ایٹمی قوت اور آٹے کی قطاریں
میں نے لارڈ اسمے کو آنے سے روکتے ہوئے کہا کہ اب نقشے کی طرف آنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں سمجھ گیا ہوں
جماعت اسلامی کے امیرجناب سراج الحق کے ہم بہت بڑے فین ہیں حالانکہ ان کی پارٹی سے ہمارا دورکا بھی تعلق نہیں ہے جس کے بانی مبانی اورنگزیب عالمگیر تھے، اس لیے ان کے بیانات مسلسل پڑھتے رہتے ہیں اور دل ہی دل میں داد دیتے رہتے ہیں کہ
دیکھنا تقریرکی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جاناکہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
بلکہ ''گویا یہ ہی '' میرے دل میں تھا، وہ بھی جو اس نے کہا اور وہ بھی جو اس نے نہیں کہا ہے لیکن ہماری سمجھ میں آگیا یعنی وہ بات جس کا ساری کہانی میں ذکر نہیں ہوتا، وہ ہمیں بڑی ''خوشگوار'' گزرتی ہے لیکن ستم یہ ہے کہ ہم وہ بات سن اور سمجھ سکتے ہیں ''دہرا'' نہیں سکتے ۔
ہم جسے گنگنا نہیں سکتے
وقت نے ایسا گیت کیوں گایا
اور اگر کسی کو سمجھنا ہو تو وہ جرمنی، جاپان اور بنگلہ دیش کو سمجھے کہ اگر ان کے پاس ایسا جادوئی چراغ کہاں سے آیا کہ ہمارے ساتھ بلکہ ہمارے بعد آزاد ہوکر بھی ہم سے آگے نکل گئے۔
اب میں راشن کی قطاروں میں نظر آتا ہوں
اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں
خیر اب تو کھیت رہا ہی نہیں، جہاں کبھی کھیت ہوا کرتے تھے، وہاں حکومتوں کی مہربانی سے اب سیمنٹ اورسرئیے کے جنگل آگائے گئے ہیں اور اگائے جارہے ہیں ،اگر کچھ برائے نام باقی ہیں تو انھیں بھی بہت جلد چڑیاں چگھ کر اڑ جائیں گی۔
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
بلکہ کتابوں کے ساتھ حکومتوں، لیڈروں اور پارٹیوں کو بھی شامل کردئیجے اوربیانوں، تقریروں کو بھی ۔ویسے ہمیں بھی معلوم ہے اورجناب سراج الحق کو بھی معلوم ہے کہ ''کیا دیاہے ہم کو''
جناب سراج الحق کے بیان میں کہاگیاہے کہ بہترین فوج اورایٹمی قوت کے باوجود آٹے کے لیے قطاریں کیوں ؟ جناب امیر صاحب جدھر اشارہ کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی ٹھیک ہوگا لیکن کچھ ہم میں تم قرار تھا کا ذکر بھی ضروری ہے، یہ تو اجتماعی جدوجہد کا ثمر ہے ، لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ سب نے یک زبان ہوکر ایک وعدہ کیاتھاکہ ہم گھاس کھائیں گے؟
جو وعدہ کیا ہے نبھانا پڑے گا، بعض اوقات سوال وجواب میں بڑے دلچسپ مقام آجاتے ہیں کہ سوال ہی میں جواب بھی موجود ہوتا ہے۔جیسے تیرا نام کیاہے بسنتی، اوئے اج کل تیراکہی ناں اے سونیا؟ یا وہ کونسا پرندہ ہے جس کے سر پر پیرہوتے ہیں ،مجھے ایک چیزملی ہے ،کسی کی ہو تو نشانیاں بتا کر لے جا ئے ورنہ پھر میں خود اس سے چارہ کاٹوں گا۔
دو چرسی دم مار رہے تھے اور بوجھو تو جانیں بھی کھیل رہے تھے۔ ایک نے سگریٹ کو اپنی مٹھی میں چھپاتے ہوئے پوچھا، بتائو میری مٹھی میں کیاہے؟ دوسرے نے پوچھا ،کچھ نشانی بتائو، پہلے والے نے اشارہ دیا، اس سے دھواں نکلتاہے۔ دوسرے نے اس سے سگریٹ لے کر اپنی باری کاکش لگایااور سگریٹ واپس کرتے ہوئے کہا ،ذرا مجھے سوچنے دو۔ پہلے والے نے بھی کش لگایا اورکہا، سوچو ۔ دوسرے نے اس کی مٹھی کو دیکھا، انگلیوں سے دھواں نکلتے دیکھ کر کہا ، تم نے اپنی مٹھی میں ریل گاڑی دبائی ہوئی ہے؟ اس پر پہلے والا بولا، تم نے ضروردیکھ لیا ہوگا ۔
ہمارے ایک رشتہ دار کو اپنے اکلوتے بیٹے سے بہت محبت تھی، وہ جب بھی ملتا تو پوچھتا، تم نے ''رحیم'' کو تو نہیں دیکھا ہے۔ ہم کہتے نہیں چاچا۔ تو وہ قہقہ مار کرکہتا، وہ توگھر میں ہے۔
چلیے ہم بھی جناب سراج الحق کے سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں تھوڑا سا ماضی میں جانا پڑے گا۔
چوہدری محمد علی پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے ہیں اور تقسیم سے پہلے عارضی حکومت میں وزیر خزانہ بھی رہے تھے ، انھوں نے ایک کتاب بزبان انگریزی میں لکھی ہے ،نام ہے ۔ایمرجنس آف پاکستان۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں ، میں نو اگست انیس سو سینتالیس کو بعض مالی معاملات کے سلسلے میں دہلی جارہا تھا تو جانے سے پہلے میں نے لیاقت علی خان سے ملاقات کی۔
انھوں نے کہا کہ قائد اعظم کو تقسیم پنجاب کی بڑی خبریں مل رہی ہیں، اس سلسلے میں تم لارڈ ''اسمے'' (وائسرائے کے سیکریٹری ) سے بات کرو اور جناح صاحب کی تشویش سے سیآگاہ کرو۔ میں جب وائسرائے لاج پہنچا تو لارڈ اسمے کے بار ے میں کہاگیا کہ وہ سرسیرل ریڈکلف سے ضروری میٹنگ میں ہے، کچھ انتظار کے بعد وہ فارغ ہوا تو میں نے قائد اعظم کاپیغام پہنچایا، لارڈ اسمے نے کہاکہ اس سلسلے میں اسے کوئی علم ہے اورنہ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو۔ لارڈ ریڈ کلف ہی نے سب کچھ کرنا ہے.
لارڈ ماؤنٹ بیٹن یا میرا اس معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ میں نے لارڈ اسمے کو دفتر کی دیوار پر لٹکے ہوئے ایک نقشے کی طرف آنے کو کہا تاکہ اسے ساری صورت حال سمجھا سکوں ، لیکن نقشے پر نظر ڈالی تو اس پر ایک پنسل کی لکیر تھی جس میں پنجاب کودوحصوں میں تقسیم کیاگیاتھا، یہ دوحصے وہی تھے جن کے بارے میں قائد اعظم کوتشویش تھی۔
میں نے لارڈ اسمے کو آنے سے روکتے ہوئے کہا کہ اب نقشے کی طرف آنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں سمجھ گیا ہوں۔ پنسل کی وہ چھوٹی سی لکیر میں ان تمام سوالوں کاجواب موجود ہے جووائسرائے لاج میں لٹکے ہوئے نقشے پر کھینچی گئی تھی۔باقی باتیں اگلے کالم میں کریں گے۔