صحت کا شعبہ معاشی بحران کی زد میں
گزشتہ سال کے آخر تک ادویات کی قیمتوں میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہوا تھا
محمد نوید کی عمر 60 سال ہے، ان کا تعلق کراچی میں ہی صدیوں سے آباد ایک برادری سے ہے۔ اس برادری میں دل کے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ ہے۔
اس برادری کے بیشتر خاندان نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ ملازم پیشہ ہیں اور کچھ کا تعلق تعمیراتی شعبہ سے ہے۔ انھوں نے کچھ عرصہ سعودی عرب میں گزارا جہاں انھیں دل کا مرض لاحق ہوا، پھر کراچی واپس آئے۔
دنیا کے سب سے بڑے (بقول پیپلز پارٹی رہنماؤں کے ) دل کے علاج کے اسپتال نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (N.I.C.V.D) میں بیرونی امراض کے شعبہ (O.P.D) سے علاج کرایا۔ ڈاکٹروں نے نوید کو فوری طور پر بائی پاس کا مشورہ دیا۔ شہر میں تقریباً مفت علاج کے لیے این آئی سی وی ڈی مشہور ہے، یوں نوید اسپتال کے جنرل وارڈ میں داخل ہوئے۔
نوید اور ان کے خاندان کے لیے صبر اور انتظار کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ نوید کو بائی پاس آپریشن کی تاریخ مل گئی، پھر اس تاریخ پر آپریشن نہ ہوا۔ پھر تاریخ ملتی گئی، چھ ہفتے گزرگئے۔ یہی صورتحال آپریشن کے منتظر سیکڑوں مریضوں کے ساتھ ہوئی۔
اسپتال کے عملہ نے مریضوں کو مشورہ دینا شروع کیا کہ وہ رضاکارانہ طور پر ڈسچارج سرٹیفکیٹ لے لیں اور کسی پرائیوٹ اسپتال سے رجوع کریں۔ پرائیوٹ اسپتال میں بائی پاس آپریشن کے لیے اب آٹھ سے دس لاکھ روپے ہونا ضروری ہیں۔
ایسی ہی صورتحال ملک کے دیگر اسپتالوں میں بھی ہے۔ اسپتال کے عملہ نے یہ عذر بیان کیا کہ آپریشن کے لیے آلات اور متعلقہ سامان دستیاب نہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ این آئی سی وی ڈی نے گزشتہ چھ ماہ سے مریضوں کی مفت میں اینجیوگرافی بھی نہیں ہورہی مگر جو مریض پیسے دیتے ہیں ان کا پرائیوٹ سیٹ اپ کے تحت علاج کیا جاتا ہے۔
1963 میں ملک کا امراض قلب کے علاج کا سب سے بڑا ادارہ قائم ہوا۔ این آئی سی وی ڈی کے قیام کے قت شایع ہونے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کے مرکزی وزیر خزانہ محمد شعیب نے اس اسپتال کے قیام میں خصوصی دلچسپی لی تھی۔
پہلے کراچی میں جناح اسپتال میں ایک دل کے امراض کے علاج کا وارڈ تھا جو 1956 میں قائم ہوا، بعدازاں حکومت پاکستان ،یو ایس ایڈ اور جاپان کی امداد سے یہ قومی انسٹی ٹیوٹ کے درجہ پر فائز ہوا۔
اس کا باقاعدہ افتتاح 14 اگست 1971 کو ہوا تھا۔ جنرل ضیاء الحق حکومت کے اقتدار میں آتے ہی 1979میں این آئی سی وی ڈی کو وفاق کی تحویل میں لے لیا گیا اور وزارت صحت کی نگرانی میں این آئی سی وی ڈی کو خودمختار حیثیت دیدی گئی۔
2010میں آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت این آئی سی وی ڈی کو سندھ حکومت کی تحویل میں دیا گیا۔ حکومت سندھ نے این آئی سی وی ڈی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر ندیم قمر نے کراچی شہر میں اور سندھ کے مختلف شہروں میں سیٹلائٹ اسٹیشن قائم کیے۔
چند برسوں قبل یہ تاثر حقیقت میں تبدیل ہوا تھا کہ اس اسپتال میں مریضوں کو علاج کے لیے کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا، مگر پھر صورتحال میں تبدیلی ہوئی اور اب مریض آپریشن کے انتظار میں رہتے ہیں اور مایوس ہورہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ این آئی سی وی ڈی میں یہ صورتحال اس کے اندرونی معاملات اور ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر لاپتہ ہونے سے پیدا ہوئی ہے۔
شعبہ صحت کی رپورٹنگ کرنے والے کچھ رپورٹروں کا یہ کہنا ہے کہ اس ادارہ کے اندرونی معاملات سے صورتحال زیادہ خراب ہے۔
ڈالر کی نایابی کی بناء پر اور کراچی کی بندرگاہ پر رکے ہوئے ٹرالرز کے کلیئر نہ ہونے اور اہل سی نہ کھلنے کی بناء پر صحت کا شعبہ مجوعی طور پر متاثر ہوا ہے۔
ادویات تیار کرنے والی کمپنیاں اس حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد باقاعدہ مہم چلاتی رہی ہیں کہ انھیں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کی اجازت دی جائے۔ حکومت نے پہلے تو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مقامی کمپنیوں کے دباؤ کو برداشت کیا تو بازار میں کھانسی اور بخار کی دوائیاں لاپتہ ہوگئیں۔
بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ سال کے آخر تک ادویات کی قیمتوں میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ شوگر، دل، گردوں اور کولیسٹرول کے امراض والے مریض اس صورتحال سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ان میں سے کچھ ادویات کی قیمتوں میں تو پچاس فیصد کے قریب اضافہ ہوا۔
گزشتہ تین مہینوں کے دوران ایل سی نہ کھلنے کی بناء پر ادویات اور ان کی تیاری کا خام مال مارکیٹ میں دستیاب نہ ہوا، یوں انسانی جان بچانے والی ادویات خاص طور پرانسولین ملک کے مختلف شہروں سے نایاب ہوگئی۔
اب حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک نیا معاہدہ کیا۔ اس معاہدہ کے تحت آئی ایم ایف سے ملنے والی گرانٹ سے ملک ڈیفالٹ نہیں ہوگا۔ حکومت نے اس معاہدہ پر عملدرآمد کے لیے گیس، بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں سو فیصد اضافہ اور اشیاء پر جی ایس ٹی لگانے کا فیصلہ کیا۔
اس عمل کو قانونی تحفظ دینے کے لیے ایک آرڈیننس تیار ہوا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ذاتی طور پر صدر ڈاکٹر عارف علوی سے ملنے ایوانِ صدر گئے اور صدر سے استدعا کی کہ حکومت کے تیار کردہ آرڈیننس پر دستخط کریں، مگر صدر نے اس آرڈیننس پر دستخط ثبت کرنے سے انکار کیا۔
جب حکومت منی بجٹ کو منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں لے گئی تو صرف چند اراکین کے سوا باقی نے اس بجٹ کی منظوری دے دی۔
کھانے پینے کی اشیاء سمیت تمام اشیاء پر جی ایس ٹی عائد ہونے، بجلی اور گیس کے نرخ میں زبردست اضافہ سے ادویات کی صنعت براہِ راست متاثر ہوئی جس کی بناء پر ادویات کی قیمتیں ہی نہیں بڑھیں بلکہ لیبارٹری ٹیسٹ، ایکسرے، الٹراساؤنڈ وغیرہ میں استعمال ہونے والی فلموں کی قیمتیں بھی بڑھیں گی اور ان مشینوں کو فعال رکھنے والے پرزوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔
بقول معاشیات کے ایک طالب علم کے صرف اس صورتحال کے بارے میں تصور کیا جاسکتا ہے، یوں صحت کا شعبہ ایک دفعہ پھر متاثر ہوگا، اگرچہ اقتصادی ماہرین پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف سے تعلق کو درست قرار دیتے ہیں مگر کچھ جہاندیدہ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت عوام کو اس صورتحال سے بچانے کے لیے بعض اہم اقدامات کرسکتی ہے۔
ان اقدامات میں دفاعی اخراجات سمیت تمام غیر پیداواری اخراجات میں کمی، ریاستی ڈھانچہ کی تنظیم نو، بڑی کاروں سمیت سیمی لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی شامل ہے۔
پھر کئی سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت بھارت سے تجارت پر پابندی ختم کرے تو بھارت سے ادویات کی تیاری کے لیے خام مال زیادہ سستا دستیاب ہوسکتا ہے، مگر محسوس ہوتا ہے کہ حکومت صرف عوام کا خون چوسنے پر یقین رکھتی ہے، اگر حکومت نے اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں نہ کیں تو جس صورتحال کا سامنا این آئی سی وی ڈی کے مریضوں کو ہوا وہ صورتحال دیگر اداروں کو مزید متاثر کرے گی۔
مجموعی صورتحال کے جائزہ سے پھر ثابت ہوا ہے کہ عوام ریاست کی اولین ترجیح نہیں ہے۔ حکومتیں آتی جاتی ہیں مگر ریاست کا ایجنڈا تبدیل نہیں ہورہا۔