دستاویزات میں کم از کم اجرت کا قانون
بیشتر مزدوروں کا یہ خیال ہے کہ حکومت سندھ کم از کم اجرت کے قانون پر عمل نہیں کرائے گی
سندھ حکومت نے کم از کم اجرت بورڈ کی سفارش پر حکومت سندھ نے غیر ہنرمند محنت کشوں کی کم از کم اجرت 25 ہزار روپے ماہانہ کرنے کے فیصلے کو اخبارات میں ایک نوٹی فکیشن کے ذریعہ جاری کرکے ایک مقدس فریض بھی انجام دے دیا۔
گزشتہ ہفتہ جاری ہونے والے نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے سندھ کے غیر ہنرمند مزدوروں کی کم از کم اجرت کا فیصلہ یکم جون 2022 سے ہوا تھا۔ سندھ کے لیبر ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ کم از کم اجرت ایکٹ 2015 کے تحت ہر آجر اس پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
لیبر ڈپارٹمنٹ نے تمام آجروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ غیر ہنرمند ورکرز کی آگاہی کے لیے تعریفی بیان کو فیکٹری کے احاطہ کے باہر ایک مناسب سائز کے بینر یا بورڈ کے ذریعہ نمایاں کیا جائے۔
گزشتہ دو سال پہلے حکومت سندھ نے مزدوروں کی یونینوں کے اس مطالبہ کو تسلیم کرلیا تھا کہ سندھ میں غیر ہنرمند مزدوروں کی کم از کم تنخواہ 25 ہزار روپے مقرر کی جائے مگر محکمہ لیبر کے افسروں نے ایک طرف تو یہ فیصلہ کیا مگر اس فیصلہ کو قانونی شکل دینے کے لیے جان بوجھ کر متعلقہ قانون کی پابندی نہیں کی۔ حکومت سندھ کو پہلے اس فیصلہ کو کم از کم اجرت بورڈ کے سامنے پیش کرکے منظوری حاصل کرنی تھی ۔
اس کا آجروں نے فائدہ اٹھایا ، یوں یہ مسئلہ پھر سندھ ہائی کورٹ میں التواء کا شکار رہا، یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں گیا۔
جس میں کم از کم اجرت بڑھانے کے فیصلے کو رد کر دیا گیا۔ حکومت سندھ نے دوبارہ اس معاملہ پر سنجیدگی سے توجہ دی، یوں سندھ میں غیر ہنرمند مزدوروں کی اجرت کا قانون نافذ ہوا، سندھ اس اعتبار سے دیگر صوبوں سے بازی لے گیا کیونکہ دیگر صوبوں میں غیر ہنرمند مزدوروں کی اجرت 20 ہزار روپے تھی البتہ سندھ میں بھی اس فیصلہ پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔
گزشتہ سال سے ملک میں معاشی بحران بڑھ گیا، ڈالر کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ حکومت نے بار بار بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔
گیس کے لاپتہ ہونے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے صنعتی شعبہ متاثر ہوا۔ گزشتہ کئی ماہ سے ڈالر دستیاب نہ ہونے سے ایل سی کھلنا بند ہوگئیں۔ ملک میں کساد بازاری کی صورتحال پیدا ہوئی جس سے برآمدات براہِ راست متاثر ہوئیں۔
پاکستان کی برآمدات میں گارمنٹس کا اہم کردار ہے۔ کراچی، حیدرآباد، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور دیگر شہروں میں گارمنٹس بنانے کے ہزاروں کارخانے کام کرتے ہیں، یوں گارمنٹس کی صنعت براہِ راست متاثر ہوئی۔ملک میں نافذ لیبر قوانین کے تحت فیکٹریوں کو مختصر اور طویل عرصہ بند کرنے اور مزدوروں کو پے آف کرنے سے متعلقہ قوانین موجود ہیں۔
ان قوانین پر عملدرآمد کیا جائے تو آجر کو کمپنی کے اکاؤنٹس اور کارخانہ کی پیداوار کے بارے میں دستاویزات لیبر ڈپارٹمنٹ کو پیش کرنا ہوتی ہیں۔ ہزاروں کارخانوں کے مالکان نے اچانک کارخانے بند کردیے۔
کچھ میں تو ایسا ہوا کہ مزدور صبح کام کو پہنچے تو بری خبر ان کی منتظر تھی کہ اب ان کا روزگارنہیں رہا۔ اس دفعہ بعض آجروں نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا۔ انھوں نے کارخانے بند ہونے کی اطلاع اسٹاک ایکسچینج کو دی۔ سینئر مزدور رہنما عثمان بلوچ کا کہنا ہے کہ سندھ میں کبھی بھی کم از کم اجرت کے قانون پر پہلے بھی مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوا اور جو صورتحال ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اب بھی اس قانون پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوگا۔
متحدہ ہندوستان کی تاریخ سے مزدوروں کے حالات کار کی جدوجہد پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ متحدہ ہندوستان میں 30ء کی دہائی کے آغاز سے صنعتوں کا حجم بڑھنا شروع ہوا۔ مزدوروں کی تعداد بھی بڑھنے لگی، یوں مزدور تحریک شروع ہوئی۔
مزدور یونین بننے لگیں۔ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی نے سب سے پہلے مزدوروں کو منظم کرنے کا کام شروع کیا۔ کانگریس کے اکابرین نے بھی مزدوروں کو منظم کرنے پر توجہ دی۔ مسلم لیگ کے سربراہ بیرسٹر محمد علی جناح 40ء کی دہائی تک آزادی صحافت، خواتین کی آزادی اور مزدوروں کے حقوق کے علم بردار تھے۔
بیرسٹر محمد علی جناح کی کوشش سے 1929 میں Trade dispute act 1929 نافذ ہوا۔ اس نوعیت کے مختلف قوانین نافذ ہوئے۔ بٹوارہ کے بعد پاکستان میں تمام تر ریاستی پابندیوں کے باوجود مزدور تحریکوں کے نتیجہ میں مزدوروں کے حالات کار میں بہتری آئی، مختلف حکومتوں نے لیبر پالیسیاں نافذ کیں۔ کراچی کے مزدوروں کی 1963 اور 1972 کی تحریکیں مزدور تحریک میں ایک یادگار حیثیت رکھتی ہیں۔
اس کے نتیجہ میں ایسے قوانین نافذ ہوئے جن سے نہ صرف مزدوروں کی تنخواہیں بڑھیں بلکہ ان کو دیگر مراعات بھی ملنے لگیں۔ سوشل سیکیورٹی اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹس جیسے ادارے قائم ہوئے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (I.L.O) کی طے کردہ قوانین کے تحت کچھ قانون سازی ہوئی۔
گو ابھی تک ملک میں کسی بھی برسرِ اقتدار آنے والی حکومت نے مزدور طبقات کو اولین ترجیح نہیں دی لیکن جنرل ضیاء الحق کا دورِ اقتدار مزدور تحریک کے لیے بھیانک قرار دیا جاسکتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور کا آغاز ملتان میں کالونی ٹیکسٹائل ملز کے مزدوروں کے معاشی قتلِ عام سے ہوا۔ مستقل ملازمت کے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کنٹریکٹ سسٹم کو نافذ کیا گیا۔
90 کی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد فری مارکیٹ اکانومی کا دور شروع ہوا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے مزدوروں کی تعداد کم ہوئی۔ ایسا یورپی ممالک اور امریکا میں بھی ہوا ۔ پاکستان میں مزدوروں کے تحفظ کے تمام آلات بے اثر ہوئے۔
مزدوروں کے حقوق کے تحفظ میں لیبر ڈپارٹمنٹ اور مزدوروں کی عدالتوں کا اہم کردار ہوتا ہے مگر لیبر ڈپارٹمنٹ کے افسروں نے مزدوروں کے بجائے آجروں کے تحفظ کی روایت اپنالی۔ حکومتوں نے مزدور عدالتوں کے ججوں کا تقرر فراموش کردیا۔
مہینوں عدالتوں میں جج صاحب کا تقرر نہیں ہوتا۔ مزدور یونینوں کے رہنماؤں نے مراعات کے حصول کو مقدم جانا، یوں مزدوروں کی اکثریت مزدور یونین سے مایوس ہوئی۔کچھ ایماندار مزدور رہنماؤں نے مزدوروں کے حالاتِ کار کی بہتری، بین الاقوامی قوانین کے تحت اجرتوں اور مراعات کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور اپنے مقاصد میں کچھ کامیابی حاصل کی مگر مجموعی طور پر صورتحال مایوس کن رہی۔
اب بھی بیشتر مزدوروں کا یہ خیال ہے کہ حکومت سندھ کم از کم اجرت کے قانون پر عمل نہیں کرائے گی اور آجر محض دستاویزات میں اس قانون پر عملدرآمد ظاہر کریں گے۔