عمران خان بالا آخر عدالت میں پیش
آپ کہہ سکتے ہیں کہ معزز جج صاحبان نے عمران خان کو مجبور کیا کہ وہ عدالت میں پیش ہوں
عمران خان بالآ خر لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہو گئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ پاکستان کے عدالتی نظام کی فتح ہے کہ آخر کار عمران خان کو اپنی حفاظتی ضمانت کے لیے عدالت کے روبرو حاضر ہو نا پڑا، اور وہ گھر بیٹھ کر حفاظتی ضمانت لینے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ معزز جج صاحبان نے عمران خان کو مجبور کیا کہ وہ عدالت میں پیش ہوں، وہ پہلے قانون کے تقاضے پورے کریں، صرف اسی صورت میں ہی انھیں حفاظتی ضمانت مل سکتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے جب ملزم عدالت میں پیش ہو جائے تو حفاظتی ضمانت سے انکار نہیں ہو سکتا۔ عدالت میں پیش ہونے کے بعد حفاظتی ضمانت عمران خان کا حق تھا، اس کو روکا نہیں جا سکتا تھا لیکن گھر بیٹھ کر کسی صورت میں حفاظتی ضمانت نہیں مل سکتی تھی۔ اس لیے قانونی تقاضہ پورا ہو گیا تو سب ٹھیک ہوگیا۔
عدالت نے عمران خان کو عدالت میں پیش ہونے پر مجبور کر کے ملک میں یکساں نظام انصاف کے سنہرے اصول کو برقرار رکھا ہے۔ اگر ایک عام شہری کو اپنی ضمانت قبل ا ز گرفتاری اور حفاظتی ضمانت کے لیے عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے تو عمران خان کو بھی پیش ہونا چاہیے ۔
اگر عام شہری کو بغیر پیش ہوئے حفاظتی ضمانت نہیں مل سکتی تو عمران خان کو بھی نہیں ملنی چاہیے۔ اگر عام آدمی بیمار ہو ،کچھ بھی ہو، اسے ہر صورت عدالت میں پیش ہونا ہوتا ہے تو عمران خان کو بھی پیش ہونا ہے، قانون میں عمران خان کے لیے گنجائش نہیں نکالی جاسکتی۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ جج صاحبان کے لیے مقبول اور غیر مقبول میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے، اہم اور غیر اہم کا بھی کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے، امیر و غریب میں بھی کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے، یہی یکساں نظام انصاف کا بنیادی اصول اور اس کی روح ہے۔
ٹھیک کام بھی اگر غلط طریقے سے کیا جائے تو وہ ٹھیک ہونے کے باوجود غلط ہی رہتا ہے۔ ٹھیک کام ٹھیک طریقے سے کرنا لازم ہوتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں عمران خان کی پیشی اس کی بہترین مثال ہے۔
ہم یہ نقطہ اٹھا سکتے ہیںکہہ یہاں بھی ٹھیک کام ، ٹھیک طریقے سے نہیں کیا گیا، پیش ہونے کے اصول کو قائم رکھنے کے چکر میں کئی اصول توڑے بھی گئے،کسی شخص کو پیشی کے لیے اتنی رعایت ملنا ، قانون دان اور عوامی حلقے اس کے حق میں نہیں ہیں۔
عمران خان کو پیش ہونے کاجو بار بار موقع دیا گیا، اس نے سوال پید اکیا ہے کہ کیا ملک کے عام شہری کو بھی یہ بار بار موقع دیا جاتا ہے؟ عام شہری کی درخواست ضمانت پیش ہونے پر فوری مسترد کر دی جاتی ہے، جج صاحبان دس منٹ بھی انتظار نہیں کرتے، تو پھر عمران خان کو کئی دن تک بار بار مواقع ملنے پر مباحث تو ہونے ہی ہیں۔
ایسا تاثر کیوں پیدا ہوا کہ ''محترم'' عمران خان سے بار باردرخواست کی جا رہی ہے کہ پلیز آجائیں، دیکھیں! جس وقت پیش ہونا چاہیے ، آپ آجائیں لیکن آضرور جائیں۔ اس لیے جہاں عمران خان کا عدالت کے روبر پیش ہونا ملک میں یکساں نظام انصاف کی جیت ہے، وہیں اس پیشی کا انداز یکساں نظام انصاف کے تضاضوں کے برعکس نظر آتا ہے۔
یوں عدالت کا بار بار موقع دینا اورپھر عمران خان کے لیے رات گئے تک انتظار میں بیٹھے رہنا گلی محلے کا موضوع بن گیا۔ جب عام آدمی کے لیے رات کو عدالتیں نہیں لگتیں تو عمران خان کے لیے کیوں لگ گئیں۔
قانون کا اس بات سے کیا سروکار کہ کس کے ساتھ کتنے لوگ آئے ہیں۔ کیا جو سائل اپنے ساتھ لوگوں کا ہجوم نہیں لا سکتا، اس کا ایک منٹ بھی انتظار نہیں کیا جا سکتا؟ ضمانت لینے کے جلوس لے کرآنا معیار کب سے بن گیا ہے۔ عدالتیں ہجوم اور جلوسوں سے کب سے مرعوب ہونے لگی ہیں۔
ایک اور نقطہ بھی قابل غور ہے، جب عمران خان نے مان لیا کہ ان کے دستخط جعلی ہیں، ان کی مرضی کے بغیر درخواست ضمانت دائر کر دی گئی۔
قانون کی نظر میں یہ اعتراف کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ فرض کریں، جس ریلیف کے حصول کے لیے یہ درخواست ضمانت دائر کی گئی تھی، وہ مل جاتا تو کیا ہوتا؟ کیا یہ معززعدالت کو دھوکا دینے کی کوشش نہیں ہے؟ کیا ایسی حرکت کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟
جب یہ اعتراف کر لیا گیا کہ بیان حلفی اور وکالت نامہ جعلی تھا تو کیا مقدمہ فوجداری نہیں بنتا تھا؟ کیا نظام انصاف کا تقاضہ نہیں تھا کہ عدالت میں اس فراڈ پر ایکشن لیا جاتا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر عام آدمی عدالت سے ایسا فراڈ کرے تو اس سے نظرانداز کردیا جائے گا؟ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ میں ایک سنیر وکیل نے گاؤن نہیں پہنا رکھا تھا۔
اسے آگاہ بھی کیا لیکن وکیل صاحب کا رویہ عدالتی احترام کے مطابق نہیں تھا، تو معزز جج صاحب نے وکیل کو تین ماہ قید کی سزا سنا دی۔ وکلا برداری نے اپنے ساتھی وکیل کے لیے بہت احتجاج بھی کیا اورموقف لیا کہ چھوٹی سی بات پر اتنی بڑی سزا سنا دی گئی لیکن یہاں تو معاملہ بھی چھوٹا نہیں تھا، جعلی دستخط کا معاملہ تھا لیکن پھر بھی درگزر کیا گیا۔
قانون کا فلسفہ ، مدعا اور اصول یہی ہے کہ ہر سائل کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اگر کوئی کسی ایک قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے، قانون کے مطابق ایک جیسے فیصلے ہی یکساں نظام انصاف ہے۔ جب خاص اور عام کو الگ الگ انصاف ملے گا تو سوال اٹھیں گے۔ خاص اور عام انصاف ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
ایک کی جیت اور ایک کی ہار یقینی ہے۔ خاص انصاف کی جیت عمومی ہے۔ خاص لوگ خاص انصاف کو اپنا حق سمجھنے لگ جاتے ہیں۔
عام لوگوں کا نظام انصاف سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ ایک طرف لوگ عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں، دوسری طرف وی آئی پی سلوک عام آدمی کا استحصال بن جاتا ہے، جب کسی سائل یا ملزم کی گاڑی اندر نہیں آسکتی تو اس کا مطلب واضع ہے کہ نہیں آسکتی، چاہیے کوئی بھی ہو۔
اگر کسی عام سائل کا انتظار نہیں کیا جاتا تو خاص کا کیسے کیا جا سکتا۔اس لیے میری رائے میں عمران خان کا عدالت میں پیش ہونا جہاں قانون کی سربلندی اور یکساں انصاف کے لیے ا چھی بات ہے، وہاں جس طرح وہ پیش ہوئے ہیں، وہ یکساں نظام انصاف کی نفی بن گیا۔ اچھا کام غلط طریقے سے کیا بھی جائے تو اس کے نتائج غلط ہی ہوتے ہیں، عمران خان کا پیش ہونا یکساں نظام انصاف کی ا چھی مثال نہیں بن سکا بلکہ غیر معمولی انصاف کی مثال بن گیا۔ عدلیہ کے ذمے داروں کو اس پر سوچنا چاہیے۔