کفایت شعاری مہم
پولیس تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکے ہیں
وزیر اعظم شہباز شریف نے اگلے روز کفایت شعاری مہم کا اعلان کیا ہے، وفاقی کابینہ کے اجلاس اور وفاقی وزراء کے ساتھ ہمراہ پریس کانفرنس میں کفایت شعاری مہم کے نکات اور اہداف بیان کیے گئے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اس کفایت شعاری مہم کے تحت وفاقی کابینہ کے تمام ارکان نے رضاکارانہ طور پر اپنی تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ آئندہ دو سال کے دوران کوئی انتظامی یونٹ، ڈویژن، ضلع یا تحصیل قائم نہیں کی جائے گی، جون 2024تک پرتعیش اشیا، نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہوگی۔
وزیراعظم نے توانائی بچت پلان کے بارے میں بتایا کہ سرکاری دفاتر صبح ساڑھے سات بجے کھلیں گے، توشہ خانہ سے 300 ڈالر تک مالیت کا تحفہ خریدنے کی اجازت ہوگی۔
انھوں نے وضاحت کی کہ کفایت شعاری کے ان اقدامات سے 200 ارب روپے سالانہ بچت ہوگی، یہ بچت صرف وفاقی اداروں میں ہوگی، صوبوں کا حصہ علیحدہ ہوگا۔
شہباز شریف نے کہا تمام وفاقی وزرا، مشیر ، وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی اپنے یوٹیلٹی بلز بھی اپنی جیب سے ادا کریں گے۔
کابینہ کے تمام ارکان سے لگژری گاڑیاں واپس لی جا رہی ہیں جن کو نیلام کیا جائے گا، جہاں ضرورت ہوگی، وہاں وزرا کو سیکیورٹی کے لیے صرف ایک گاڑی دی جائے گی۔
کابینہ ارکان اندرون و بیرون ملک اکانومی کلاس میں سفر کریں گے، بیرونی دوروں کے دوران وہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام نہیں کریں گے۔ کابینہ کا رکن، عوامی نمایندہ یا سرکاری افسر لگژری گاڑی پر سفر نہیں کرے گا، سرکاری افسران کے پاس موجود سکیورٹی گاڑیاں واپس لی جا رہی ہیں، صرف خطرے کی صورت میں افسران کو سکیورٹی دی جائے گی۔
بیرون ملک سفری اخراجات اور قیام میں کمی لائی جائے گی۔ سرکاری دفاتر میں کم بجلی استعمال کرنے والے آلات کا استعمال کیا جائے گا، سرکاری ملازمین اور حکومتی اہلکاروں کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ نہیں کیا جائے گا، وفاق اور صوبوں میں انگریز دور کے سرکاری گھر میں جو کئی ایکڑ پر مشتمل ہیں کی فروخت کے لیے وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
ان افسروں کے لیے ٹاؤن ہاؤسز تعمیر کیے جائیں گے اور تمام سہولیات کے ساتھ اچھے گھر دیے جائیں گے جب کہ موجودہ گھروں کی زمینوں کو بیچ کر اربوں روپے کے وسائل جمع کریں گے۔
تمام وزارتی اور ادارہ جاتی اخراجات میں 15فیصد کمی کی جائے گی، سرکاری تقریبات، وفاقی وزارتوں، اداروں میں ون ڈش کی پابندی ہوگی، چائے کا موقع ہوگا تو صرف چائے اور بسکٹ دیے جائیں گے۔ غیر ملکی مہمانوں کے لیے یہ پابندی نہیں ہوگی۔
وزیراعظم نے صوبائی حکومتوں، عدلیہ سے درخواست کی کہ کفایت شعاری اور سادگی پر عمل کریں، پاک فوج نے غیر جنگی اخراجات میں کمی کے لیے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
توشہ خانہ کے حوالے سے کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آج کے بعد300 ڈالر یا 80 ہزار روپے مالیت تک تحفہ رکھا جا سکے گا، اس سے زیادہ قیمت کا تحفہ جمع ہو جائے گا، توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
توشہ خانہ میں صدر، وزیراعظم، وفاقی وزرا، گورنرز اور سرکاری افسران کے تحائف آتے ہیں، ان پر پابندی لاگو ہو گی۔ عدلیہ کے ججز اور عسکری قیادت کے ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں نہیں آتے۔ توشہ خانہ کے تحائف کا آزادہ تھرڈ پارٹی آڈٹ کرے گی۔
کفایت شعاری کے ان تمام اقدامات کا نفاذ ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس سمیت تمام اداروں اور دفاتر پر ہو گا۔
وزیراعظم نے کفایت شعاری کے حوالے سے جوجو فیصلے کیے ہیں 'انھیں دیر آید درست آید کہا جا سکتا ہے تاہم کفایت شعاری کے حوالے سے میڈیا میں جو اقدامات بتائے گئے ہیں 'ان کے بارے میں کچھ ابہام موجود ہیں 'جنھیں دور کیا جانا ضروری ہے تاکہ کفایت شعاری مہم اپنے اہداف کا حصول سو فیصد بنا سکے۔
توشہ خانہ کے تحائف کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 300ڈالر یا 80ہزار روپے تک کا تحفہ رکھا جا سکے گا۔اب اس میں ابہام یہ رکھا گیا ہے کہ تحفے کی قیمت کی حد طے کرتے وقت روپے کے ساتھ ڈالر کو بھی نتھی کر دیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تحفہ پاکستان کی ملکیت ہے' پاکستان کی اپنی کرنسی روپیہ ہے 'اس صورت میں سرکاری تحفے کی مالیت صرف روپے میں مقرر ہونی چاہیے۔ ڈالرکا مطلب یہی ہے کہ اگر آج 300ڈالر 80ہزار روپے کے برابر ہیں تو ممکن ہے 6مہینے بعد یہی 300ڈالر ایک لاکھ روپے کے ہو جائیں گے۔
ملک کے پالیسی سازوں کو کم از کم اس قسم کی چالاکی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے' جب 80ہزار روپے مقرر کر دیا گیا ہے تو اس کا مطلب 80ہزار ہی ہونا چاہیے۔
ڈالر کا دم چھلا لگانے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح کابینہ عدلیہ اور فوج کے اعلیٰ عہدے داران کو ملنے والے تحائف کے بارے میں کوئی فیصلہ کر کے قومی اسمبلی میں قانون سازی کی جا سکتی ہے تاہم یہ تحفے بھی سرکاری توشہ خانے میں جمع ہو جائیں۔
بچت کے اقدامات میں انگریز دور کے سرکاری گھروں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے' اس حوالے سے بھی کئی اور آپشنز اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
انگریز دور کے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز ہاؤسز کو ریزور کیا جا سکتا ہے۔ ان رہائش گاہوں کو دیکھنے والوں کی کمی نہیں ہے' ان گھروں کی سیاحت کرنے والوں سے رضا کارانہ ٹکٹ لیا جا سکتا ہے۔ جیسے برطانیہ میں کئی جگہیں ایسی ہیں جن کو دیکھنے کے لیے سرکاری سطح پر کوئی ٹکٹ مقرر نہیں ہے تاہم سیاحوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ دینا چاہیں تو دے دیںتاکہ ان عمارتوں کی دیکھ بھال ہوتی رہے۔
اس کے علاوہ بعض عمارتوں کو ہوٹل یا ریستوران کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے 'اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ حکومت کو مسلسل ریونیو بھی ملتا رہے گا اور یہ ایک تاریخی عمارتیں سرکار کی ملکیت بھی رہیں گی۔
انھیں فروخت کرنے کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ ایک دفعہ رقم لے کر نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا 'اس کے بعد نجی شعبہ جو مرضی کرے۔
صبح ساڑھے سات بجے سرکاری دفاتر کھولنے کا فیصلہ سراہے جانے کے قابل ہے 'سرکاری افسر وں اور ملازموں کی وقت پر حاضری یقینی بنانے کے لیے سرکاری دفاتر میں اینٹرنس گیٹ پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے چاہئیں 'افسروں اور ملازموں کے کمروں کے باہر بھی کیمرے نصب ہونے چاہئیں اور اندر بھی تاکہ پتہ چل سکے کہ افسر موصوف اپنے کمرے میں بیٹھ کر کن مشاغل میں مصروف رہتے ہیں۔
اسی طرح سرکاری ملازموں کا بھی پتہ چلے گا کہ وہ سائلین کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اور کتنا کام کرتے ہیں۔
اسی طریقے سے ان کا احتساب ممکن ہو سکے گا 'ان کے آنے اور جانے کا ٹائم چیک ہو سکے۔دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں صبح جلدی دفاتر کھلتے ہیں 'نجی کمپنیوں کے دفاتر بھی صبح جلدی کھلتے ہیں 'پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔یہ پابندی نجی شعبوں پر بھی عائد ہونی چاہیے۔
پولیس تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکے ہیں۔پولیس تھانوں کے کلچر کو تبدیل کرنے کے لیے جتنے مرضی قوانین بنا لیں'معاملات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔
تھانوں میں اور افسروں کے کمروں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہوں گے اور ان کیمروں کا ریکارڈ تھرڈ پارٹی کے کنٹرول میں ہو گاتو پولیس کا قبلہ خود بخود درست ہو جائے گا کیونکہ پولیس افسر اور اہلکار کو پتہ ہو گا کہ اس کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے اور یہ ریکارڈنگ اس کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں ہے۔اس لیے وہ خود بخود ہی قانون کے مطابق اپنے فرائض ادا کریں گے۔
پاکستان کو اب سرد جنگ کے دور کی طرح چلایا نہیں جا سکتا 'عوام سے ٹیکس وصول کر کے ریاست کے ملازموں پر بے دریغ خرچ نہیں کیا جا سکتا نہ ہی ریاست کی ملکیتی زمینوں اور جائیدادوں کو صوابدیدی اختیار ات کے لبادے میں کسی ریاستی عہدے دار کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔
وزیراعظم کے سربراہی میں کابینہ نے کفایت شعاری کے حوالے سے جو اقدامات تجویز کیے اور فیصلے کیے ہیں 'اس کا دائرہ کار ابھی مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ صدر ہو یا وزیراعظم 'گورنر صاحبان ہوں یا وزرائے اعلیٰ صاحبان یا سول سروس کے اعلیٰ افسران ' کسی کو بھی مالیاتی صوابدیدی اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
کسی چیریٹی ادارے کو سرکاری املاک فروخت کرنے یا لیز کرنے کا قانون مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے ۔چیریٹی اداروں کو چندہ مانگنے یا ڈونیشنز وصول کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔
جس امیر آدمی 'سیلیبریٹی یا کسی خاندان اور برادری نے کوئی فلاحی کام کرنا ہے تو وہ اپنے پیسوں سے کرے 'حکومت کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ عوام کے ٹیکسوں کی کمائی نجی شعبے کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرے۔عوام کے ٹیکسوں کی کمائی ریاست اور حکومت کی ملکیت تعلیمی اداروں اور اسپتالوں پر خرچ کی جائے۔