آئین شکنی
عمران خان نے بھی اقتدار میں آنے کے لیے اپنے محسنوں سے خوب فائدے اٹھائے اور ان محسنوں کے جاتے ہی وہ ان کے دشمن بن گئے
ملک میں مارشل لاء نافذ اور غیر جمہوری حکومتیں قائم کرنے والے چار صدور اب دنیا میں نہیں ہیں اور 75سالہ تاریخ میں طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والے چار سربراہوں نے اپنے لیے پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹروں کے عہدے جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاء الحق نے اور چیف ایگزیکٹو کے عہدے پسند کیے اور بعد میں چاروں صدر بن گئے تھے مگر اپنے لیے صدارتی الیکشن و ریفرنڈم جنرل یحییٰ کے سوا سب نے کرایا اور جنرل پرویز مشرف نے ملک کا چیف ایگزیکٹو بن کر اقتدار سنبھالا تھا۔
جنھوں نے غیر سول عدالتیں قائم نہیں کی تھیں اور چاروں آمر آئین کو پامال کرکے اقتدار میں آئے اور جنرل یحییٰ کے سوا ہر ایک جمہوری وزیراعظم کی مقررہ مدت سے زیادہ اقتدار میں رہا اور سب سے طویل حکمرانی جنرل ضیاء الحق نے کی اور جنرل ضیاء اور جنرل پرویز نے اپنے دور میں صدر رہتے ہوئے غیر جماعتی اور جماعتی الیکشن کرائے جو آدھے پاکستان کے تھے جب کہ جنرل یحییٰ کا 1970 میں کرایا گیا الیکشن 1947 کے پاکستان کا تھا جس کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان کی اکثریت کو تسلیم نہ کر کے جنرل یحییٰ نے ملک دولخت کرادیا تھا جو بدستور صدر رہنا چاہتے تھے۔
تین غیر سول صدور نے ملک کو مختلف بلدیاتی نظام دیے اور ملک میں 6 بار بلدیاتی انتخابات کرا کر نچلی سطح سے ابھرنے والوں کو موقع ملا کہ وہ سیاست میں اہم کردار ادا کریں کیوں کہ جمہوریت کی نرسری نچلی سطح کے بلدیاتی انتخابات کہلاتے ہیں۔
تین آمروں نے جمہوریت کی نرسری کو پنپنے کا موقع دیا جس میں تینوں کا سیاسی مفاد بلاشبہ تھا مگر تینوں کو یہ کریڈٹ جائے گا کہ ملک میں سب سے پہلے بلدیاتی نظام نافذ کیا مگر کوئی بھی جمہوری کہلانے والا وزیراعظم ملک کو اپنا اور ملک میں جنرل پرویز کے پہلے با اختیار ضلعی حکومتوں کے 2008 میں خاتمے کے بعد جو بلدیاتی نظام بحال کیاگیا وہ جنرل ضیاء الحق کے1979 کے بلدیاتی نظام کی شکل ہے جس میں منتخب نمایندے نام کے بااختیار ہیں۔
ملک کے 1973 کے آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ حکومتیں مدت پوری ہونے پر بلدیاتی الیکشن باقاعدگی سے کرانے کی پابند ہیں اور جمہوری کہلانے والی ان حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانا ہے مگر کسی صوبے میں جنرل پرویز مشرف جیسا بااختیار مقامی حکومتوں کا نظام نہیں ہے۔
چاروں صوبے آئین کے برعکس مختلف اور بے اختیار بلدیاتی نظام بنا رہے ہیں جو کھلم کھلا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ آئین کی تشریح کی مجاز ہے جس نے 2015میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا جس پر عمل بھی ہوا مگر آئین کے تحت ملک کے بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے کے لیے کوئی حکم جاری نہیں ہوا جس کی وجہ سے ہر صوبے کا بلدیاتی نظام مختلف حکومتوں کا محتاج اور بے اختیار ہے جب کہ ملک بھر میں ایک جیسا بلدیاتی نظام اور مقامی سطح کی حکومتیں ہوتی ہیں مگر ملک میں تیسری سطح کی حکومت کا کوئی وجود نہیں جو سیاسی حکومتوں کی آئین شکنی ہے مگر کوئی سیاسی حکومتوں کو پوچھنے والا نہیں ہے۔
ملک کے دو لخت ہونے کے بعد متفقہ طور پر سیاستدانوں نے 1973 کا آئین دیا تھا جس کے تحت ملک میں بااختیار بلدیاتی نظام موجود نہیں، بلدیاتی الیکشن ہوجائیں تو وہ مکمل نہیں کیے جاتے اور ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد نو منتخب بلدیاتی عہدیداروں کو چارج ملتا ہے جن کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔
صوبائی حکومتیں جب چاہیں اپنے مخالف بلدیاتی اداروں کو توڑ دیں اور منتخب لوگوں کو فارغ کرکے گھر بھیج دیں اور ان کی جگہ مرضی کے ایڈمنسٹریٹر مسلط کردیں جن کے خلاف بلدیاتی عہدیدار عدالتوں میں جائیں تو انھیں طویل عرصہ بعد بحالی کا فیصلہ ملے جس پر صوبائی حکومتیں عمل نہ کرکے عدالتی حکم کی پروا ہی نہ کریں اور عدالتیں اپنے فیصلوں کی حکم عدولی کرنے والے وزرائے اعلیٰ سے پوچھیں کہ وہ آئین کی دفعہ A140 پر عمل کرکے بلدیاتی اداروں کو بااختیار کیوں نہیں بنارہے اور فیصلے پر عمل فوری کیوں نہیں ہوتا۔ وزرائے اعلیٰ آئین شکنی کیوں کرتے آرہے ہیں۔
آمر ملک کے آئین کو توڑ کر یا معطل کرکے اقتدار میں آتے ہیں اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مسلسل آئین شکنی کرتے ہیں اور پھر مرضی کی پارلیمنٹ منتخب کرا کر اپنے غیر آئینی اقدامات کو آئینی تحفظ دلادیتے ہیں اور بعد میں محفوظ رہ کر زندگی گزارتے ہیں۔
ملک کے آخری آمر صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد 15سال دیار غیر میں گزارے اور وطن میں دفن ہوئے ۔ قومی اسمبلی میں ان کے لیے دعائے مغفرت ہوئی سینیٹ میں ہونے نہیں دی گئی کہ جنرل مرحوم آئین شکن تھے۔
پرویز مشرف کی نماز جنازہ میں سیاسی پارٹیوں میں ایم کیو ایم سب سے نمایاں رہی جب کہ مرحوم جنرل کے عمران خان سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں پر بھی احسانات تھے ۔
مرحوم جنرل نے 1999 میں آئین شکنی کرکے اقتدار سنبھالا تھا اور اقتدار برقرار رکھنے کے لیے پی پی اور ن لیگی قیادت کو بھگا کر سمجھا تھا کہ ان کی قیادت سیاسی طور پر ختم ہوگئی۔ مجموعی طور پر سیاسی رہنماؤں نے ان سے فائدے بھی اٹھائے تو فائدہ اٹھانے والوں کو ان کی آئین شکنی یاد نہیں رہی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ان پر آئین شکنی کا مقدمہ ذاتی وجوہات کے باعث بنوایا جس کی سزا نواز شریف نے بھگتی۔
عمران خان نے بھی اقتدار میں آنے کے لیے اپنے محسنوں سے خوب فائدے اٹھائے اور ان محسنوں کے جاتے ہی وہ ان کے دشمن بن گئے اور ان کے احسانات بھول گئے اور دس ماہ قبل جب ان کے محسنوں نے عمران خان کا اقتدار بچانے میں مدد نہیں کی تو وزیراعظم عمران خان نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے قومی اسمبلی میں اسد قیصر اور قاسم سوری کی صورت میں جو آئین شکنی کرائی اسے سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیا مگر اتحادی بے بس حکومت نے سیاسی آمریت کے ذمے دار عمران خان کو ان کی آئین شکنی پر آزاد چھوڑ رکھا ہے۔