کراچی کا محسن کون
ہر حکومت نے کراچی کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا۔ کبھی کراچی کو مسائل کے مطابق وسائل نہیں دیے گئے
کراچی کو ملک کا حب اور معاشی انجن کہا جاتا ہے، جس کی آمدنی سے ملک چل رہا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کے مطابق ملک کو چلانے کے لیے کراچی سب سے زائد ٹیکس فراہم کرتا ہے جو تقریباً دو تہائی کے برابر ہے اور باقی ملک ایک تہائی ٹیکس ادا کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جب کراچی میں ہڑتالیں اور شٹرڈاؤن ہوتا تھا تو وفاقی حکومت کو ملنے والے ٹیکس وصولی پر بہت برا اثر پڑتا تھا اور شہر ایک دن بند رہنے سے یومیہ کروڑوں روپے کا نقصان ہوا کرتا تھا جب کہ کراچی میں رہائش پذیر لاکھوں افراد کاروبار نہ ہونے سے بری طرح متاثر ہوا کرتے تھے۔
اس ہڑتالی دور میں ایسے دن بھی آئے جب ملکی کرنسی کراچی میں بے وقعت ہوگئی تھی اور کراچی کے شہری روپے ہاتھوں میں لے کر گلی گلی در بہ در ہوتے تھے کہ کہیں کوئی راشن شاپ، ہوٹل، دودھ کی دکان کھلی مل جائے مگر حالات سے سخت خوفزدہ کاروباری لوگ گلیوں تک میں دکانیں بند رکھنے پر مجبور تھے۔
سیاسی رہنما نوابزادہ نصراللہ خان نے اپنی زندگی میں راقم کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ماضی کی حکومتوں کی غلطی تھی کہ انھوں نے کراچی میں سب سے زیادہ صنعتیں قائم کردی تھیں جس کی وجہ سے ملک بھر کے لوگوں کو روزگار کے لیے کراچی میں رہنا پڑتا ہے اور شہر میں ہڑتالوں کی وجہ سے ہی لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں جن کے اپنے گھر نہیں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ہوٹل ان کی مجبوری بنے ہوئے ہیں اور ہڑتالوں میں انھیں بھوکا رہنا پڑتا ہے۔
کراچی ملک کی واحد بندرگاہ ہے جہاں دنیا بھر سے مختلف اشیا کے بحری جہاز آتے ہیں اور ہڑتالوں سے بندرگاہ متاثر ہوتی تھی لوگ پورٹ نہیں پہنچ سکتے تھے جس سے حکومت کو ٹیکس وصولی میں یومیہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو جاتا تھا۔
کراچی کی آمدنی سے ملک اور سندھ چلتا ہے کیونکہ ملک میں کوئی اور ایسا شہر نہیں جو حکومت کو کراچی کی طرح ٹیکس ادا کرتا ہو۔ کراچی کے لیے یہ بھی مشہور ہے کہ کسی حکومت نے کراچی سے وفا نہیں کی، کسی نے کراچی سے وفاداری کا حق ادا نہیں کیا۔
یہ واحد شہر ہے جہاں رشوت کی کمائی سب سے زیادہ ہے۔ مختلف افسران اور خصوصاً پولیس افسران اور چھوٹے ملازموں کے لیے کراچی دبئی رہا ہے۔ پہلے لوگ کمانے کراچی آتے تھے جہاں ملک کے ہر علاقے ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک سے بھی لوگ آتے تھے اور کراچی میں کما کر اپنے آبائی علاقوں میں جائیدادیں بناتے تھے مگر بعد میں سیاسی ہڑتالوں ، بے انتہا جرائم، بڑے کاروباری لوگوں کے اغوا برائے تاوان اور دیگر وجوہات کے باعث نجی شعبہ متاثر ہوا، کراچی سے صنعتیں اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی منتقل ہوئیں۔
بھتہ خوری نے کاروباری لوگوں کو کراچی چھوڑنے پر مجبور کیا جس سے شہر بدنام اور غیر محفوظ ہوا۔ اندرون ملک کے لوگ کراچی آتے ڈرتے تھے اور مجبوری ہی میں آتے تھے۔
کراچی میں لسانی فسادات بھی ہوئے اور ملک کے مختلف علاقوں میں وارداتیں کرکے کراچی منتقل ہونے والوں کو ان کے دشمنوں نے کراچی میں ڈھونڈ کر بدلے بھی لیے اور متعدد کو لسانی رنگ دیا گیا جن میں کراچی کے پرانے باسی شامل نہیں تھے مگر رنگ کراچی میں قتل و غارت گری کا دیا جاتا۔
پرانی دشمنی کی بھینٹ میں شہر کو بدنام بھی کیا جاتا اور یہاں آ کر کمانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا جاتا جس سے کراچی کی آبادی اور مسائل بڑھتے گئے۔
حکومتوں نے کراچی سے ظلم یہ بھی کیا کہ ہر مردم شماری میں کراچی کی آبادی کم دکھائی جاتی رہی اور کبھی درست مردم شماری نہیں کرائی گئی کیونکہ درست مردم شماری سے آبادی زیادہ ظاہر ہوتی تو حکومتوں کو کراچی کی حقیقی آبادی کے مطابق حلقہ بندی کرکے اسمبلیوں کی نشستیں بڑھانا اور آبادی کے لحاظ سے فنڈز بھی دینا پڑتے اور ایسا جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ شہریوں کو جائز حقوق نہ دینا پڑیں۔
کراچی سرکاری اداروں میں رشوت کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ سرکاری ملازمین خصوصاً پولیس کے لیے کراچی کمائی کا سب سے بڑا گڑھ ہے جہاں سے حاصل کی گئی رشوت کی کمائی کے باعث اندرون ملک خصوصاً اندرون سندھ جائیدادوں کے نرخ بڑھے اور جن دنوں کراچی بدامنی کا شکار رہتا لوگ پھر بھی کراچی آتے۔
سرکاری ملازمین کے لیے ترقی اور کمائی کے چانس ہمیشہ کراچی میں رہے ہیں۔ کراچی کی آبادی بڑھنے کے ساتھ شہر کے مسائل بھی بڑھتے گئے۔
غیر قانونی کام ، اسلحہ و منشیات کے کاروبار، زمینوں پر قبضے، تجاوزات میں کراچی سب سے آگے رہا۔ کراچی میں آبادی جان بوجھ کر بڑھائی گئی جس پر سندھ ہائی کورٹ نے حال ہی میں ریمارکس دیے کہ کراچی میں کچی آبادیاں بنا کر قبضے کیے جا رہے ہیں۔
ہائی کورٹ نے کچی آبادیوں کا پلان بھی طلب کرلیا ہے اور جسٹس عقیل عباس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے قرار دیا ہے کہ کچی آبادیوں کی کوئی منصوبہ بندی نہیں جس کا دل چاہتا ہے کچی آبادی قائم کرکے قبضے کرلیتا ہے۔ کچی آبادیوں میں سوائے غنڈہ گردی کے کچھ نہیں ہوتا۔
ہر حکومت نے کراچی کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا۔ کبھی کراچی کو مسائل کے مطابق وسائل نہیں دیے گئے۔ کسی بھی سیاسی صدر مملکت نے کراچی کو اپنا سمجھا نہ کراچی کو اس کا جائز حق لے کر دیا۔
صدر پرویز مشرف کے دور میں کراچی کی ترقی کے لیے جتنے فنڈز ملے اتنے فنڈ تینوں سیاسی جماعتوں اور ان کے صدور نے نہیں دلائے۔ مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی تینوں حکومتوں میں کراچی کو نظرانداز کیا گیا۔
کراچی کی ترقی اور مسائل کے حل پر کسی نے اتنی توجہ نہیں دی جتنی اکیلے جنرل پرویز مشرف نے دی اور کراچی ہی میں دفن ہو کر کراچی سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔
کراچی ملک اور سب کا محسن ہے اور کراچی کے محسن صرف جنرل پرویز مشرف تھے جن کی سٹی حکومتوں میں کراچی میں ریکارڈ ترقی ہوئی جس کی گواہی کراچی کے دونوں سٹی ناظمین نے دی جب کہ تینوں پارٹیاں کراچی کے لیے جنرل پرویز کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکیں۔