ریاستی اشرافیہ کی مراعات اور معاشی بدحالی

معیشت کی کوئی سمت یا اصول و ضوابط موجود نہیں ہیں اور نہ ہی ٹیکس سسٹم موجود ہے


Editorial February 21, 2023
پاکستان میں ٹیکس ریونیو کا حجم کم ہے، اس کا جواب کوئی مشکل کام نہیں ہے (فوٹو : فائل)

آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے جرمنی کے ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری اور نجی شعبے میں اچھا کمانے والوں کو معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں امیر لوگوں کو سبسڈیز سے مستفید نہیں ہونا چاہیے۔ سبسڈی صرف ان لوگوں کو منتقل کی جائے جنھیں واقعی اس کی ضرورت ہے۔

انھوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف بالکل واضح ہے کہ صرف غریبوں کو سبسڈی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے غریب عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ پاکستان کو قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ نہیں بلکہ ملک چلانے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔

میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں جرمنی کے میڈیا سے گفتگو کے دوران انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے وہ آئی ایم ایف سے مدد مانگ رہا ہے۔ پاکستانی عوام سیلاب کی تباہی سے دوچار ہیں، تقریباً ایک تہائی لوگ متاثر ہوئے ہیں، ہم چاہتے ہیں پاکستان ایک ملک کے طور پر اقدامات کرے۔ پاکستان کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ وہ اس قسم کی خطرناک صورت حال سے دوچار نہ ہو کہ اسے اپنے قرض ری اسٹرکچر کرانا پڑیں۔

کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا تھا ہم پاکستان پر دو اہم نکات پر زور دے رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے پہلا نکتہ ٹیکس ریونیو کا ہے، دوسرا نکتہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے۔ پاکستان میں غریب کو سبسڈی دی جائے کیونکہ انھیں تحفظ کی ضرورت ہے، پاکستان میں امیر طبقے کو تحفظ نہ دیا جائے اور نہ ہی انھیں سبسڈی ملے۔

آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کی باتیں پاکستان کے پالیسی سازوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیں۔جہاں تک ٹیکس ریونیو کا تعلق ہے، اس حوالے سے بھی ریاست کو اپنی ٹیکس پالیسی اور ٹیکس سسٹم کو ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ ٹیکس سسٹم میں ایسے قوانین موجود ہیں، جو امراء اور طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچاتے ہیں، پاکستان میں اشرافیہ کی کئی پرتیں ہیں۔ایک طبقہ نوکرشاہی پر مشتمل ہے، یہ ریاستی مشینری کا حصہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس چھپانے اور بچانے میں کامیاب چلا آرہا ہے۔

ملک میں بلیک اکانومی کے پھیلاؤکا ذمے دار یہی طبقہ ہے کیونکہ ریاست کے نام پر اس طبقے کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔

ان اختیارات کی وجہ سے ہی یہ خود بھی احتساب سے بچا ہوا ہے اور اس کی اپنے فرائض کی ادائیگی میں بددیانتی بلیک اکانومی اور جرائم مافیا کو بھی مضبوط کرنے کا سبب ہے۔

اسی طبقے کے اختیارات کے غلط اور بے جا استعمال کی وجہ سے پاکستان میں غیرملکی اور مقامی سرمایہ کار کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، یوں رشوت اور کک بیکس کا کلچر فروغ پایا جو زہر کی طرح ملک کے معاشرے اور ریاستی عہدیداروں میں پھیل گیا ہے۔

پاکستان میں ٹیکس ریونیو کا حجم کم ہے، اس کا جواب کوئی مشکل کام نہیں ہے۔جب ریاست کا نظام چلانے والے ریاستی طاقت کا استعمال کرکے اور قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر اپنے آپ کو، اپنے خاندان کوٹیکس نیٹ سے باہر رکھیں گے تو اس طبقے کے سرپرست سرمایہ دار، جاگیردار،وڈیرے، قبائلی سرداران و عمائدین و گدی نشین کیسے ٹیکس دیں گے۔

افغانستان اور ایران کی سرحد کے ذریعے غیرقانونی تجارت سے اربوں روپے کا نقصان ہورہاہے، سب کچھ پتہ ہونے کے باوجود اسے روکنے کے لیے پارلیمنٹ کوئی قانون سازی کر رہی اور نہ عدلیہ نے کبھی سوموٹو نوٹس لیا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں نے صوبائی ٹیکس کا حجم بڑھانے پر کبھی توجہ نہیں دی۔

ان صوبوں میں لاکھوں کی تعداد میں نان کسٹمز پیڈ گاڑیاں سڑکوں پر رواں دواں ہیں،صوبائی محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشنز بھی موجود ہے، افسر اور ملازمین بھی ہیں اور کروڑوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں لیکن ان صوبوں کے شہروں اور دیہات میں بغیر نمبر پلیٹ موٹر سائیکلز، گاڑیوں، ٹریکٹرزکی بھرمار ہے۔اگر ان صوبوں کا محکمہ ایکسائز، پولیس اور ٹریفک پولیس اپنا قانونی فرض ادا کریں تو کروڑوں روپے ریونیو وصول ہوسکتا ہے۔

بہرحال میڈیا نے سرکاری ذرایع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اس وقت حکومت کی ساری توجہ آئی ایم ایف پروگرام کا احیاء ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد مرحلہ آئے گا تو مطلوبہ مقاصد کی جانب بڑھنے کے لیے عالمی قرضوں کی تنظیم نو پر غور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو اگلے مالی سال میں 27 ارب ڈالرز کی اصل اور مارک اپ رقم بیرونی قرضوں کی سروسنگ کے لیے ضرورت ہوگی۔

توسیعی فنڈ سہولت کے تحت آئی ایم ایف کا 6.5 ارب ڈالرز کا جاری پروگرام 30 جون 2023کو ختم ہو جائے گا۔ 30 جون 2023 کے بعد جاری ای ایف ایف انتظامات میں مزید توسیع کا کوئی امکان نہیں ہے۔

پاکستان کو موجودہ ای ایف ایف پروگرام کی میعاد ختم ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر بیرونی قرضوں کی سروسنگ کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے نیا آئی ایم ایف قرض لینا پڑے گا۔ تاہم اس وقت آئی ایم ایف کے جائزہ مشن نے یہ واضح کر دیا ہے کہ حکومت کو ان سب سے ٹیکس ریونیو لینا ہو گا جو قومی خزانے میں حصہ ڈالنے کے قابل ہیں۔

200 ملین سے زیادہ آبادی میں سے صرف 3.5 ملین ریٹرن فائلرز ہیں اس لیے ٹیکس آمدنی کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کے نسخوں کے تحت حکومت نے 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کے لیے منی بجٹ پیش کیا ۔

آئی ایم ایف نے غیر ہدف شدہ سبسڈیز کو ختم کرنے اور دولت مندوں سے وسائل لے کر غریب طبقات کی جانب موڑنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت نے برآمدی شعبوں کے لیے پاور سیکٹر کی سبسڈی ختم کر دی اور کسان پیکیج ختم کر دیا حالانکہ پاورسیکٹر اور دیگر محکموں کی نوکرشاہی کو فری بجلی کی سہولت بھی ختم کرنی چاہیے تھی۔

حکومت نے آئی ایم ایف سے سیلاب سے متعلق 472 ارب روپے کے اخراجات کو ایڈجسٹ کرنے کی درخواست کی ہے اور فنڈ مشن نے اس پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ بی آئی ایس پی پروگرام کے لیے پہلے سے مختص رقم 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب روپے کر دی گئی ہے جس میں اضافے کی توقع ہے ۔

پاکستان کو معاشی بحالی اور ترقی کے لیے متبادل پلان کی ضرورت ہے۔ اب تو آئی ایم ایف راضی ہوگیا ہے لیکن مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا۔پاکستان کو اس موقع کو آخری موقع جان کر مستقبل کی معاشی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی ۔

ریاستی مشینری ہمیشہ سے قومی خزانے پر عیاشی کرتی چلی آرہی ہے لیکن معیشت کو بہتر بنانے اور قانون کی سربلندی کے تناظر میں اس کی کارکردگی صفر ہے۔

کیا ایک غریب اور بدحال ملک کی نوکر شاہی کے دفاتر اور شاہ خرچیاں ایسی ہونی چاہیے؟ بڑے بڑے سرکاری بنگلے، لاکھوں روپے تنخواہ اور لاکھوں روپے پینشن، سرکاری پروٹوکول،علاج و سفری سہولتیں، یہ سب سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں ہے تو اور کیا ہے۔

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہماری معیشت کے لیے ناسور ہے، افغانستان کی معیشت کوئی معیشت نہیں ہے ، یہ ملک کالے دھن پر چل رہا ہے، طالبان سرکار عوامی جوابدہی سے مبرا ہے، نظام عدل کا وجود نہیں ہے ، جرگے یا پنچایتیں جو چاہے فیصلہ کریں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔سرکاری عملداروں کے احتساب کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے۔

معیشت کی کوئی سمت یا اصول و ضوابط موجود نہیں ہیں اور نہ ہی ٹیکس سسٹم موجود ہے، اس قسم کی معیشت جہاں بھی ہوگی ، وہ ہمسایہ معیشتوں کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کرے گی ۔صومالیہ افریقہ کا افغانستان ہے، اس کی وجہ سے کنییا، نائیجیریا اور دیگر ممالک کی معیشت بھی بحران کا شکار ہے ۔یمن کی معیشت سعودی عرب اور دیگر ملکوں کی معیشت کا بیڑا غرق کر رہی ہے ۔

پچھلے دنوں بین الاقوامی اقتصادی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیاتھا کہ پاکستان سے یومیہ پچاس لاکھ ڈالر افغانستان جارہے ہیں۔ پاکستان سے ڈالر اسمگلنگ طالبان حکومت کی لائف لائن ہے، افغانستان کی یومیہ ضرورت ایک سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر ہے۔

پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستان میں اسمگل کیے جا رہے ہیں، جس سے افغانستان کی طالبان حکومت کو تو سہارا مل رہا ہے، لیکن پاکستان بربادی کے دہانے پر کھڑا ہوچکا ہے۔

افغانستان سے نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پچھلے بائیس برس سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان آرہی ہیں ،یہ علاقے اسمگلڈ شدہ گاڑیوں کی بڑی منڈی ہیں۔ اگر شمال مغربی سرحد پر اسمگلنگ بند ہوجائے تو پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں