جدیدٹیکنالوجی نے میوزک انڈسٹری کونقصان پہنچایا استاد بشیر خان

پاکستان اوربھارت میں فنکاروں کو موسیقاروں ،طبلہ نوازاورہارمونیم کی ضرورت نہیں رہی، نیاز احمد


Umair Ali Anjum April 12, 2014
آج کا گانا زیادہ دیرتک عوام کے ذہنوں میں نہیں رہتا اور لوگ جلد اسے بھول جاتے ہیں، بشیر خان ۔ فوٹو: فائل

جدیدٹیکنالوجی ہردورکی اہم ضرورت رہی ہے اورٹیکنالوجی کے آنے سے دنیاکے مختلف ممالک کی معاشی حالات بہترہوئی ہے۔

پاکستانی عوام کی تقدیربھی کافی حدتک اسی ٹیکنالوجی نے بدلی ہے لیکن میوزک انڈسٹری کوٹیکنالوجی نے خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ ماضی میں جب کسی گیت یاغزل کو تیار کیا جاتا تھا تو اس کے لیے باقاعدہ شاعر، موسیقار، ہارمونیم نواز،طبلہ نواز، کا سہارا لیا جاتا تھا جو کسی بھی گانے یاغزل کوتیارکرتے تھے مگرنئے آنے والے فنکاروں نے اس ریت سے بغاوت کی اورٹیکنالوجی کاسہارالیناشروع کیا شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج کا گانا زیادہ دیرتک عوام کے ذہنوں میں نہیں رہتا اور لوگ جلد اسے بھول جاتے ہیں ۔

صدارتی ایوارڈ یافتہ موسیقار نیاز احمد کا کہنا ہے کہ ہندوستان اورپاکستان میں اب فنکاروں کوموسیقاروں ،طبلہ نوازاورہارمونیم کی ضرورت نہیں ہے آج کانوجوان خود ہی گانالکھتاہے اورگھرمیں ایک کمپیوٹرلگالیتاہے جس سے طبلہ بھی خودبھرلیتاہے اسکامیوزک بھی وہیں تیار ہو جاتا ہے جب ساراکام ایک مشین کررہی ہوتووہ ہمیں کیوں پیسے دیگا۔طبلہ نواز استاد بشیر خاں کاکہناہے کہ ایک مشین نے ہمارے سالوں کے کام کو رد کر دیا۔ ہارمونیم نواز استاد ادریس خان کاکہناہے میڈم نورجہاں،مہدی حسن، رونا لیلا سمیت لیجنڈزنے ان چیزوں کاسہارا نہیں لیا برسوں بعدبھی ہم اگرکسی کلاسیکل غزل یاگیت کوسنتے ہیں تودل چاہتاہے کہ دوبارہ سنیں مگرنئے گانے ایک باربھی سننے کو دل نہیں چاہتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں