کی یہ ڈرامہ ویسے تو سپرہٹ تھا لیکن اس کے سپرہٹ ہونے کی وجہ ایک بچہ تھا جس نے کمال کی اداکاری کی اور شایقین کو حیرت زدہ کردیا جو وہ بچہ ضیا محی الدین تھے جو دس برس کے تھے۔

ضیا محی الدین سچے پاکستانی تھے ہالی ووڈ کو خیرباد کرکے پاکستان چلے آئے اور یہاں 67 سال تک تھیٹر، فلم، ٹی وی پر اپنی اداکاری کا سکہ برقرار رکھا۔

1991 میں اسلام آباد میں ایوارڈ کی ایک تقریب تھی جس کے کمپیئر ضیا محی الدین تھے اس زمانے میں راقم نے صحافت کا آغاز ایک بڑے روزنامہ میں شوبز سے کیا تھا اسلام آباد کے ایک بڑے مقامی ہوٹل میں قیام تھا، کراچی سے لے کر اسلام آباد تک ضیا محی الدین ہمارے ہمراہ تھے، انتہائی شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ یہ ہالی ووڈ کے کامیاب اور سپرہٹ ایکٹر رہے، ہوٹل میں قیام کے دوران ہم اکثر دن کو 12 بجے ان کے پاس جاتے وہ فن، ثقافت اور تہذیبی گفتگو کے شہزادے تھے وہ کمپیئر، اداکار، صدا کار غرض خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں وہ صحافی نہیں تھے مگر صحافت کے حوالے سے ہمیں بہت کچھ بتایا کرتے تھے۔

اسلام آباد میں 3 دن رہے اور دن میں ان کے مفید مشوروں کو سبق کی طرح یاد کرتا مانا کہ میں طفل مکتب ہوں مگر ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر آج بھی عمل کرتا ہوں عجب آزاد مرد تھا۔

ان کی آرٹس کونسل کے حوالے سے خدمات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔''ناپا اکیڈمی'' نے فنکاروں کی بہت حوصلہ افزائی کی معین اختر کو بنانے والے ضیا محی الدین تھے اور مرحوم نے یہ بات ہمیں فخریہ بتائی تھی اور جذبات میں کہا کہ'' کمپیئرنگ میں، انھیں اپنا استاد سمجھتا ہوں میں نے ان سے انگریزی کا تلفظ سیکھا وہ میرے استادوں کی جگہ تھے میں ان کا دل سے احترام کرتا ہوں'' ضیا محی الدین مرحوم کے ساتھ جو راقم نے تین دن گزارے وہ مجھے ہمیشہ یاد رہیں گے۔

ضیا محی الدین نے جن خواتین سے شادیاں کیں، ان میں سرور زمانی، سے ان کے دو بیٹے ہیں ۔ 1993 میں کتھک ڈانسر ناہید صدیقی سے دوسری شادی کی جن سے ان کے ایک صاحبزادے ہیں، تیسری شادی 94 میں عذرا سے کی جن سے ایک صاحبزادی ہیں۔ راقم جب ان کی گفتگو سنتا تھا تو وہ مجھے اردو کے انسائیکلوپیڈیا لگتے تھے انھوں نے مغرب میں رہنے کے باوجود کبھی مغرب کی تقلید نہیں کی۔

تاریخ میں وہ اردو کے حوالے سے عہد ساز شخصیت کہلائے جائیں گے وہ آل راؤنڈر تھے خوبصورت بولنے کے حوالے سے جو انھوں نے عوامی پذیرائی پائی وہ قابل تعریف ہے۔ ادب و فن کی تقریبات میں بلبل کی طرح بولا کرتے تھے 9 ماہ پہلے آرٹس کونسل میں ان سے ملاقات ہوئی پہلی تفصیلی ملاقات 1991 میں ہوئی ،دوسری ملاقات 2022 میں تفصیلی ہوئی ویسے تو ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں مگر جو آرٹس کونسل میں ملاقات ہوئی تو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے دھیمے لہجے میں گفتگو رہی سمجھانے کا انداز قائم و دائم تھا۔

میں نے کہا 1991 میں جو مفید مشورے آپ نے دیے تھے ان پر عمل پیرا ہوں۔ مسکرا کر بولے کہ'' اب ہنستا کم ہوں مسکرا کر گزارا کر رہا ہوں کہ ہنسنے کے لیے بھی میاں برخوردار جان کی ضرورت ہوتی ہے تمہارے پاس ابھی وقت ہے زور زور سے ہنسا کرو'' اس سے زندگی طویل ہوتی ہے۔

1994 میں ہم پی ٹی وی سے کرنٹ افیئر کے پروگرام پروڈیوسر اسداللہ بھٹی کے ساتھ کرتے تھے۔ضیا محی الدین اتنی حوصلہ افزائی کرتے کہ آنکھوں میں نمی آجاتی تھی وہ سرتاپا عظیم فنکار تھے حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی طویل خدمات کے صلے میں 2003 میں ستارہ امتیاز اور 2012 میں ہلال امتیاز دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے اور ان کے ادارے ناپا اکیڈمی پرفارمنگ آرٹس نے اعلیٰ خدمات کے طور پر بے شمار فنکار اسٹیج، ٹی وی اور فلم کو دیے ۔رب ان کی مغفرت کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں