اسحاق ڈار کا عام آدمی
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں غریب امیروں کو پال رہے ہیں
پاکستان کا معاشی بحران اب انسانی زندگیوں کو نگلنا شروع ہوچکا ہے، ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے یہ ملک غریبوں کا قبرستان بننے جارہا ہے۔
خود کشی اسلام میں حرام ہے مگر آج غریب بھوک، افلاس اور معاشی حالات سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور ہے، اپنی جان لینا ناقابل معافی جرم ہے لیکن کیا بھوک اور افلاس کی وجہ سے خودکشی کرنے والے کی موت کے ذمے دار اللہ کے قہر سے بچ سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ آئیے مدینہ کی اصلی ریاست میں چلتے ہیں۔
جہاں امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ رات کو مدینہ کی گلیوں میں گشت کرتے ہیں اور رعایا کے حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ضرورت مندوں کے لیے بیت المال سے راشن کی بوریاں اپنی کمر پر لاد کر پہنچاتے ہیں، خادم کہتا ہے امیرالمومنین آپ کا بوجھ میں اٹھا لیتا ہوں۔ جواب دیا جاتا ہے کہ کیا روز قیامت بھی میرا بوجھ تم اٹھاؤ گے؟ ان کے دل میں اللہ کا اس قدر خوف تھا کہ وہ کہتے تھے اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو میں (عمر)ؓ کل اللہ کی عدالت میں جواب دہ ہوں گا۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
آج ہمارے حکمرانوں کے دلوں سے خوف خدا ختم ہوچکا ہے۔ اپنی معیشت کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیں گے پھر ہمارے ساتھ یہی کچھ ہونا تھا جو آج ہورہا ہے۔ میں کسی ایک حکومت کی بات نہیں کررہا۔ پچھلے 34 سال سے ہم مسلسل آئی ایم ایف کی غلامی میں ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے بعد اس ملک میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی اور ہم آئی ایم ایف کے دروازے پر پہنچ گئے۔ اس وقت سے آج تک ہم پوری طرح آئی ایم ایف کی غلامی میں ہیں۔ درمیان میں مشرف دور میں 2004 سے 2008 تک ہم نے آئی ایم ایف سے جان چھڑا لی تھی لیکن اس کے بعد پھر پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور ہم دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت ہم آئی ایم ایف کے جس پروگرام میں چل رہے ہیں۔
اس کی ذمے دار عمران خان کی حکومت ہے۔ جس نے آئی ایم ایف کی وہ شرائط تسلیم کیں جو اس ملک اور اس ملک کے عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم تھا۔ پھر عمران خان ان شرائط سے پیچھے ہٹا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف ہم سے خفا ہوا اور آج جب ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام کی اشد ضرورت ہے وہ ناک سے لکیریں نکلوا رہا ہے جس کا لامحالہ ملبہ عوام پر گررہا ہے۔
موجودہ حکومت سے بھی معاملات نہیں سنبھل رہے۔ بدترین معاشی صورتحال کو سنبھالنا اسحاق ڈارجیسے معیشت کے ارسطو کے بس کی بات بھی نہیں رہی۔ مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا، لمحہ موجود میں اس کی شرح 30فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے، جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔
یہ ہمارے اعداد و شمار نہیں ہیں، یہ حکومت کے اپنے اعداد و شمارہیں۔ ادارہ شماریات ہفتہ وار مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کرتا ہے۔ اس ادارے نے گزشتہ ایک ہفتے کے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں ان کے مطابق 24اشیاء کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات، بجلی، پیاز، لہسن، انڈے، دالیں، چاول، چینی، گھی، کوکنگ آئل، گھریلو سلنڈر، دودھ دہی، چائے کی پتی، وغیرہ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ وہ اشیاء ہیں جو روز مرہ استعمال ہونے والی بنیادی چیزیں ہیں ان میں سے ایک بھی لگژری آئیٹمز نہیں جسے عیاشی کے لیے استعمال کیا جائے۔
اب حکومت نے آئی ایم ایف کی فرمائش پر منی بجٹ پیش کردیا ہے۔ ابھی بجٹ پاس نہیں ہوا لیکن مارکیٹ میں اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ ملک میں گورننس نام کی کوئی شے نظر نہیں آرہی، مارکیٹ مکمل طور پر آزاد ہے، حکومت قیمتیں بڑھائے یا نہ بڑھائے، ذخیرہ اندوز روز قیمتوں میں اضافہ کررہے ہیں۔
انڈسٹری تیزی سے بند ہورہی ہیں، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، بیرون ملک سے خام مال منگوانے کے لیے ڈالرز موجود نہیں، دنیا میں کوئی ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں۔ مگر اسحاق ڈار صاحب فرما رہے ہیںکہ عام آدمی متاثر نہیں ہوگا 'پتہ نہیں عام آدمی سے کیا مراد ہے! اسحاق ڈار صاحب شاید اپنے اور شریف خاندان کے افراد کو عام آدمی سمجھ رہے ہیں۔
پاکستان کے معاشی بحران کا سب سے زیادہ ذمے دار طبقہ طاقتور اشرافیہ کا ہے جس نے غلط پالیسیاں بنا کر، کرپشن کرکے، ناجائز مراعات حاصل کرکے اور قرضے معاف کروا کر ملک کو بحران سے دوچار کیا اور پھر آئی ایم ایف کا بہانہ کرکے مشکل فیصلوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا۔ ان کے مطابق یہ طبقہ ہر جگہ موجود ہے اسے بعض سیاست دانوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔
انھیں اداروں سے بھی ریلیف مل جاتا ہے اس لیے آج بھی بجٹ خسارہ درست کرنے کے لیے شاہانہ حکومتی اخراجات کم کرنے، کابینہ کا سائز چھوٹا کرنے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کے بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔
"ان کے بقول"، اشرافیہ کا یہ مافیا ٹیکس ایمنسٹی کے نام پر ٹیکس چوری کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے، ڈالر کی اسمگلنگ پر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بھی توڑ دیتا ہے۔
موجودہ بحران کی زیادہ ذمے داری ملکی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے۔ جو چار ہزار ارب کی مراعات لیے ہوئے ہے وہ اگر دو ہزار ارب کی مراعات چھوڑ بھی دے تو اس سے بھی عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ پاکستان کی بہترین بائیس فی صد زرعی زمین اس وقت ایک فی صد اشرافیہ کے پاس ہے جو کہ اس سے نو سو پچاس ارب روپے سالانہ کما کر صرف تین ارب روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہے۔
دوسری طرف گھی، چائے اور ڈرنکس سمیت کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس لگا کر غریب لوگوں سے چار سو پچاس ارب روپے لے لیے جاتے ہیں۔
موجودہ بحران ایک دو برس کی بات نہیں گوکہ اس میں شدت گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں آئی لیکن یہ بحران 30، 34 سالوں کی کہانی ہے جس میں سول اور غیر سول دونوں طرح کی حکومتیں شامل ہیں۔
ملک کو درکار ضروری معاشی اصلاحات کرنے، معیشت کو دستاویزی بنانے اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں سے جان چھڑانے کے لیے جتنی کوششیں کی جانی چاہیے تھیں وہ دیکھنے میں نہیں آئیں۔ اب یہ بحران ملکی تاریخ کا سب سے بڑا پریشان کن اور مشکل بحران بن چکا ہے۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کووڈ کی وبا، تاریخ کے بد ترین سیلاب، عالمی کساد بازاری اور یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والے حالات نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔صرف آٹھ سال کے قلیل عرصے میں ملکی قرضے دوگنا ہو گئے ہیں۔
پاکستان پر ایک سو چھبیس ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں۔ ملک کی بیوروکریسی کے زوال نے بھی ملک کے اقتصادی بحران کی سنگینی میں اضافہ کیا ہے۔ ان کی اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل اوراقتصادی پالیسیوں کے نفاذ میں ناکامی نے بھی ملک کے معاشی بحران کو بڑھاوا دیا ہے۔
اب اس بحران کا کوئی شارٹ کٹ سلوشن نہیں، فی الوقت اس بحران سے غربت میں جو اضافہ ہوا ہے، اس نے اس ملک کے غریبوں کو موت کے قریب کردیا ہے انھیں موت کے منہ میں جانے سے بچانا ہی اصل چیلنج ہے اس کے لیے حکومت کو فوری طور پر شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسیاں بنانا ہوں گی۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والے ریلیف میں اضافہ کرنا ہوگا، اس پروگرام کا دائرہ بڑھانا ہوگا۔ بدقسمتی سے سینیٹ میں جب اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تو اسے یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ بجٹ اجازت نہیں دیتا۔ یہ اس ملک کے ساتھ اور اس ملک کے غریبوں کے ساتھ ظلم ہے۔ اس ظلم میں شریک کوئی بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکے گا۔
یہ بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ اس ملک کے سیاستدان، سول و ملٹری بیوروکریسی جسے عرف عام میں اشرافیہ کہا جاتا ہے، یہی اشرافیہ اس ملک کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ یہ مراعات یافتہ طبقہ ہی اصل فساد کی جڑ ہے۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں غریب امیروں کو پال رہے ہیں۔ ہنگامی حالات کے پیش نظر مراعات یافتہ اس طبقے کو قربانی دینی چاہیے۔ ان کی مراعات پر کٹ لگانے کی ضرورت ہے ان سے بڑے بڑے محل نماں گھر واپس لے کر دس دس مرلے کے گھر دیے جائیں، لگژری گاڑیاں واپس لے کر چھوٹی گاڑیاں دی جائیں۔ مفت پٹرول، مفت بجلی اور مفت گیس کا سلسلہ بند کرنا چاہیے۔
خواجہ آصف کی تجویز بھی قابل عمل ہے۔ انھوں نے چند روز قبل کہا تھا کہ اس ملک کے غریب بھوکے مر رہے ہیں اور اشرافیہ کی عیاشیوں کے لیے پندرہ پندرہ سو کنال پر مشتمل گالف کلب ہیں۔ لاہور کا ایک گالف کلب جو پندرہ سو کنال پر مشتمل ہے اس کا سرکاری کرایہ صرف پانچ ہزار روپے ہے۔ یہ اس ملک کے غریبوں کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے۔
انھوں نے تجویز دی ہے کہ صرف دو گالف کلب فروخت کردیے جائیں تو ایک چوتھائی قرض ادا ہوجائے گا۔ حکومت کو موجودہ ہنگامی حالات کے پیش نظر ایسے ہی فیصلے جرات کے ساتھ کرنا ہوں گے اس سے ملکی قرضہ بھی کم ہوگا اور عوام کا اپنی حکومت پر اعتماد بھی بحال ہوگا۔ بس حکومت اس نیک کام کے لیے بسم اللہ کرے۔